’’’’بندر، پنجرہ، کرنٹ اور آزادی‘‘ – حسن نثار
ہم کیسے لوگ ہیں اور ہماری ’’تعمیر‘‘میں استعمال ہونے والا میٹریل کیسا ہے ؟چلتی ٹرین جلتے جہنم میں تبدیل ہو گئی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، مناظر بے شمار ٹی وی چینلز پر چلتے اور دیکھے گئے، اگلے روز اخبارات کے فرنٹ پیجزپر اس حادثہ کی تفصیلات بھی موجود تھیں۔بچہ بچہ جان چکا تھا کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ کچھ لوگوں نے قانون شکنی کرتے ہوئے چلتی ٹرین میں گیس سلنڈرز سے چولہے جلائے، ناشتے بنائے اور چائے نوشی فرمائی جس کی قیمت ان معصوموں کو بھی چکانی پڑی جو اس جرم میں شریک نہیں تھے۔
حادثہ تھا گزر گیا ہو گاکس کے جانے کی بات کرتے ہولیکن میرے نزدیک اس سے بھی کہیں بڑا حادثہ تو اگلے روز اس وقت ہوا جب مختلف مسافر گیس سلنڈرز کےساتھ ریلوے اسٹیشن پر پکڑے گئے حالانکہ وہ سب جانتے تھے کہ گزشتہ روز انہی سلنڈرز کی وجہ سے کیسی تباہی ہوئی اور یہ خبر پڑھتے ہی اس سوال نے سر اٹھایا کہ ہم کون لوگ ہیں؟کیسے لوگ ہیں اور ہماری ’’تعمیر‘‘ میں استعمال ہونے والا ’’میٹریل‘‘ کیسا ہے کہ اگر میٹریل ہی ناقص، دونمبر اور گھٹیا ہو تو ’’عمارت‘‘ شاندار و پائیدار کیسے ہو سکتی ہے؟
اسی لئے اک مدت سے مسلسل محو ماتم ہوں کہ ہمارا اصل مسئلہ اقتصادیات نہیں، تباہ حال اخلاقیات ہے لیکن مجال ہے جو اس ملک کے کرتوں دھرتوں کے کانوں پر کبھی جوں بھی رینگی ہو۔ کبھی کبھی تو یہ گمان بھی گزرتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوریئے اس قابل بھی نہیں کہ یہ سادہ سی بات ہی سمجھ سکیں کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں۔
مہذب معاشرہ تو بہت ہی دور دراز کی بات ہے، کیا کسی نارمل انسانی معاشرہ میں یہ ممکن ہے کہ اتنا بڑا حادثہ گزرنے کے اگلے روز ہی ’’غیور اور باشعور‘‘ عوام وہی پریکٹس جاری رکھیں جو چند گھنٹے قبل ہی کئی لوگوں کو نگل گئی ہو، کئی خاندان برباد کر گئی ہو۔
ایسا تو شاید کسی پسماندہ ترین معاشرہ میں بھی ممکن نہ ہو لیکن یہاں تو الامان الحفیظ کہ ابھی لاشوں کی شناخت کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا کہ ایکشن ری پلے نے کم از کم مجھے تو ہلا کے رکھ دیا ہے کہ میرے نزدیک تو یہ حادثہ اصل حادثہ سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہے۔
اے رب العزت! اے شاہ مدینہ !ہمیں ہمارے ہاتھوں سے محفوظ رکھ کہ دشمن تو شاید پھر تھوڑا بہت رحم روا رکھے لیکن ہم ایک دوسرے تو کیا خود اپنے آپ پر بھی رحم کھانے کوتیار نہیں اور اس بدصورت ترین صورتحال کو سمجھنے کیلئے ہم ایک تجربہ کی روداد بیان کرتے ہیں جو فکشن نہیں سو فیصد حقیقت ہے۔اک بہت بڑا پنجرہ بنوایا گیا جس میں بجلی کے کنٹرولڈ کرنٹ کا فول پروف بندوبست تھا یعنی کرنٹ کے گھٹانے بڑھانے کا پورا پورا انتظام تھا۔
پھر اس پنجرے میں 22بندر بند کرنے کے بعد ہلکا سا کرنٹ چھوڑا گیا تو بندروں نے اچھل کود شروع کر دی اور پنجرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش بھی کی۔
چند روز یہ پریکٹس جاری رکھنے کے بعد کرنٹ میں اضافہ کر دیا گیا تو بندروں نے پھر اسی جوش و جذبہ سے اچھل کود کرنے کے ساتھ ساتھ باہر نکلنے کے لیے دروازے کے ساتھ زور آزمائی کی اس دوسرے مرحلہ کے انجام پر صورتحال یہ تھی کہ بندروں نے کرنٹ پر ری ایکٹ کرنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ اس کے عادی ہو گئے تھے یا یوں سمجھیں کہ انہوں نے اس کرنٹ کو اپنا مقدر سمجھ کر اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔
اب تجربہ کرنے والوں نے باہمی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ کرنٹ میں مزید اضافہ کر دیا جائے۔ کرنٹ کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی بندروں نے ایک بار پھر مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔
ادھر ادھر ٹکریں ماریں، دروازے کے ساتھ بھی سر پٹخا لیکن نتیجہ صفر،تیسرے مرحلہ کے اس مزید کرنٹ کے ساتھ بھی چند روز یہ سلسلہ جار ی رکھا گیا تو اس تین گنا زیادہ کرنٹ کے مقابل بھی بندروں کی مزاحمت بتدریج گھٹتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ کوئی چوں بھی نہیں کرتا تھا ۔چوتھی مرتبہ کرنٹ میں مزید اضافہ کر دیا گیا، پھر بھگدڑ مچی، دروازے کے ساتھ زور آزمائی کی گئی اور پھر بتدریج ٹھنڈ پڑتی چلی گئی۔
کرتے کرتے آخری مرحلہ پر تجربہ کرنے والوں نے کرنٹ میںپھر تھوڑا سا اضافہ کیا اور ریموٹ کنٹرول سے پنجرے کا دروازہ کھول کر انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں کوئی بندر باہر نکلتا ہے یا نہیں۔ کوئی بندر باہر نہیں نکلا، سب اپنی اپنی جگہ شانت بیٹھے رہے۔
لمبی غلامیوں کے بعد آزادی مل بھی جائے تو اسے استعمال کرنے کی خواہش اور تمیز شاید ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مرچکی ہوتی ہے اور اسے دوبارہ زندہ کرنا ہی اصل قیادت اور مسیحائی کہلاتی ہے۔ TOLD SWEETUNTOLD SWEETER
Source: Jung News
Read Urdu column Bandar pinjrah current aur azadi By Hassan Nisar