بے پیندے کے برتن! – ارشاد بھٹی

irshad bhatti

جو استاد کبھی بھولے، نہ بھولیں گے، ان میں بشیر دیوانہ، رائے زمان، رفیق بٹ، حافظ بنیامین، پی ٹی ماسٹر بشیر، پی ٹی ماسٹر نواز،ماسٹر نورمحمد، ماسٹر عمر حیات، ماسٹر حنیف اور ماسٹرمحمد اسحق قادری، ماسٹر اسحق میرے پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر، پانچویں جماعت تک ان سے پڑھا، بلکہ قرآن بھی انہی سے پڑھا۔

بھارت کے ضلع انبالہ کی تحصیل نارائن گڑھ کے گاؤں شاہ پور میں پیدا ہونے والے ماسٹر صاحب 1947میں ہجرت کرکے پاکستان آئے، 1955میں گورنمنٹ ہائی اسکول پنڈی بھٹیاں سے میٹرک کیا، ماسٹر صاحب نے بعد کے سب تعلیمی مرحلے بحیثیت پرائیویٹ طالبعلم طے کئے، اردو، انگریزی، فارسی پر کمال دسترس، کیا بے مثال استاد، ان کے طالبعلموں میں سی ایس پی افسر بھی،سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ماسٹر اسحٰق بلا کے مقرر، کوئی بھی موضوع ہوتا۔

سحر زدہ کر دیتے،جوتعلیمی خدمات، بلاشبہ ہمارے علاقے کے سرسید احمد خان، چند سال پہلے وفات پائی مگر آخری لمحوں تک صحت مند، اپنے قدموں پر، انکی شریک حیات ماشاء اللہ حیات، ماسٹراسحق کے پانچ بیٹے، ایک بیٹی، بڑا بیٹا جاوید اسحق،یونیورسٹی آف سرگودھا میں پروفیسر، ذوالفقار تبسم، مولانا طارق جمیل کے نقشِ قدم پر، طاہر اسحٰق، گورنمنٹ ہائی اسکول پنڈی بھٹیاں میں استاد، سماجی کاموں، سوشل نیٹ ورکنگ میں پیش پیش،شاہد اسحق،راشد اسحق بھی اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب۔

ان دنوں ماسٹر صاحب بہت یاد آرہے،وجہ، ماسٹر صاحب کی یہ بات، جب کسی طالبعلم کو نالائق، نکما، سست ڈکلیئر کرنا ہوتاتو کہا کرتے ’’ ابے بے پیندے کے برتن،تجھے پڑھا پڑھا، رٹا رٹا کرتھک گیا، تیرے پلے کچھ پڑ ہی نہیں رہا‘‘، ایک عرصہ تک پتا نہ چلا کہ یہ بے پیندے کا برتن کیا، مطلب کیا، لیکن جس روز مطلب سمجھ آیااس دن جن جن دوستوں کو ماسٹر صاحب بے پیندے کا لوٹا کہا کرتے، ان سب کو ذہن میں لایا،حیرانی ہوئی کہ نہ صرف یہ کل بلکہ آج بھی بے پیندے کے برتن، عرفان عارفی، ترقی، خوشحالی کے بیسوؤں مواقع ضائع کرکے ان دنوں گاؤں کی مسجدمیں ڈیرے ڈالے بیٹھاْ

ملک گلزار،جب بھی ملو بے روزگار، فیض بھٹی منصوبہ بندی اورعملی صورتحال، باتیں کروڑوں کی، دکان پکوڑوں کی، یہ فیض بھٹی ہی تھا جس نے ایک روز مجھے اطلاع دی کہ ’’سورج رات کو بھی نکلتا ہے بس اندھیرے کی وجہ سے ہمیں نظر نہیں آتا۔

نکماپن، نالائقی، سستی، پھوہڑپن کو لفظ بے پیندے کے برتن مطلب سمندر کو کوزے میں بند کر دینے والے ماسٹر اسحق اس لئے بھی یاد آرہے کہ ان دنوں میں اپنے بے پیندے کے برتن نما مسائل کی ٹوہ میں لگا ہوا،ہم جو اوپر سے نیچے تک مس مینجمنٹ اور بدنیتی کے شاہکار، ہمارے آج ٹاپ تھری بے پیندے کے برتن نمامسائل میں آبادی بم، غیر معیار ی تعلیم اورلاغر معیشت، آبادی ہمارا وہ بے پیندے کا برتن،جس برتن میں جتنا ڈالو اُتنا کم،پاکستان بنا۔

آبادی لگ بھگ 4کروڑ، اب 22کروڑ سے بھی زیادہ، اسی رفتار سے آبادی بڑھتی رہی، اگلے 72برسوں بعد، لوگ، لوگوں کو کھارہے ہوں گے، کھوتے، کتے، مینڈک توہم کھاچکے، ہمارا دوسرا بے پیندے کا برتن نما مسئلہ ہماری غیر معیاری تعلیم، جتنا پڑھ لو، ککھ فرق نہیں پڑنے والا، 5قسم کے نصاب، زمانہ قدیم سے بھی پہلے کے موضوع، تعلیمی ادارے دھڑا دھڑ بےروزگار پیدا کررہےْ

اقبال کے شاہین بی اے، ایم اے کرکے کلرکی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے، ایسا نصابِ تعلیم خود بھی مَرا مکا ہوا، خودی کو بھی مار مُکا چکا، ہمارے تعلیمی نظام کا ہنر، فن، سائنس، ٹیکنالوجی سے تعلق نہ تحقیق وفکر سے کوئی واسطہ،ایک کوالٹی آف اسکولز نہیں، کوالٹی آف نصاب نہیں اور سونے پہ سہاگہ کوالٹی آف ٹیچرز نہیں، پرائمری تعلیم جس پر سب سے زیادہ فوکس ہوناچاہیے، سب سے زیادہ نظر انداز، عجیب وغریب رٹامار کنفیوژ نسل پیدا ہورہی۔

ہماا تیسرا بے پیندے کا برتن نمامسئلہ لاغر معیشت، حالت یہ، جس شعبے میں نظر مارو، خسارہ ہی خسارہ، پچھلے 50برسوں سے ہم قرضوں پرجی رہے، ایک سے قرضہ لینادوسرے کو دینا، دوسرے سے قرضہ لیکر پہلے کو دے دینا، یہ ہماری حکومتوں کا سب سے بڑا کام، کوئی منصوبہ بندی، کوئی لائحہ عمل نہیں، جوآیا، ڈنگ ٹپاؤ کا رروائیاں ڈال کر چلتا بنا، صورتحال یہ، پچھلے 72برسوں میں آمریت، جمہوریت، پارلیمانی نظام، صدارتی نظام سب کے سب قوم کو پینے لائق ایک گلاس پانی نہ دے سکے، ملک چراگاہ، ملک تجربہ گاہ،لٹیروں کی واہ واہ، غریبوں کی ہرجگہ ٹھاہ ٹھاہ۔

اب سوال یہ، ہمارے مسائل بے پیندے کے برتن کیوں بنے، جواب بہت آسان، اس لئےکہ ہمارے مسائل حل کرنے والے خود بے پیندے کے برتن نکلے، دماغی طور پر سب کے سب بے پیندے کے برتن، چونکہ انکا اپنا برتن خالی، لہٰذا قوم کے دستر خوان سے ملکی خزانے تک سب کچھ خالی، ہاں ان شاہ دولے کے چوہوں کے پاس جو رتی بھر یا چٹکی بھردماغ تھا انہوں نے وہ اپنی اولادیں سیٹ کرنے، جائیدادیں بنانے میں لگادیا۔

اب آپ کہیں گے، حل کیا، بہت سادہ اورآسان، پہلے تو بےپیندے کے برتن نما کو ڈو حکمرانوں سے جان چھڑائیں، پھر پہلی فرصت میں آبادی کے بےپیندے کے برتن کو پیندا لگائیں، شرح آبادی کی حد مقرر کریں، جس طرح پوری قوم جہاد سمجھ کر آبادی بڑھانے میں لگی ہوئی۔

اس طرح پوری قوم آبادی کنٹرول کرنے کو بھی جہاد سمجھے، تعلیمی بے پیندے کے برتن کو پیند الگائیں، وہ تعلیم جو ہنر مند پیداکرے، وہ تعلیم جو تحقیق، جستجو، سائنس، ٹیکنالوجی سے جڑی ہوئی، کوالٹی آف ایجوکیشن، کوالٹی آف اساتذہ پر فوکس کریں، پرائمری تعلیم مطلب بنیاد اچھی ہو، معیشت کے بے پیندے کے برتن کو پیندا لگائیں، چوریاں، ڈاکے،لٹ مار روکیں۔

خرچے کم، مرحلہ در مرحلہ قرضوں سے جان چھڑائیں، کوڈو حکمران جو لوٹ لے گئے، وہ لٹا مال واپس لائیں، نہیں لاسکتے تو کم ازکم مزیدلٹ مار کے رستے تو بند کر دیں، یقین جانیے، وقت کم مقابلہ سخت، اب بھی کچھ کر لیں، ورنہ ماسٹر اسحق کی طرح آئے روز امریکہ، چین، ہمارے برادر اسلامی ممالک ہم عیاش فقیروں، مطمئن بے عزتوں، ہم بے فکرے نکموں کے کان پکڑ کر کہہ رہے ہوں گے ’’ ابے بے پیندے کے برتنو، ہم دے دے تھک گئے، تمہار ا کشکول ہے کہ بھرتا ہی نہیں‘‘۔

Source: Jung News

Read Urdu column Bay Penday k Burtan By Irshad Bhatti

Leave A Reply

Your email address will not be published.