بیوپار – جاوید چوہدری
شکاگو کینڈی کا راز بہت دنوں بعد کھلا اور ہم یہ راز جان کر حیران رہ گئے‘ وہ روز بیسیوں مرتبہ کینڈی کا ذکر کرتا تھا۔
ایک ہاتھ سینے پر رکھتا تھا‘ سر تھوڑا ساآگے جھکاتا تھا اورمنہ ہی منہ کچھ بدبدا کر کہتا تھا ’’ میں شکاگو کینڈی کا شکریہ ادا کر رہا ہوں‘ وہ نہ ہوتی تومجھے آج یہ بھی پتہ نہ ہوتا ‘‘ ہم سب حیرت سے اس کی طرف دیکھتے تھے اور پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگاتے تھے مگر وہ ہمارے مذاق کو ذرا برابر اہمیت نہیں دیتا تھا‘ وہ دس‘ پندرہ اور بیس منٹ بعد کینڈی کو یاد کرتا تھا۔
سینے پر ہاتھ رکھ کر اس کا شکریہ ادا کرتا تھا اور اگلے ٹاسک میں جت جاتا تھا‘ وہ کھانے کی میز پر چمچ‘ چھری اور کانٹے رکھتے ہوئے‘ نیپکن کو دائیں سے بائیں جانب دھرتے ہوئے‘ ٹشو پیپر کو اٹھا کر جھٹکتے ہوئے‘ نیپکن کو اپنے سینے پر رکھتے ہوئے‘ بائیں ہاتھ میں چھری اور دائیں ہاتھ میں کانٹا اٹھاتے ہوئے‘ دوسرے کی گفتگو کو غور سے سنتے ہوئے۔
مخاطب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ چھری کانٹے سے کھاتے ہوئے‘ میزبان کے لباس‘ اس کے گھر کی سجاوٹ‘ اس کے دفتر میں پڑے ہوئے مینٹل پیس‘ اس کی خوشبو کی تعریف کرتے ہوئے‘ مخاطب کی گفتگو کی غور سے سنتے ہوئے‘ ہاتھ ملانے سے قبل ہاتھ کو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے‘ ہتھیلی پر عطر لگاتے ہوئے‘ گردن پر خوشبو لگاتے ہوئے‘ تن کر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے‘نرم آواز میں گفتگو کرتے ہوئے‘ ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے بلاتے ہوئے اور اس کے کان میں آہستہ آواز سے بات کرتے ہوئے‘ سگریٹ پینے سے پہلے تمام لوگوں سے اجازت لیتے ہوئے‘ کسی کے گھر داخل ہوتے ہوئے یا کسی سے ملاقات سے قبل چیونگم ڈسٹ بین میں پھینکتے ہوئے‘ دوسرے کے موٹاپے‘ دوسری کی ہکلاہٹ‘ دوسرے کے بھینگے پن اور دوسرے کے لنگ کو ’’اگنور‘‘ کرتے ہوئے اور جمائی یا ڈکار لینے سے پہلے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ ہمیشہ شکاگو کینڈی کا شکریہ ادا کرتا تھا۔
میں نے اس سے سیکھا آپ جب بھی کسی کے گھر یا دفتر جائیں تو زیبائش کی بڑی بڑی چیزوں کے بجائے اس کے میز پر پڑی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تعریف کریں کیوںکہ میزبان نے یہ چیزیں لمبے سفروں کے درمیان خریدی ہوتی ہیں اور ہر چیز کے ساتھ اس کی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔
آپ اس کے گھر کی آبشار‘ لان کے پودوں اور ٹی وی کی تعریف کریں گے تو اس کو اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی خوشی آپ اس کے چہرے پر اس وقت دیکھیں گے جب آپ اس کے لکڑی کے چھوٹے سے پین‘ چھوٹی سی وال ہینگنگ یا میز پر پڑی چھوٹی سی گڑیا کی تعریف کریں گے‘ لوگ عموماً ملنے والوں کے پرفیوم کے برانڈ سے واقف نہیں ہوتے لیکن آپ جب اس کے پرفیوم کا نام لے کر اس کی تعریف کرتے ہیں تو وہ حیران بھی ہوتا ہے اور خوش بھی۔
مجھے اس نے بتایا ہمارے ملنے والے دس فیصد لوگوں کو دوسروں کے ہاتھوں کے پسینے سے الرجی ہوتی ہے چنانچہ آپ پتلون یا کوٹ کی جیب میں خوشبو دار ٹشو پیپر رکھیں اور دوسروں سے ہاتھ ملانے سے پہلے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹشو سے ہاتھ صاف کر لیں اور اس کا کہنا تھا اس نے یہ تمام باتیں‘ یہ تمام عادتیں شکاگو کینڈی سے سیکھی تھیں‘ شکاگوکینڈی نے اسے بزنس ڈیل‘ ملازمین کی اقسام‘ دفتر کے لوگوں سے کام لینے کا طریقہ‘ مصنوعات کو بیچنے کا فن اور دولت کے استعمال کا ڈھنگ بھی سکھایا۔
اس نے اسے چھٹیاں گزارنے‘ لیئر ٹائم کو انجوائے کرنے‘ کپڑوں‘ جوتوں‘ ٹائیوں‘ پتلونوں اور کوٹس کی چوائس بھی سکھائی اور اس نے اسے صحت مند رہنے کے گر بھی سکھائے اور اسے مثبت رہنے کا فن بھی سمجھایا اور وہ اچھے شاگرد کی طرح ان احسانات پر ہر دس پندرہ بیس منٹ بعد شکاگو کینڈی کا شکریہ ادا کرتا تھا۔
ہم اس سے شکاگو کینڈی کے بارے میں پوچھتے تھے مگر وہ کہتا تھا میں آپ کو یہ کورس کے آخر میں بتائوں گا‘ ہم شدت سے کورس کے خاتمے کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ وہ دن آ گیا اور ہم ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر شکاگو کینڈی کا راز کھلنے کا انتظار کرنے لگے‘ وہ ہماری بے تابی کو انجوائے کر رہا تھا‘ کھانا ختم ہوا‘ گرین ٹی کا دور شروع ہوا تو ہمارا اصرار بھی بڑھ گیا‘ یہاں تک کہ اس نے ہمارے سامنے سرینڈر کر دیا‘ اس نے جیب سے درمیانے سائز کی ایک تصویر نکالی اور میز پر رکھ دی‘ ہم سب تصویر پر جھک گئے۔
تصویر میں وہ ایک بوڑھی انگریز خاتون کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا‘ خاتون کے چہرے پر جھریاں تھیں لیکن جھریوں سے کام یاب لوگوںکا اعتماد جھلکتا تھا‘ آپ کو یہ اعتماد دنیا کے ہر اس کامیاب شخص کے چہرے پر دکھائی دیتا ہے جو زندگی میں اپنے زیادہ تر گول حاصل کر لیتا ہے‘ جس کا ہاتھ کام یابی کی تھالی تک پہنچ جاتا ہے‘ ہمارا ابتدائی تاثر تھا یہ اس کی والدہ ہو گی یا پھر ہارورڈ یونیورسٹی کی اس کی استاد‘ ہم یہ تاثر لے کر اس کی طرف مڑے‘ اس نے ہماری آنکھوں میں درج یہ سوال پڑھ لیا اور قہقہہ لگا کر بولا ’’ یہ میری پہلی بیوی تھی‘‘ ہم سب کے منہ سے چیخ نکل گئی مگر اس نے قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ایک عجیب داستان سنائی۔
اس کا کہنا تھا’’ میں کراچی کی ایک بزنس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں‘ میرے والدین نے مجھے اچھی تعلیم دلائی‘ میں نے 25 سال کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کر لی‘ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرے پاس دو آپشن تھے‘ میں واپس آ جاتا اور اپنے والد کی طرح دولت کمانے کی فیکٹری بن جاتا مگر میرا خیال تھا میں کاروبار کر لوں گا‘ میں اس سے دولت بھی کما لوں گا لیکن میں شاید اس دولت کو انجوائے نہ کر سکوں کیوںکہ میرے خاندان کے کسی شخص کے پاس دولت انجوائے کرنے کا فن نہیں تھا‘ دولت میرے والد کے پاس بھی تھی اور میرے پاس بھی ہو سکتی تھی چناںچہ یہ آپشن بے معنی تھا۔
دوسرا آپشن امریکا کے کسی ادارے میں نوکری تھی‘ یہ نوکری میری مہارت میں اضافہ کر سکتی تھی‘ یہ مجھے کام‘ ترقی اوردولت کمانے کا فن سکھا سکتی تھی مگر میں دو نسلوں سے دولت مند تھا لہٰذا یہ بھی میرا مقصد حیات نہیں تھا‘ مجھے زندگی کا ڈھنگ سیکھنا تھا‘ مجھے ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائے جانے والے بزنس ٹائی کون جیسا کاروباری شخص بننا تھا‘ میں نے ’’ ڈیول ویئر پراڈا‘‘ بننا تھامگر دنیا کا کوئی ادارہ یہ ڈھنگ نہیں سکھاتا تھا۔
میں پریشان تھا اور میں نے اسی پریشانی میں شکاگو کی ایک خاتون کا انٹرویو پڑھا‘ یہ 59 سال کی بیوہ بزنس وومن تھی‘ یہ امریکا کی سو بڑی کاروباری خواتین میں شمار ہوتی تھی‘ اس نے نہ صرف بزنس میں کمال کیا بلکہ اس کی ایچ آر تھیوریاں یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی تھیں‘ میں اس کے پاس گیا‘ اس سے ملا اور میں نے اس کے ساتھ شادی کر لی‘‘۔
میری عمر اس وقت 26سال تھی جب کہ میری بیوی 60 سال کی ہو چکی تھی‘ میں نے اس کے ساتھ اس شرط پر شادی کی تھی کہ اگر ہماری علیحدگی ہو جائے یا اس کا انتقال ہو جائے تو میں اس کے اثاثوں سے کسی قسم کا حصہ نہیں لوں گا‘ دوسرا‘ میں اس کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے اخراجات خود اٹھائوں گا لہٰذا اگر دیکھا جائے تو یہ ایک ایسی شادی تھی میں جس میں ہر لحاظ سے خسارے میں تھا لیکن میں جانتا تھا یہ شادی محض شادی نہیں یہ تجربے اور ٹریننگ کی سونے کی کان ہے۔
میں اس خاتون سے وہ کچھ سیکھ سکتا ہوں جو مجھے امریکا کی تمام یونیورسٹیوں کے سارے بزنس اسکول مل کر نہیں سکھا سکتے تھے ‘ میرا یہ خیال آنے والے دنوں میں سو فیصد سچ ثابت ہوا‘میری کینڈی نے مجھے چلنے سے لے کر میز کے آداب‘ عام گفتگو سے لے کر بزنس ڈیل کے اصول اور کافی کے کپ سے لے کر ذاتی جیٹ خریدنے تک کے گر سکھا دیے‘ اس نے مجھے زندگی کے تمام رنگ‘ سارے ڈھنگ سکھا دیے‘ مجھے اس سے ملنے کے بعد معلوم ہوا میں اس شادی سے قبل جانوروں جیسی زندگی گزار رہا تھا اور میری زندگی میں اگر وہ نہ آتی تو میں فقط پڑھا لکھا چمپینزی ہوتا۔
یہ شکاگو کینڈی تھی جس نے مجھے انسان بنا دیا‘ وہ 65 سال کی عمر میں انتقال کر گئی مگر مجھے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھا گئی‘ میں واپس پاکستان آ گیا مگر میں دن میں بیسیوں مرتبہ اسے یاد کرتا ہوں اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ ہم نے اس سے پوچھا ’’ کیا جوانی میں 60 سال کی عورت کے ساتھ رہنا اذیت ناک تجربہ نہیں تھا‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’ یہ اذیت پوری زندگی جاہل‘ گنوار‘ اخلاقی لحاظ سے پس ماندہ اور ناکام رہنے کی اذیت سے بہت کمتر تکلیف تھی۔
آپ کو اگر سیکھنے کے لیے اپنی رومانوی زندگی کے چند سال قربان کرنا پڑیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا‘ میں بیوپاریوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور میں نے اس بیوپار میں انویسٹمنٹ سے کئی گنا زیادہ منافع کمایا‘ میری بیس سال کی تعلیم ایک طرف اور میری چھ سال کی وہ ٹریننگ ایک طرف‘‘ ہم نے ہاں میں سر ہلا دیا کیوںکہ وہ بیوپاری تھا اور بیوپاری کبھی بیوپار میں گھاٹے میںنہیں رہتے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Beopaar By Javed Chaudhry