بھارت کو جواب مل گیا۔مگر اب بس! – عطا ء الحق قاسمی
آج میں نے سخت غم و غصے کی کیفیت میں کالم لکھنا تھا لیکن بھارت کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے حوالے سے میں نے ابھی یہ خبر دیکھی کہ دو بھارتی طیاروں کو ہمارے شاہینوں نے مار گرایا۔ ایک جہاز کا ملبہ آزاد کشمیر کی حدود میں گرا، ایک پائلٹ کو گرفتار کرلیا گیا اور دوسرے کی تلاش جاری ہے، تو میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑگئی۔ میں گزشتہ روز سے اس ذہنی کرب میں مبتلا تھا کہ آزاد کشمیر پر سے گزر کر ہمارے خیبر پختونخوا میں بم گرانے والے بھارتی طیاروں کو واپس کیوں جانے دیاگیا؟ مجھے اس بیان پر غصہ آرہا تھا کہ ’’پاکستانی طیاروں نے ان کا پیچھا کرکے انہیں بھگا دیا۔‘‘ میرا دل اس سے مطمئن نہیں تھا۔ میری خواہش تھی کہ انہیں’’بھگانے‘‘ کے بجائے وہیں مار گریا جاتا۔ بہرحال اب صرف میں ہی نہیں پاکستان بھر کے عوام کے دلوں کو سکون حاصل ہوگیا ہے کہ ہم نے دشمن سے اس کی گھٹیا حرکت کا بدلہ لے لیا ہے اور دگنا بدلہ لیا ہے،تاہم اب ہماری کوشش ہونا چاہئے کہ بات آگے نہ بڑھے۔ دوست ملکوںاور سپر پاور کو درمیان میں ڈال کر بات یہیں ختم کردینا چاہئے، کیونکہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا تو دونوں ملکوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔ جنگ کوئی اچھی چیز نہیںہے، یہ ایک بدترین ناگزیر برائی ہے۔ ناگزیر میں نے یوں کہا کہ جب جنگ مسلط کردی جائے تو پھر پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان اور بھا رت دونوں جنگ افورڈ نہیں کرسکتے۔ آپ بھارت کی معاشی ترقی پر نہ جائیں، اس معاشی ترقی کا کوئی فائدہ بھارتی عوام کو نہیں پہنچا۔ ہماری معاشی حالت تو ویسے ہی بہت پتلی ہے، چنانچہ باقاعدہ جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں کے غریب عوام بہت بری طرح متاثر ہوں گے۔ غریب عوام ہی نہیں، امیر طبقہ بھی اس کے خوفناک اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔
پاکستان بھر کے عوام اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں 1971کے زخم اگرچہ ابھی تک تازہ ہیں، اس کے باوجود ہمارے ہاں جنگی جنون نہیں پایا جاتا۔ ہم مسلسل بھارت کے ساتھ ایک اچھے ہمسائے کے طور پر رہنا چاہتے ہیں، گو دونوں طرف سے کچھ نہ کچھ شرارتیں ضرور ہوتی رہی ہیں مگر پاکستانی عوام نے بھارت کے حوالے سے اس رویے کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا جس کا مظاہرہ بھارت میں دیکھنے میں آتا ہے۔ میں اس امر کاچشم دید گواہ ہوں، مجھے ادبی کانفرنسوں میں بھارت جانے کا موقع ملتا رہا ہے، ادبی برادری کی طرف سے تو محبت ملتی تھی ، مگر ایک عام بھارتی کی آنکھوں میں مجھے نفرت کے شعلے نظر آئے۔ لاہور میں ایک کردار ’’مودا کنجر‘‘ ہے ، جس کی بہت شہرت ہے، مجھے لگتا ہے یہاں اس کا ذکر نادانستہ طور پر آگیا ہے۔ میں مودی سرکار کے حوالے سے بات کرنا چاہتا تھا کہ اس کی آمد کے بعد سے ہمارے بعض ادبی دوست بھی مارے خوف کے ہم سے آنکھیں چرانے لگے ہیں۔ مجھےخصوصاً بھارتی میڈیا پر حیرت ہوتی ہے جو پاکستان کی نفرت میں پوری طرح پاگل پن کا شکار نظر آتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارا میڈیا ہمیشہ جنگی آلودگی کو ختم کرنے کے درپے رہتا ہے۔
مگر جو بات میں اس کالم میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ کچھ لوگ پاکستان میں بھی جنگی جنون میں مبتلا ہیں مگر بھارتی تو اس ضمن میں بالکل اندھے ہوگئے ہیں یا ان کے میڈیا نے انہیں اندھا کردیا ہے۔ اس کے باوجود وہاں بھی ایسے بہت سے قابل قدر لوگ موجود ہیں جو امن کی بات کرتے ہیں۔ کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی درندگی کی مذمت کرتے ہیں، ہمیں امن کی خواہاں بین ا لاقوامی برادری سے رابطہ کرکے جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ دراصل بھارت اور پاکستان کے عوام نے اصل جنگ کبھی دیکھی ہی نہیں بلکہ بیشتر نے اس کی تباہ کاریوں کے بارے میں پڑھا ہی نہیں۔ ہم لاہور والوں نے 65ءکی جنگ کو اصلی جنگ سمجھ لیااور چھتوں پر کھڑے ہو کر اس سے پتنگ بازی کی طرح محظوظ ہوتے رہے۔ جنگ وہ ہوتی ہے جو یورپ اور اتحادی ممالک نے دیکھی جس میں کڑوروں لوگ ہلاک ہوگئے۔ لندن کے آسمان پر اتنے طیارے بمباری کرنے والے ہوتے تھے کہ آسمان نظر نہیں آتا تھا۔ جنگی علاقوں میں لاکھوں انسانوں کی لاشیں سڑک پر گلتی سڑتی رہتی تھیں اور ان سے اٹھنے والی بدبو سے جانور تک ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے، اس خونریزی کے بعد پھر ان ملکوں نے کبھی جنگ کا نام نہ لیا۔ لہٰذا بھارتیو اور پاکستان کے معدودے چند جنگ کے خواہشمند احمقو!، جنگ کے بارے میں کبھی سوچو بھی نہیں اور ہاں پاکستان کی طرف اگر پھر کبھی بھارت نے میلی نظروں سے دیکھا، تو اس کا جواب ضرور دیا جائے گا، بصورت دیگر کمینہ دشمن اسے آپ کی کمزوری سمجھ لے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)