بھارت کیا ہے – عبدالقادر حسن
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا شخص جب وز
ماضی میں ہمارے بھارت نواز دوست بھارت کے ساتھ دوستی کی جتنی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن بھارتی حکمران پاکستان سے نفرت کا اظہار کر کے اس کو ختم کر دیتے ہیں ۔ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم نے بھی پڑوسی بھارت کو دوستی کا پیغام دیا لیکن بھارت نے ایک قدم آگے بڑھنے کے بجائے دو قدم پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور یوں ہم برابر کی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ امن کی خواہش دل میں لیے ایک بار پھر ناکامی کے شکار ہو گئے لیکن اس بار بار کی ناکامی کے باجود داغ اپنی جمائے جاتا ہے اور دونوں طرف کے نام نہاد خود ساختہ دانشور امن کے گیت گانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
دشمنی کو کبھی اچھا نہیں سمجھا جاتا اور ہر دشمنی کا اختتام بالآخر صلح پر ہی ہو تا ہے لیکن اگر ایک فریق دشمنی پر اترا ہو ا ہو اور اس کی عیاری اور کمینہ پن واضح ہو تو پھر دوستی کی کوشش ایک حماقت ہو گی۔ میں یہ کہوں گا کہ دوستی کی یہ کوشش حماقت ہی نہیں بزدلی اور کمزوری بھی ہو گی ۔ بھارت کے ساتھ ہماری بار بار جنگیں ہوئیں اور کشمیر میں تو مسلسل جنگ جاری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ایک طرف باقاعدہ فوج ہے اور دوسری طرف بے قاعدہ فوج اور مجاہدین ہیں جن کو بھارت رائج الوقت زبان میں دہشت گرد کہتا ہے اور ہم خاموشی کو ہی بہتر سمجھتے ہیں ۔
بھارت نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جو کردار ادا کیا اور جس طرح پاکستان کے ایک اندرونی مسئلہ میں کھلی مداخلت اور جارحیت کی اس کے بعد ایسے کھلے دشمن کے ساتھ دوستی کا سوچنا بھی ایک قومی جرم ہے ۔ اگر بھارت نے اپنی اس حرکت پر کوئی معذرت کی ہوتی اور اس کو اپنے عمل سے ثابت بھی کیا ہوتا تو شاید صلح کی کوئی ایسی صورت نکل سکتی جس میں دونوںملکوں کے درمیان حالات سازگار ہو جاتے لیکن تب سے اب تک بھارت نے کسی نئی جارحیت کی ہی دھمکی دی ہے اور اب تو ہماری دوستی کی پیشکشوں کی وجہ سے وہ اس قدر مغرور ہو گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف حقارت کی زبان بھی استعمال کرتا ہے کیونکہ امریکا اور اسرائیل اس کی پشت پر ہیں اور ہمارے غیر سرکاری حضرات اس کی کاسہ لیسی پر لگے رہتے ہیں ۔
بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی نئی جنگ سے پہلے ایک نفسیاتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے ۔ وہ پاکستانی قوم میں انتشار پھیلانے میں مصروف ہے اور ہمارے کئی لوگ اس کے آلہ کار ہیں ۔بھارت اس نفسیاتی جنگ میں چاہتا ہے کہ ہم اس کے ساتھ کاروباری ، سماجی اور آمدورفت کے تعلقات قائم کر لیں ۔ وہ اپنی بندیا اورساڑھی سے ہمیں اس قدر مسحور کر دینا چاہتا ہے کہ ہم دو بدو جنگ و جدل کے خیال کو چھوڑ کر اس سے دو بدو بغل گیر ہو جائیں ۔ بھارت کی انتہائی غیر معیاری اور اس کی وجہ سے سستی اشیاء پاکستان کی منڈیوںمیں پہنچ جائیں، سرحد کے دونوں طرف کھلا آنا جانا شروع ہو جائے ۔ سرحدیں اوردو جدا ملکوں کا تصور برائے نام رہ جائے۔ یورپی ملکوں کی طرح ان کے درمیان تعلقات اس حد تک پہنچ جائیں کہ ہم دونوں ملک اپنے آپ کو ایک دوسرے کے قریب ترین محسوس کریں، دوئی مٹ جائے اور دو قالب تو رہیںمگر یک جان ۔
بھارت اتنا بے وقوف نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اس حد تک بگاڑ لے جس کے بعد واپسی ممکن نہ رہے وہ پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے سزا بھی اس کو ہی ملنی ہے، وہ اپنے ہاں کے مسلمانوںاور پاکستان کے مسلمانوں کو یکجا کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔ وہ فی الوقت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس کی سر پرستی میں ایک کمزور ملک بن کر رہے جیسے اس کے دوسرے ہمسائے رہتے ہیں، اس کا یہ خام خیال اس لیے بھی ہے کہ ہم اپنے ذاتی تجارت روابط کو بڑھانے کے لیے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے خواہاں رہے ہیں ۔ اس لیے وہ ایک بڑے کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور بالا دستی قائم کرنا چاہتا ہے تا کہ اس کے دوسرے ہمسائیہ ممالک کمتر بن کر اس کی سرپرستی میں زندہ رہیں ۔ پاکستان کی ایسی زندگی بھارت کے لیے ایک خوشخبری ہے شاید مشرقی پاکستان سے بھی بڑی کہ بھارت کا کوئی حکمران یہ کہہ سکے کہ ایک بار نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبویا تھا دوسری بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے۔
کشمیر ایک ایسا مسئلہ اور موضوع ہے جس پر بات کرنے سے بھارت کی جان جاتی ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ کشمیر پر اس کا قبضہ غاصبانہ ہے اور وہ عالمی برادری میں اس کے بارے میںکوئی معقول جواز پیش کرنے سے ہمیشہ قاصر رہا ہے اس لیے بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت دنیا کے کسی ایک اجلاس میں اکٹھے ہوں تو ایک دوسرے سے بات چیت سے گریز کیا جائے ۔ پاکستانی چونکہ کشمیر کا نام لینے سے باز نہیں آتے اس لیے بھارت طوہاً کراہاً اس پر بات تو کر لیتا ہے کہ ملکی سطح کے مذاکرات کے لیے وہ ماحول ساز گار بنانے کی کوشش کرتاہے لیکن جب ماحول ساز گار بنانے کی بات کی جائے تو وہ مذاکرات سے بھاگ جاتا ہے ۔
بھارتی جرنیل نے مذاکرات سے انکارکے بعد جنگ کی دھمکی دی ہے جس کا نہایت مدلل جواب افواج پاکستان کے ترجمان نے دیا ہے ۔ بھارتی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ سے پاکستان کو جیت سکتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے اس طرح کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے ہو سکتا ہے ان کے اندرون ملک حالات تو بہتر ہو جائیں لیکن بیرون ملک اور خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید کشیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ میں یہاں پر ایک پرانی بات دہرانا چاہتا ہوں، اسی طرح کے حالات تھے جیسے اب ہیں، میں اسلام آباد میں ڈاکٹر قدیر خان کے ہاں حاضر ہوااور ان سے عرض کی کہ پاکستانی عوام بہت پریشان ہیں، انھوں نے سامنے پڑے کاغذات میں سے ایک کاغذ الگ کیا اور اس پر لکھا کہ میری طرف سے قوم کو بتا دو کہ اگر بھارت نے کسی قسم کی جارحیت کی تو ہم پندرہ منٹ میں اس کی اینٹ سے اینٹ سے بجا دیں گے اور اس کے پاس اس کا کوئی جواب بھی نہیںہوگا۔