بھارت میں مسلم نسل کشی کا عدالتی پہلو – اوریا مقبول جان
آج سے صرف پندرہ سال پہلے تک پاکستان کا سیکولر، لبرل دانشور طبقہ، پاکستان کو نیچا دکھانے اور نظریہ پاکستان کو اس کے زوال کی وجہ بتانے کے لیے بھارت کے جمہوری تسلسل، اس کے عدالتی نظام، معاشی ترقی اور سیکولر، لبرل اخلاقیات کی شان میں رطب للسان رہتا تھا۔ ہمارے لاتعداد سیاسی رہنما بھی بھارتی جمہوریت کے گُن گایا کرتے تھے۔ یہ وہی دَور تھا جب لاہور شہر کے بیچوں بیچ، نہر سے ذرا ہٹ کر ’’سیفما‘‘ کا دفتر ہوتا تھا جہاں آج سے دس سال پہلے ترنگ میں آ کر ایک دن نواز شریف نے اپنی تقریر میں دونوں ملکوں کی سرحدوں کو ثقافتی اور معاشی طور پر ختم کرنے کا راگ الاپا تھا۔ اسی تقریر میں دونوں جانب ایک طرح کے آلو گوشت کھانے کا ذکر بھی ہوا تھا۔ آج بھارت کے کریہہ المنظر حالات کے باوجود یہ دانشور طبقہ اور سیاسی لبرل نما اقتدار پرست گروہ، بھارت کو بحیثیت ایک ملک بُرا نہیں کہتا بلکہ سارا الزام راشٹریہ سیوک سنگھ، بجرنگ دل، بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی پر ڈال کر اسے مذہبی تشدد پسندی سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کل تک، گاندھی اور نہرو کے ’’جمہوری بھارت‘‘ میں تو اقلیتوں کے لیے ہمیشہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، جس کا مقصد صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ اگر سیکولر ازم نافذ ہو تو دونوں اکٹھے مل کر رہ سکتے ہیں
۔ بھارت میں اقلیتوں سے بدسلوکی کی تاریخ ایسی ہے کہ اس کے دو وزرائے اعظم کو ملک میں اقلیتوں نے اپنے اوپر ہونے والے بدترین مظالم کے انتقام کے طور پر قتل کیا ہے اور ایسا اس سیکولر جمہوری کانگریس کے دورِ حکومت میں ہوا ہو جس کی یہ شان بیان کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اندرا گاندھی کو سکھوں نے بھارت میں اپنے سب سے مقدس مقام ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ کے بدلے میں ویسے ہی قتل کیا تھا، جیسے جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا انتقام لینے کے لیے انہوں نے13 مارچ 1940ء کو جنرل مائیکل ڈائر کو لندن میں قتل کیا تھا۔ اسی طرح راجیو گاندھی کو تامل اقلیت پر مظالم کے بدلے میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام (LTTE) نے 21 مئی 1991ء کو ایک خود کش بمبار خاتون کے ذریعے قتل کیا تھا۔ یہ دونوں اقلیتیں انہی ادوار میں ظلم و ستم کا شکار ہوئیں جن کو نہ صرف میرے ملک کا دانشور طبقہ بلکہ دُنیا بھر کے بھارت نواز لکھنے والے بھی اسے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے تھے۔ یہاں کشمیر کا تذکرہ کرنا اس لیے اضافی ہے کہ وہاں کے مسلمانوں پر مظالم کی داستان ایک علیحدہ مضمون رکھتی ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور ان کی شہادتوں کی لازوال داستان کو بھی گزشتہ ستر سالوں سے پہلے پاکستان کے کیمونسٹ دانشوروں اور پھر ان کے جانشین سیکولر دانشوروں نے مسلسل بدنام کیا اور اسے کلمۂ طیبہ کے لازوال رشتے کی بجائے سرحدی تنازعے کے طور پر پیش کیا۔ جمہوری تسلسل اور سیکولر آئین والے اس ملک نے اپنے آغاز میں ہی ملک میں ایک ایسی فضاء قائم کر دی تھی، کہ جس اقلیت نے بھی اس بھارت میں رہنا ہے اس نے ’’ہندو اکثریت‘‘ کے زیرِ نگین ہو کر رہنا ہے۔
اسی آمریت کو جمہوری نظام میں ’’اکثریت کی آمریت‘‘ (Tyranny of Majority) کہتے ہیں۔ بھارت میں رہنے والی مسلمان اکثریت کو اس کا اندازہ بہت دیر بعد ہوا، جب انہیں آہستہ آہستہ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور انتظامی سطح پر ایک پسماندہ اور غربت زدہ اقلیت میں بدل دیا گیا۔ ان پر یہ ظلم اس عرصے میں ہوا جب بھارت پر تقریباً پینتیس سال سیکولر گانگریس کا جمہوری اقتدار قائم تھا۔ مارچ 2005ء میں شائع ہوئی سابق چیف جسٹس دِلّی ہائی کورٹ راجندر سچر (Rajinder Sachar)کی رپورٹ نے ایسے خوفناک اعداد و شمار پیش کئے تھے کہ خود بھارت میں بسنے والے مڈل کلاس مسلمان دانشوروں کو بھی یقین نہیں آیا تھا۔ ’دِلّت‘‘ یا ’’شودر‘‘ ہندو مت میں صدیوں سے پسماندہ ترین زندگی گزارتے چلے آ رہے ہیں لیکن سچر رپورٹ نے انکشاف کیا کہ مسلمان شودوروں سے بھی دو فیصد خطِ غربت سے نیچے ہیں۔ ایسا کچھ کسی ہندوتوا کے گیروے پرچم اُٹھانے والی بی جے پی نے نہیں بلکہ گاندھی کے منافقانہ طرزِ سیاست پر عمل کرنے والی کانگریس کے دَور میں ہوا۔ خوشونت سنگھ کو علم کی دُنیا میں ایک عالمی مقام حاصل ہے۔ انہیں 1974ء میں بھارت سے ’’پدم بھوشن‘‘ ایوارڈ ملا تھا جسے انہوں نے گولڈن ٹیمپل کے محاصرے پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا تھا۔ ان کی کتاب ’’بھارت کا خاتمہ‘‘ (End of India) ، 2003ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے 1947ء سے بھارتی مسلمانوں کی مسلسل تباہی اور بربادی کی داستان رقم کی ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے ردّعمل میں صرف سکھوں نے ہی قتل عام نہیں دیکھا بلکہ مسلمانوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ صرف ہاشم پورہ میں ستر مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی وہ بستیاں جو انہوں نے 1970ء میں بھارت گھوم کر دیکھی تھیں جو ناقابلِ یقین حد تک غلیظ تھیں، گندے پانی کی نالیاں انتہائی بدبودار کیچڑ سے بھری ہوئی تھیں۔ غازی آبادی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک ہی سکول تھا جس میں صرف تین سو بچے پڑھتے تھے، جب مسلمانوں سے پوچھا کہ کیوں نہیں پڑھاتے تو جواب ملا،’’ہم پڑھ کر کیا کریں گے‘‘۔ کانگریس کے چالیس سالہ اقتدار نے مسلمانوں کو پورے بھارتی معاشرے میں پسماندگی کی ایک ایسی سطح پر لا کھڑا کیا کہ اس نے بی جے پی حکومت کے ایجنڈے اور مسلمانوں کی نسل کشی کا راستہ آسان کر دیا۔ کسی قوم کی نسل کشی کے بارے میں جن دس مراحل کے بارے میں ماہرین لکھتے ہیں:ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس گروہ کی نسل کشی مقصود ہوتی ہے اُسے معاشی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر انتہائی پسماندہ (Marginalized) بنا دیا جاتا ہے، ایسی بُری حالت جیسے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی ہوتی ہے، جنہیں جس وقت چاہا قتل کر دیا اور پھر ان کی موت پر کسی کو افسوس تک نہیں ہوتا، کوئی آنکھ آنسو نہیں بہاتی۔ خوشونت سنگھ نے نفرت اور تعصب کا مرکز گاندھی کے گجرات کو قرار دیا۔ گودھرا کے واقعے کے بعد 2002ء میں جو مسلم کش فسادات ہوئے تھے اس نے پورے عالمی ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی گجرات کے شہر احمد آباد میں 26 جولائی 2008ء کو 21 چھوٹے چھوٹے دھماکے ہوئے اور اس کے بعد جیسے 9/11 کے بعد میڈیا کا معمول بن چکا ہے، اسی طرح بھارتی میڈیا نے بھی فوراً اعلان کیا کہ ’’حرکتِ جہادِ اسلامی‘‘ نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس کا ثبوت کسی ویڈیو، آڈیو یا تحریر سے نہیں دیا گیا بلکہ ایک ای میل کے حوالے سے بتایا گیا۔ دوسری گواہی یہ تھی کہ ایک ہسپتال میں ایک مسلمان کو فون پر یہ بات کرتے سنا گیا تھا کہ بنگلور کے دھماکوں میں تو ناکامی ہوئی تھی لیکن یہاں ہمیں بہت کامیابی ہوئی ہے۔
ان مختصر ثبوتوں کی بنیاد پر پورے بھارت سے مفتی ابوالبشر اور مفتی سفیان سمیت پچاس سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ اس کی سربراہی میں سائیکلوں اور لنچ باکسوں میں چھپائے گئے بموں سے ہونے والے دھماکوں کی تفتیش ایسی ہوئی کہ پوری مسلم کمیونٹی کو ہی مجرم قرار دے دیا گیا۔ اسی تفتیش کے نتیجے میں جو کیس تیار ہوا اسے آج نریندر مودی وزیر اعظم کے دور میں 18 فروری 2002ء کو عدالت نے 38 مسلمانوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ گزشتہ ایک سو سالہ عالمی تاریخ میں کسی بھی ملک میں کسی بھی اقلیت کو عدالت کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں سزائے موت دینے کا کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا۔ جس بھارت کی سپریم کورٹ، افضل گورو کے بارے میں یہ لکھے کہ ہم ثبوت کم ہونے کے باوجود افضل گورو کو بھارت کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے پھانسی دے رہے، وہاں ان بے چارے 38 مسلمانوں کے بارے میں کسی قسم کی بھی اُمید نہیں رکھنی چاہئے کہ انہیں پھانسی نہیں دی جائے گی۔ دُنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اجتماعی طور پر کسی گروہ کی نسل کشی کی جاتی ہے وہاں ریاست کے تمام ادارے ایک ساتھ اس میں شریک ہو جاتے ہیں۔ انتظامیہ قاتلوں کی مدد کرتی ہے۔ سیاسی قیادت واقعے سے انکار کرتی ہے اور عدالتیں ان پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Bharat main Muslim Nasal Khusi ka Adalti Pehlo By Orya Maqbool jan