بلیک اینڈ وائٹ- جاوید چوہدری
سنی کا مسئلہ بہت دل چسپ تھا‘ وہ پچھلے بارہ سال سے ایک بینڈ میں گٹار بجا رہا تھا‘ یہ پیدائشی موسیقار تھا‘ قدرت نے اسے بے تحاشا ’’میوزک سینس‘‘ دے رکھی تھی ‘ یہ ماحول میں بکھری آوازوں میں موسیقی تلاش کر لیتا تھا‘ اس کی انگلیاں گٹار کی تاروں سے کھیلتی تھیں اور مشکل سے مشکل دھن دیکھنے اورسننے والوں کے سامنے آجاتی تھی ‘ یہ دن میں اوسطاً دس بارہ گھنٹے کام کرتا تھا لیکن اس محنت‘ اس صلاحیت کے باوجود اس کی آمدنی بہت قلیل تھی۔
یہ بارہ سال کی پروفیشنل لائف‘ بے تحاشا صلاحیت اور مسلسل بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود ’’ہینڈ ٹو ماؤتھ‘‘ تھا‘ یہ ابھی تک ذاتی اخراجات کے لیے والدین سے پیسے لیتا ہے‘ گاڑی بھی والد نے خرید کر دی ہے‘ گاڑی میں پٹرول بھی والد ڈلواتا ہے اور اس کی بیوی اور دو بچوں کے اخراجات بھی والد اٹھاتا ہے‘ سنی نے مجھے بتایا‘ وہ خود کو ایک ناکام شخص تصور کرتا ہے‘میں نے اس سے اتفاق کیا کیوںکہ جب کام کے باوجود آپ کو مناسب رقم نہ مل رہی ہو تو آپ ناکام کہلاتے ہیں۔
عبدالسلام کا مسئلہ سنی سے بھی دل چسپ ہے‘ یہ لاہور کی اکبری منڈی میں آڑھت کا کام کرتے ہیں‘ اللہ نے انھیں پیسے سے روپیہ کمانے کا فن دے رکھا ہے‘ یہ پانچ‘ چھ گھنٹے منڈی جاتے ہیں‘ دکان پر بیٹھتے ہیں‘ چار‘ پانچ سودے کرتے ہیں اور ایک آدھ لاکھ روپے کما لیتے ہیں لیکن یہ بلا کے کنجوس ہیں لہٰذا خوش حالی کا عکس ان کی ذاتی زندگی پر دکھائی نہیں دیتا‘ یہ سال میں دوبار کپڑے خریدتے ہیں‘ ان کے پاس سارا سال ایک جوتا ہوتا ہے‘ یہ والدین کے پرانے گھر میں رہتے ہیں۔
ان کے گھر میں چھوٹا فریج اور بارہ انچ اسکرین کا ٹی وی ہے‘ یہ ایک سالن پکاتے ہیں اور ان کے بچے معمولی اسکولوں میں پڑھتے ہیں‘ شیخ عبدالسلام کی ان حرکتوں کی وجہ سے لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں‘ لوگ انھیں شیخ بینک کہتے ہیں کیوںکہ یہ صرف اور صرف بینکوں کے لیے کماتے ہیں‘ یہ بھی اپنے آپ کو ناکام سمجھتے ہیں‘ میں نے ان سے بھی اتفاق کیا۔ ریحان ظفر کا مسئلہ ان سے بھی دل چسپ تھا‘ یہ اسپیئرپارٹس کا کام کرتے ہیں‘ یہ کام انھیں ٹھیک ٹھاک ریٹرن دے رہا ہے‘ یہ کاروبارکے دوسرے سال ہی خوش حال ہو گئے تھے۔
یہ اپنی ذات‘ اپنے خاندان اور اپنے دوستوں پر کھل کر خرچ کرتے ہیں‘ یہ ہر دوسرے سال گاڑی تبدیل کرتے ہیں‘ یہ مشین محلے سے چھاؤنی بھی شفٹ ہو گئے‘ یہ بچوں کو مہنگے اسکولوں میں بھی پڑھا رہے ہیں‘ ان کی بیگم پارلر بھی جاتی ہیں‘ یہ دوسرے تیسرے سال بعد گھر کا سارا سامان بھی بدل دیتے ہیں‘ ان کے ڈرائنگ روم‘ ڈائننگ ٹیبل اور بیڈ رومز میں بھی دولت کے جا بجا نمونے نظر آتے ہیں‘ یہ دوستوں کے ساتھ روزانہ کافی شاپ میں بھی بیٹھتے ہیں لیکن یہ بھی خود کو ناکام سمجھتے ہیں۔کیوں؟ کیوںکہ لوگ ان کی دولت پر ہنستے ہیں‘ لوگ انھیں ہوچھا‘ نودولتیا‘ کور ذوق اور بے وقوف سمجھتے ہیں‘ دوست انھیں الو بناتے ہیں‘ بیوی اور بچے انھیں لوٹتے ہیں اور محلے والے ان کی گاڑی‘ ان کے مکان کو دیکھ کر مسکراتے ہیں اور یہ مسکراہٹ ریحان صاحب کے دل کو آری کی طرح کاٹ جاتی ہے۔
میں نے ان سے بھی اتفاق کیا۔ غفور بٹ صاحب کا مسئلہ ان تینوں سے زیادہ دل چسپ تھا‘ یہ کام بھی کرتے ہیں‘ پیسے بھی کماتے ہیں اور ان میں ذوق اور سلیقہ بھی ہے‘ میں ان کے سلیقے اور ذوق کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا‘ یہ اپنے سرہانے سے لے کر سلیپر تک خود خریدتے ہیں اور ان میں ایسی نفاست ہوتی ہے کہ دل کھینچ کر رہ جاتا ہے‘ ہم سب لائٹ کا سوئچ آن کرتے ہوئے اپنا پورا ہاتھ سوئچ بورڈ یا دیوار پر رکھ دیتے ہیں‘ آپ کو پچانوے فیصد لوگوں کے سوئچ بورڈز اور دیواروں پر ہاتھوں کے نشان دکھائی دیں گے۔
ہم سب دروازوں پر پورا ہاتھ رکھ کر انھیں دھکیلتے ہیں‘ اس وجہ سے ہمارے دروازوں پر بھی ہتھیلیوں کے نشان پڑ جاتے ہیں لیکن میں نے غفور صاحب کو ہمیشہ ایک انگلی سے لائٹ جلاتے اور دروازے کو صرف ہینڈل سے کھولتے دیکھا‘ وہ دروازہ کھولنے کے بعد ہینڈل کو عموماً ٹشو پیپر سے صاف بھی کرتے ہیں‘ یہ فون بھی اس نفاست سے اٹھاتے ہیں کہ فون پر انگلیوں کے نشان نہیں پڑتے ‘ ان کی گاڑی بھی اندر اور باہر دونوں طرف سے انتہائی صاف ہوتی ہے۔
ان کا گھر اور دفتر بھی انتہائی نفیس اور صاف ستھرا ہے‘ میں نے کبھی ان کے جوتوں پر گرد کا نشان نہیں دیکھا‘ ان کی قمیض پر سلوٹ نہیں دیکھی اور ان کے بال بکھرے ہوئے نہیں پائے لیکن اس کے باوجود یہ بھی خود کو ناکام سمجھتے ہیں اور میں نے ان سے اتفاق کیا اور میرے انتہائی قریبی دوست خالق صاحب کا مسئلہ ان چاروں سے زیادہ دل چسپ تھا‘ خالق صاحب کام بھی کرتے ہیں‘ پیسے بھی کماتے ہیں‘ ان کے پاس دنیا جہاں کی نعمتیں بھی ہیں‘ یہ باذوق بھی ہیں اور یہ اپنی کام یابی پر مطمئن بھی ہیں لیکن اس کے باوجود خوش نہیں ہیں اور خود کو ناکام سمجھتے ہیں‘ میں نے ان کے ساتھ بھی اتفاق کیا‘ کیوں کیا ؟یہ بھی ایک دل چسپ مسئلہ تھا۔
ہماری کام یابی ایک سائیکل‘ ایک سرکل کی طرح ہوتی ہے‘ ہم اگر کام یابی کے اس سرکل کو فالو نہ کریں تو ہماری کام یابی ہمیں خوشی نہیں دیتی‘ کام یابی کے سرکل کے پانچ ’’اسٹیپس‘‘ ہوتے ہیں اور ہم پانچوں مراحل میں سے کسی میں بھی ناکام ہو سکتے ہیں ۔مثلاً آپ کام کر رہے ہوں اور آپ کا کام دولت کی شکل میں تبدیل نہ ہو رہا ہو‘ آپ دس دس‘ بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے ہوں‘ یہ سلسلہ کم از کم دس سال سے جاری ہو اور یہ کام آپ کو پیسے نہ دے رہا ہو توآپ ناکام ہیں لیکن یہاں یہ یاد رکھیں دنیا کا ہر اچھا پروفیشن آپ کو شروع میں پیسہ نہیں دیتا‘ پروفیشن کے شروع میں آپ کو صرف اور صرف اپنی پرفارمنس‘ اپنی صلاحیت‘ اپنی ایمان داری اور اپنی محنت ثابت کرنا ہوتی ہے۔
آپ اگر چند برس لگا کر خود کو باصلاحیت اور محنتی ثابت کر دیں تو پھر آپ پر کام یابی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور یہ کام یابی اپنے ساتھ دولت بھی لاتی ہے لیکن اگر آپ کو کام کرتے ہوئے دس سال ہو گئے ہیں‘ آپ محنت‘ صلاحیت اور ایمان داری سے بھی کام کر رہے ہیں لیکن آپ کو اس کا ریٹرن روپے پیسے کی شکل میں نہیں مل رہا تو پھر آپ سنی کی طرح ناکام ہیں اور آپ کو اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے‘ اس کے برعکس اگرآپ نے کام کیا اور دولت بھی کمانا شروع کر دی لیکن آپ کی دولت سہولت یا آسائش میں تبدیل نہیں ہو رہی‘ آپ اس دولت سے زندگی کی آسائشیں نہیں خرید رہے۔
آپ نیا گھر نہیں بناتے‘ نئی گاڑی یا گاڑیاں نہیں خریدتے‘ جدید ترین اے سی‘ فریج‘ ٹی وی‘ کمپیوٹر نہیں لیتے‘ اچھے کپڑے اور جوتے نہیں پہنتے‘ اچھا کھانا نہیں کھاتے‘ اچھے ریستورانوں میں نہیں جاتے اور بیوی اور بچوں کی زندگی کو آسان نہیں بناتے تو بھی آپ ناکام ہیں۔ دولت کو ہمیشہ کمفرٹس کی شکل میں تبدیل ہونا چاہیے اور اگر یہ نہیں ہو رہی تو پھر آپ عبدالسلام کی طرح خود کو ناکام سمجھیں۔ کمفرٹس کے بعد ذوق اور نفاست کی باری آتی ہے‘ آپ نے اگر دولت کمالی‘ آپ نے اس دولت کو کمفرٹس میں تبدیل کر لیا لیکن اگر ان کمفرٹس میں ذوق نہیں آ رہا تو بھی آپ ناکام ہیں‘ آپ کی دولت آپ کا مذاق بن جائے گی‘ آپ نے پانچ لاکھ کا سوٹ پہن لیا لیکن سیاہ سوٹ کے ساتھ سفید جوتے پہن لیے‘ آپ نے دو کروڑ کی گاڑی خرید لی لیکن ہینڈل گولڈن کلر کے پسند کر لیے‘ آپ نے دس لاکھ کی پینٹنگ لے لی لیکن آثار قدیمہ کی پینٹنگ ڈائننگ روم میں لگا لی‘ آپ نے بیڈ روم میں چیتے کی کھال بچھا لی اور آپ نے دس کروڑ کے گھر میں بھینس باندھ لی تو بھی آپ کی کام یابی‘ آپ کی دولت اور آپ کی آسائشیں آپ کا مذاق بن جائیں گی‘ لوگ ریحان کی طرح آپ کا مذاق بھی اڑائیں گے۔
ذوق کے بعد اطمینان کی باری آتی ہے‘ آپ اگر کام‘ دولت‘ سہولت اور ذوق کے باوجود مطمئن نہیں ہیں‘ آپ تسکین محسوس نہیں کرتے تو بھی آپ ناکام ہیں‘ آپ دنیا بھر کے کام یاب لوگوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو بے شمار لوگ ذوق سلیم کے لیول پر پہنچ کر خود کشی کرتے دکھائی دیںگے‘ کیوں؟ کیوںکہ اگر ذوق سلیم تسکین میں تبدیل نہ ہو تو یہ بیماری بن جاتا ہے ‘ آپ ہاتھ دھو دھو کر ہلکان ہو جاتے ہیں یا بدبو سے بچنے کی کوشش میں زندگی کی تمام خوشبوؤں سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ بیماری آپ کو موت تک لے جاتی ہے چناںچہ ذوق سلیم کے بعد تسکین کا ہونا ضروری ہے لیکن تسکین یا ’’اسیٹس فیکشن‘‘ بھی آخری مرحلہ نہیں‘ آپ اگر اپنی تسکین‘ اپنے اطمینان کو روحانیت میں تبدیل نہیں کرتے‘ آپ اگر تسکین کو چھوتے ہی فلاح عامہ کا کوئی کام شروع نہیں کرتے‘ آپ عبادت یا ریاضت کی طرف نہیں جاتے تو بھی آپ ناکام ہو جائیں گے کیوںکہ آپ کی تسکین آپ کو خود غرض‘ انسانیت سے لاتعلق اور بے حس بنا دے گی اور آپ چند برسوں میں پاگل ہو جائیں گے۔
کام یابی ایک سرکل کی طرح ہے‘ آپ جب تک اس سرکل کو پورا نہیں کرتے‘ آپ جب تک کام کو دولت‘ دولت کو کمفرٹس‘ کمفرٹس کو ذوق سلیم‘ ذوق سلیم کو اطمینان اور اطمیان کو روحانیت میں تبدیل نہیں کرتے آپ اس وقت تک کام یابی کے اصل مزے تک نہیں پہنچ پاتے ‘ آپ کام یابی کی ’’پیک‘‘ کو نہیں چھو پاتے‘ ہم میں سے اکثر لوگ اس سرکل کو کسی نہ کسی جگہ توڑ دیتے ہیں اور یوں ہماری زندگی المیے کا شکار ہو جاتی ہے ‘ہم آب حیات کے چشمے کے کنارے بیٹھ کر پیالے کا انتظار کرتے رہتے ہیںاوراس انتظارکی وجہ سے ہماری زندگی بے رنگ ہو جاتی ہے‘ ہم رنگوں میں رہ کر بھی بلیک اینڈ وائٹ زندگی گزارتے ہیں‘ ہم کس قدر بے وقوف لوگ ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Black and White By Javed Chaudhry