بے حس حکمران- علی معین نوازش
کسی قوم پر جب ایسا وقت آ جائے کہ اُس قوم کی اشرافیہ اور حکمران عام آدمی کے مسائل سے لا تعلق اور بےحس ہو جائیں ، وہ عوام کے اہم ترین مسائل کو بھی سنجیدگی سے نہ لیں اور نہ اُن کے کسی مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تجویز کر سکیں تو اُس قوم کو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ اُس کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسی صورتحال معاشرے کی ساکھ کو شدید متاثر کرتی ہے کیونکہ ایسے مواقع پر بے شمار خطرناک عناصر نہ صرف جنم لیتے ہیں بلکہ صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عام آدمی کا مزید استحصال بھی کرتے ہیں۔
روز افزوں مہنگائی اور پیٹرول کی قیمت آج تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے اور اِس معاشی بحران کی وجہ سے ہر پاکستانی شدید متاثر ہوا ہے۔یہ مہنگائی پاکستان کی اشرافیہ اور حکمرانوں کو قطعاًویسے متاثر نہیں کرتی جیسے مشکل سے دو وقت کی روٹی کھانے والے غریب عوام کو کرتی ہے۔ اِس مہنگائی نے ہمارے حکمران طبقے اور اشرافیہ کی آسائشات کو بمشکل کم کیا ہو گا لیکن غریب آدمی کے لئے روٹی، تعلیم، صحت اور بجلی کے بلوں کا انتظام کرنا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔
حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اپنی ناکام اور ناقص معاشی پالیسیوں کو درست کرنے کی بجائے عوام کو یہ کہا جاتا ہے کہ مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں خطے کے دیگرممالک کے مقابلے میں سب سے کم قیمت پر پیٹرول فروخت ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چینی کم استعمال کریں، روٹی ایک کھا لیں، ساتھ ہی ساتھ عوام کو یہ تاکید بھی کی جاتی ہے کہ اپنی آمدن خود بڑھائیں ، پھر ہی مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں گے۔ سب سے بڑا لطیفہ تو یہ ہے کہ یہ مہنگائی، جو تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے،اُس کا ذمہ دار بھی موجودہ حکومت گزشتہ حکومت کو ٹھہراتی ہے، ایک ایسی حکومت جو اپنے وزیر اعظم کے پانچ سال پورے نہ کروا سکی وہ بھلا اقتدار ختم ہونے کے تین سال بعد بھی ملک میں مہنگائی کیسے بڑھا سکتی ہے؟
سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ اووسیز پاکستانی جو موجودہ حکومت کے حامی ہیں، وہ پاکستانیوں کو بار بار یہ درس دیتے ہیں کہ مہنگائی تو باہر کے ممالک میں بھی ہے، پیٹرول تو یہاں بھی مہنگا فروخت ہوتا ہے لیکن یہاں تو کوئی مہنگائی پر واویلہ نہیں کر رہا۔ گزشتہ دِنوں ایک وڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں برطانیہ میں مقیم ایک اووسیز پاکستانی خاتون کہہ رہی تھی کہ پاکستان میں تو لوگ بہت موج سے رہ رہے ہیں، برطانیہ میں تو زندگی بہت مشکل ہے، اُن کا یہ بھی فرمانا تھا کہ عمران خان کا ہدف اِس وقت مہنگائی کنٹرول کرنا نہیں بلکہ عالمی منظر نامہ پر پاکستان کو نمایاں کرنا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ ہم جب عالمی سطح پر قیمتوں سے بار بار موازنہ کرتے ہیں اُس وقت ہم اُن ممالک کے رہائشیوں اور ایک پاکستانی کی آمدن کا موازنہ کیوں نہیں کرتے؟امریکہ ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں بیٹھ کر پیٹرول کی قیمت کا موازنہ کرنے والے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اِن ممالک میں سالانہ فی کس آمدنی 40سے 60ہزار ڈالر کے درمیان ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی 11سو ڈالر کے قریب ہے جو روپے کی کم ہوتی قدر کے ساتھ مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے خطے میں بھی جہاں انڈیا میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 250روپے بتائی جاتی ہے ، وہاں بھی فی کس سالانہ آمدنی 23سو ڈالر ہے اور وہاںقیمتوں میں ہونے والے اضافے کی شرح بھی پاکستان میں قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے کم ہے۔ پاکستان میںسب سے کم آمدنی والا شخص اگر 10لیٹر پیٹرول ڈلواتا ہے، جو موٹر سائیکل کا ایک ٹینک بنتا ہے، تو اُس کی آمدن کا 10فیصد حصہ خرچ ہو جاتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں یہ شرح 0.25سے 1 فیصد تک ہے۔ اُن ممالک میں شرح مہنگائی بھی 3سے 4فیصد ہے جس کو بالکل غیر معمولی کہا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح اِس کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔
دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام تاریخ کے سب سے مشکل معاشی وقت سے گزر رہے ہیں، جو تاریخ کا سب سے بے حس وقت بھی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کے باعث عالمی سطح پر ہونے والے لاک ڈائون کی وجہ سے عالمی طور پر قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کے پیچھے ناقص حکومتی پالیسیاں بھی کار فرماں ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کی بار بار تبدیلی، روپے کی قدر میں مسلسل کمی، مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کو قابو نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان جو کہ خوراک میں خود کفیل تھا ، اب زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں پر یوٹرن اور ٹیکس اکھٹا کرنے میں ناکامی کیساتھ ساتھ کاروبار کو فروغ نہ دینا پانا بھی ناکام معاشی پالیسیوں میں شامل ہے۔
لیکن اِس وقت حکمرانوں کی بے حسی سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ بے حس حکمرانوں کی طرف سے عوام کو کم روٹی کھانے، آمدن کے ذرائع بڑھانے اور دنیا کے دیگر ممالک سے قیمتوں کے موازنے کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ اِن سب باتوں ، مفروضوں اور بہانوں سے اُن عام آدمی کا کچھ نہیں بن پاتا جو ماہانہ 15 سے 20 ہزار کماتا ہے اور اِس قدر قلیل آمدنی میں اپنے خاندان کو نہیں پال سکتا۔ وہ اپنے اور بیوی بچوں کے بھوکے پیٹ کو دنیا میں مہنگائی کی شرح بڑھنے کی تسلی نہیں دے سکتا۔ وہ اپنے ماں باپ کی بیماری کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ پچھلی حکومتوں کی کرپشن کی وجہ سے موجودہ دورِ حکومت میں دوائیوں کی قیمت 4گنا تک بڑھ چکی ہے، اور نہ ہی وہ خود کو اپنی آمدنی بڑھانے کے مشورے پر عمل نہ کرنے کا قصوروار ٹھہرا سکتا ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی وجہ سے ملک میں ہر طرف بےروزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اشرافیہ یا حکمرانوں میں سے کوئی بھی 15 سے20 ہزار ماہانہ میں گھر کا بجٹ نہیں بنا سکتا۔ تحریک انصاف کا حامی کوئی بھی اووسیز پاکستانی پاکستان میں زندگی آسان ہونے کے باوجود پاکستان واپس کیوں نہیں آتا؟
ایران میں انقلاب آنے سے قبل شاہ کا بھائی کہتا تھا کہ عوام ٹریفک کارونا کیوں روتے ہیں؟ وہ ہیلی کاپٹر کیوں استعمال نہیں کرتے؟ انقلابِ فرانس سے قبل جب ملکۂ فرانس میری انتونیت کو کہا گیا کہعوام کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں ہے تو اُنہوں نے کہا کہ وہ کیک کیوں نہیں کھالیتے۔ اِن حکمرانوں کی بے حسی کے بعد کی تاریخ ہم سب جانتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Must Read Urdu column Bayhis Hukamran By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang