بندٔہ صحرائی، مردِ کہستانی و میدانی ایک پیج پر؟ – حسن نثار
سب سے پہلے بلا تبصرہ اک اخباری خبر
’’قانون میں ترمیم کے بعد یہودیوں کو شہریت دے دی گئی ۔امارات لیکس کا انکشاف‘‘
’’یہودی سرمایہ کار اپنے ملک کی شہریت بھی برقرار رکھ سکیں گے ‘‘
’’تجزیہ کاروں نے عرب امارات کے بھی فلسطین بننے کی پیش گوئی کر دی ‘‘
قارئین !
ہم یعنی اس خطہ کے مسلمانوں کی تو دنیا ہی کچھ اور ہے کہ غزنویوں، غوریوں، مغلوں، ابدالیوں، نادر شاہوں کے ’’مفتوحین‘‘ اور ’’مداحین‘‘ رہے اور میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر آج عہدِ حاضر میں جب دنیا گلوبل ویلیج کہلاتی ہے ، ہمارے ہم وطن مقامی حکمران ہمارا بے رحمانہ استحصال کرتے ہیں تو صدیوں پہلے کی وحشی دنیا میں ’’ہمارے‘‘ غیر ملکی فاتحین ہم مقامی مفتوح مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہوں گے اور صدیوں کے ان صعوبت ناموں نے ہماری نفسیات پر کیسے کیسے اثرات نہ مرتب کئے ہوں گے؟لیکن عربوںنے تو ’’سپرپاوری‘‘ کا ذائقہ بھی چکھا ہے تو پھر ان کو کیا ہو گیا؟ اقبال صاحب تو کہتے رہے ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے ‘‘ تو یہ ہو کیا رہا ہے کہ حالات کبھی عربوں اور ایرانیوں کے درمیان بھی نارمل نہ رہے ۔
کیا عرب بہت پریکٹیکل اور سیانے ہیں ؟
کیا وہ ـ”CAN NOT FIGHT THEM JOIN THEM”والی لاجک کے ستائشی ہیں ؟
کیا وہ ’’بزدل‘‘ ہیں ؟
کیا وہ "I FOR MYSELF” پر یقین رکھتے ہیں ؟
کیا وہ ’’آلِ ابراہیم کو اکاموڈیٹ کرنے سپیس دینے کے قائل ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔
تاریخ کا مجھ جیسا نالائق طالب علم ان بیشمار سوالوں کے درمیان خود کو دھوبی کا وہ پالتو محسوس کرتا ہے جو روحانی، فکری، جذباتی، عملی طور پر نہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا ۔ اسلام طلوع اور شروع ہوا تھا عرب سے لیکن آج عربوں، ترکوں، کردوں، بربروں سے بھی بڑھ کر ہم نے ’’ٹھیکے داری ‘‘ سنبھالی ہوئی ہے تو بھائی! نہ ہم تاریخی طور پر ان کے مقابل نہ مالی طور پر، ان سے ’’امدادیں‘‘ بھی لیتے ہیں ان پر عجیب قسم کے اعتراضات بھی کرتے ہیں تو بالآخر یہ ہے کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ فلپ کے ہیٹی کے مطابق قرون وسطی اپنی تمام تر جہالت و تاریخی کے باوجود عربوں پر تاریکی طاری نہ کر سکا۔ سلطنت عثمانیہ صدیوں اقتدار میں رہی اور اس پورے دور میں پورا عرب زوال کی منزلیں طے کرتا رہا ۔عثمانی ترکوں نے نہ صرف عرب ملکوں کو فتح کیا بلکہ قفقاز سے لیکر ویانا کے دروازوں تک سارے علاقوں پرقسطنطنیہ المعروف استنبول میں بیٹھ کر حکومت کرتے رہے اورصدیوں تک مغربی یورپ کی بساط سیاست پر چھائے رہے ۔ اس دوران دمشق، بغداد او رقاہرہ جیسے شہر جو کبھی تہذیب و تمدن کے مراکز تھے ، اب زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے ۔ترک سلاطین نے اپنی مملکت کی حدود میں عربوں کے سوا بے شمار مختلف وضع اور مختلف مذاہب و خیال قوموں، مذہبی فرقوں اور لسانی وحدتوں کو تلوار کے زور پر متحد رکھا سواگر ان حالات میں عربی بولنے والی قومیں تخلیقی آرٹس، سائنس اور ادب کا کوئی نادر نمونہ دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکیں تو یہ قابل فہم ہے ۔ جب ترک مسلمانوں کا عروج تھا، دنیائے عرب جس کے دامن کبھی ایران سے سپین تک پھیلے ہوئے تھے، اپنی موجودہ حدوں( اس وقت) میں سمٹ کر رہ گئی۔ ایرانی قومیت اور زبان پھر سے زندہ ہو گئ۔ سپین ہمیشہ کیلئے ہاتھ سے نکل گیا۔ شمالی افریقہ، مصر، جزیرہ نمائے عرب اور عرب کی ہلال نما شاداب سرزمین، بحرالکاہل سے لیکر بحیرہ فارس تک کا متصل علاقہ ….ان سب ملکوں نے صرف عربی زبان کو ہی برقرار رکھا اور آج ان کی زندگی میں بس یہی اثاثے محفوظ رہ گئے ہیں ۔پھر پچھلی صدی کے 7ویں عشرہ میں عرب قومی تحریک کی صورت میں تجدد کا عمل کمال کو پہنچا۔عربوں کی عظمت رفتہ اور ثقافتی کارناموں کی شہرت نے اس چنگاری کو ہوا دی ۔عالی ہمت مصری رہنما محمد علی نے ایک آزاد عربی سلطنت کا خواب دیکھا لیکن یہ منصوبہ برطانیہ اور دیگر یورپی حکومتوں کے مفادات سے ٹکرا رہا تھا ۔1830میں الجیریا پر فرانس قابض ہوا ۔تیونس نے 1881ء میں گھٹنے ٹیک دیئے ۔1912ء تک فرانس، سپین، اطالیہ نے مراکش سے لیکر لیبیا تک پر قبضہ کر لیا ۔ایک نئی عرب سلطنت کے قیام کی ایک اور کوشش شریف مکہ نے کی۔اس کا بیٹا فیصل پہلے شام پھر عراق کے تخت پر بیٹھا دوسرا عبداللہ شرق اردن کا والی بن گیا لیکن حالات نے ثابت کیا کہ محمد علی کی طرح حسین کی جدوجہد بھی قبل از وقت تھی ۔پہلی جنگ عظیم نے سینا سے خلیج فارس تک اور جنوب کے پورے علاقہ کو ترکوں کی ’’غلامی‘‘ سے آزاد کرا دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سات بڑی عرب ریاستیں ’’عرب لیگ‘‘ کے تحت متحد ہو گئیں یعنی مصر، عراق، سعودی عرب، یمن، لبنان، شام اور شرق اردن ۔عربوں نے ماضی میں دنیا کو بہت کچھ دیا ۔کاش یہ آج بھی نشاۃ ثانیہ کو ممکن بنا سکیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ قدرت کے مقاصد کی نگہبانی بندہ صحرائی کرتا ہے یا مرد کہستانی لیکن آج کی کہانی تو وہ ’’خبر‘‘ ہی ہے جس سے میں نے اس کالم کا آغاز کیا یعنی یہودیوں کو شہریت دیدی گئی اور وہ اپنے ملک کی شہریت بھی برقرار رکھ سکیں گے۔کیا کبھی کلمہ گو ایک پیج پر آسکیں گے؟ ایک دوسرے کے نہ سہی کسی تیسرے پیج پر ہی اکٹھے ہو سکیں گے کہ اس کے بغیر …
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Banda Sehraye, MArd KOhistani wa Medani Ik Page per By Hassan Nisar