بھوک برداشت۔ توہین نہیں – اوریا مقبول جان
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انقلابِ فرانس کے دس سالوں کے دوران، فرانس میں غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر تھی۔ صرف پیرس شہر میں چھ لاکھ سے زیادہ فقیر تھے، جو ہر راہ چلتے ہوئے صاحبِ حیثیت شخص کا ملبوس پکڑ لیتے تھے۔ اسی لئے فرانس میں بھیک مانگنے کے ’’آداب‘‘ کے حوالے سے ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا، جس کے تحت کوئی بھکاری صرف آواز لگا کر، گا کر یا ہاتھ پھیلا کر مانگ سکتا تھا لیکن اگر وہ کسی ’’شریف‘‘ شخص کے دامن کو تھامے گا تو یہ ایک قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہو گا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ قانون بھوکے ننگے عوام کی عزتِ نفس پر پہلا بڑا حملہ تھا، جسے انہوں نے کچھ دیر تو اپنی بے بسی اور بے بضاعتی سے برداشت کر لیا۔
اس قانون کے تحت پیرس سے پچاس ہزار گداگروں کو پکڑ کر جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے باوجود غربت اتنی بڑھی کہ چند سالوں میں ملک بھر میں ایسے بھکاریوں کی تعداد دس لاکھ تک جا پہنچی۔ لوگوں نے کئی سال اسی غربت و افلاس میں گزارے لیکن ان میں نسل در نسل اس قانون کے خلاف غصہ پروان چڑھتا رہا۔ انگلینڈ کی حالت بھی فرانس سے مختلف نہ تھی بلکہ وہاں فرانس سے کہیں زیادہ غربت اور بھوک تھی۔ اس دَور کے دانشوروں نے جس انگلینڈ کا نقشہ کھینچا ہے وہ اس قدر درد ناک ہے کہ لوگ جانوروں کی کھالیں اُبال کر سوپ بناتے اور اس بدمزہ پانی سے پیٹ کی بھوک ختم کرتے۔ لیکن انگلینڈ میں فرانس کی طرح کا خوفناک خونی انقلاب نہیں آیا۔ مشہور مؤرخ اور فلاسفر وِل ڈیورانٹ (Will Durant) نے اپنی مشہور کتاب ’’تاریخ کے ہیرو‘‘ (Heros of History) میں انگلینڈ میں انقلاب کے نہ آنے کی وجوہات پر لکھا ہے۔
اس کے مطابق دو ایسے تاریخی فقرے ہیں جنہوں نے پورے فرانس کے مفلوک الحال لوگوں کو بُری طرح مشتعل کر دیا اور عوام اپنی اس توہین کا بدلہ لینے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے تھے، جبکہ انگلینڈ میں کوئی ایسے فقرے بولنے والا پیدا نہ ہوا۔ پہلا فقرہ پیرس سے تقریباً 23 میل دُور نوتعمیر شدہ خوبصورت ورسائل محل میں آباد فرانس کی ملکہ میری این ٹونیٹ جین (Marie Antoinette Jeanne)کا تھا، کہ جب اس سے کہا گیا کہ فرانس کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور انہیں روٹی تک میسر نہیں تو اس نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جنہیں روٹی نہیں ملتی وہ کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘ یہ فقرہ تمام انقلابیوں کی زبان پر عام ہو گیا اور پھر پیرس کی گلیوں میں ان لوگوں کا غصہ دیدنی تھا۔ ہجوم نے شہر کے بیچوں بیچ ملکہ پر مقدمہ چلایا اور اس کے سامنے اس کے خاوند بادشاہ لوئی کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ اس دَور میں موت ایک بہت بڑے چُھرے سے ہوتی تھی جسے گلیوٹین (Gallutine) کہتے تھے۔ مجرم کو ایک چبوترے پر اوندھے منہ لٹا دیا جاتا تھا اور کئی فٹ بلندی سے چرخیوں پر گھومتا ہوا چُھرا نیچے گرتا اور گردن اُڑا دیتا تھا۔ بادشاہ لوئی کو اس کی سواری میں اُس چبوترے تک لایا گیا لیکن ملکہ سے غصے کے اظہار کا عالم یہ تھا کہ اسے حکم دیا گیا کہ وہ اپنے ان گارڈوں کے سامنے کپڑے تبدیل کرے۔ وہ گارڈ جو کبھی اس کی ڈیوٹی پر مامور ہوا کرتے تھے۔ اس نے سیاہ ماتمی لباس پہننا چاہا جو کہ بیوہ عورتیں پہنتی ہیں، لیکن اسے اس کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
اس کے خوبصورت بال مونڈ دیئے گئے۔ اس کے ہاتھ اس کی پشت پر اس سختی سے باندھے گئے کہ وہ دَرد سے بِلبلا اُٹھی۔ اسے گھاس لے جانے والے ایک ریڑھے پر بٹھا کر سرِعام عوام میں سے گزارا گیا۔ جس جلاد نے اُس پر چُھرے کو چلانا تھا، اس کو بھی اسی ریڑھے پر ملکہ کے ساتھ ہی بٹھایا گیا۔ اسے جب 16 اکتوبر 1793ء کو بارہ بج کر پندرہ منٹ پر چُھرے کے نیچے ذبح کیا جانے لگا تھا تو اس متکبر اور رعونت والی ملکہ کے منہ سے نکلا ’’مجھے معاف کر دو، میں نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا‘‘۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے اپنا سر آگے بڑھا کر جلاد کے پائوں پر رکھ دیا۔ بہت بڑا چُھرا لہراتا ہوا آیا، اور ملکہ کا سر تن سے جُدا ہو گیا۔ اس کے جسم کو اُٹھا کر ایک گمنام گڑھے میں پھینک دیا گیا کیونکہ انقلاب کے ہنگاموں میں اتنے لوگ مارے جا چکے تھے کہ قبرستانوں پر تالے لگ چکے تھے۔ لوگ دیر تک اس کے سر سے فٹ بال کھیلتے دوسرا کردار بھی اسی فرانس کا ایک جرنیل روہان (Rohan) تھا۔ بادشاہ نے جب اس کی ذمہ داری لگائی کہ وہ عوامی بغاوت کو کچلے تو لاتعداد لوگوں نے اسے گھیر لیا اور پکار پکار کر فریاد کی کہ ہمیں مت مارو، ’’ہم تو بس بھوکے ہیں‘‘، ہم نے کئی دن سے کھانا نہیں کھایا۔ اس نے رعونت سے پوچھا کیوں نہیں کھایا تو لوگوں نے جواب دیا کہ کچھ کھانے کو میسر ہی نہیں ہے۔ روہان نے طنز سے کہا ’’پیرس شہر میں اتنی گھاس ہے، تم گھاس کیوں نہیں کھاتے‘‘۔ جب اس جرنیل کو اس بڑے چُھرے کے نیچے ذبح کرنے کے لئے لایا جا رہا تھا تو لوگوں نے پہلے اس کو سب کے سامنے گھاس کھانے پر مجبور کیا اور پھر اس کے منہ کو گھاس سے بھر کر اسے اوندھا لٹایا گیا اور پھر اس کے سر کو تن سے جُدا کر دیا گیا۔
وِل ڈیورانٹ لکھتا ہے کہ لوگ دس سال سے بھوک برداشت کر رہے تھے، غربت میں زندگی گزار رہے تھے۔ تھوڑے بہت ہنگامے بھی چلتے تھے، لوٹ مار بھی ہوتی تھی لیکن پھر شام کو تھک ہار کر خاموشی سے سو جاتے تھے۔ لیکن ملکہ کے اس فقرے سے ہونے والی توہین نے عوام میں آگ لگا دی۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ لوگ ہر صاحبِ حیثیت کو بھی ملکہ کا ساتھی اور غریبوں کا تمسخر اُڑانے کا مجرم سمجھا جانے لگا ہجوم کسی شخص کو سڑک پر روکتا، اس کے ہاتھ دیکھتا، اگر وہ نرم ہوتے تو اس کی گردن اُڑا دی جاتی۔ اسی طرح کسی شخص کے کالروں پر اگر میل کی تہہ نہ ہوتی تو اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔ کل جب میں لاہور میں لوگوں کے بے پناہ ہجوم کو دیکھ رہا تھا تو ان میں ہر نسل، عمر اور مرتبے و حیثیت کے لوگ شامل تھے۔ ایسے لوگ جنہیں دو وقت کی روٹی کے علاوہ بھی بہت زیادہ آسائش حاصل تھی۔ ایسے بھی تھے جو شاید دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے کما پاتے ہوں، بچے عورتیں سب تھے، لیکن یہ لوگ نہ تو روٹی کیلئے نکلے تھے اور نہ کپڑے اور مکان کیلئے۔ یہ بائیس کروڑ لوگ گذشتہ کئی سالوں سے مہنگائی کا عذاب بھی سہہ رہے تھے۔ انہوں نے گذشتہ دو دہائیاں لوڈشیڈنگ میں بھی گزاری تھیں۔
ان میں سے لاتعداد لوگ بے روزگار بھی تھے لیکن کل کوئی اپنے ان دُکھوں پر احتجاج کرنے نہیں نکلا تھا۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی فقرہ تھا۔ ’’ہماری توہین کی گئی ہے‘‘۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی ایسا احتجاج نہیں ہوا کہ لوگ ایک دَم ایک ساتھ پاکستان کے کئی سو شہروں میں سڑکوں پر نکلتے ہوں اور پوری دُنیا کے ممالک میں موجود پاکستانیوں نے بیک وقت احتجاج کیا ہو۔ پاکستان میں 1977ء میں ایسی حالت پیدا ہوئی تھی لیکن وہ بھی ایک دَم نہیں ایک ماہ بعد نو اپریل کو پنجاب اسمبلی کے سامنے عوام بپھرے تھے۔ لیکن کل کا نو اپریل 2022ء تو حیران کن تھا۔ لوگ خوفناک حد تک غیظ و غضب لئے ہوئے تھے۔ کچھ عرصے بعد یہ ہنگامے ختم ہو جائینگے تو اگر کسی نے ان کی تاریخ مرتب کی تو فرانس کی ملکہ میری کی طرح شہباز شریف کے اس فقرے کو ضرور ہنگاموں کی بنیاد بتائے گا کہ ’’بھکاریوں کو انتخاب کرنے کا کوئی حق نہیں‘‘ (Bagger are not Chooser) ۔ دُنیا کے معمولات میں تمام عزت دار لوگ اپنی ضروریات کے لئے زندگی میں بھیک ضرور مانگتے ہوں گے لیکن پھر بھی کوئی بھکاری کہلانے کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے، جلد سیکھ لو تو اچھا ہے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Bhok Bardasht Toheen nahi By Orya Maqbool jan