’’بددعاؤں‘‘ میں لپٹی ’’دعائیں‘‘ – حسن نثار
ہم نے تو اپنی حرکتیں، عادتیں، مشغلے ترک کرنے نہیں تو کیوں نہ صبح، دوپہر، شام گندے، اخلاق باختہ، بےراہروی کا شکار گوروں کو گٹر بننے کی بددعائیں دیں کہ کبھی نہ کبھی تو سنی ہی جائیں گی۔ ہم حلال گوشت کھاتے ہیں لیکن کبھی کبھی مرحوم بکرے کی شہ رگ میں پریشر کے ساتھ پانی انجیکٹ کر دیتے ہیں جبکہ بدکردار گورے کھاتے تو خنزیر جیسا حرام ہیں لیکن نجانے کیوں اپنے حرام کا وزن بڑھانے کیلئے اس میں پانی انجیکٹ کرنے کی ٹیکنالوجی استعمال کیوں نہیں کرتے، سو میری پہلی بددعا یہ ہے کہ وہ بھی اس بےضرر سی عادت میں مبتلا ہو جائیں تاکہ ترقی کر سکیں۔گورے میں اک اور کمزوری بھی ہے کہ ’’SOB‘‘جیسی گالی سن کر تو نظرانداز کر سکتا ہے کیونکہ ’’بےغیرت‘‘ ہے ورنہ ماں کی گالی کون برداشت کرتا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ کوئی اسے ’’جھوٹا‘‘ کہہ دے تو نجانے کیوں مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔ میری بددعا ہے کہ گورا بھی قدم قدم پر قسمیں کھا کھا کر جھوٹ بولنے کی وبا میں مبتلا ہو جائے تو زندگی کا لطف دوبالا ہو جائے۔گورا بہت بےایمان ہے اور ہمارے خلاف صدیوں سے سازشیں کر رہا ہے لیکن مجال ہے کہ بےوقوف نے کبھی دو نمبر دوائی بنائی ہو۔ اور تو اور وہ اتنا بزدل ہے کہ اس نے کبھی غذا میں بھی ملاوٹ کی جرات نہیں کی۔ ان کی فوڈ فیکٹریوں پر بنی ڈاکو مینٹریز دیکھیں تو پاگل ہو جائیں کہ کروڑوں ڈالر ہائی جین یعنی صفائی کے نام پر نخروں پہ ہی برباد کر دیتے ہیں۔ عجیب و غریب لباس پہنے ہوتے ہیں۔
سروں پر ٹوپیاں، منہ پر ماسک، ہاتھوں پر دستانے چڑھائے بےوقوف ہر کام مشینوں سے لیتے ہیں جن میں دو نمبری کا ایک آدھ سنہری موقع بھی نہیں ہوتا۔ سمجھ نہیں آتی اتنی فضول خرچیاں اور بےوقوفیاں کرکے بھی وہ اتنے بھاری منافع کیسے اینٹھ لیتے ہیں اور ان کی چیزیں دنیا بھر میں اتنی پالولر کیوں ہیں۔ یقیناً اس کے پیچھے بھی کوئی سازش ہو گی جو آج نہیں تو کل یقیناً پکڑی جائے گی۔شراب حرام ہے لیکن بدبخت اسے بھی حلال کی طرح بناتے ہیں۔ ہمارے لئے تو حرام ہے سو مقامی طور پر جتنی بھی بنتی ہے، پی کر اکثر پوری پوری بارات لم لیٹ ہو جاتی ہے، کبھی لوگ اندھے ہو جاتے ہیں، زیادہ ہی خالص ہو تو فوت وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں لیکن بےوقوف گنہگار گورا حرام کام بھی حلال کی طرح کرتا ہے۔ان کی اک اور عادت بھی عجیب ہے۔ کبھی ٹریفک جیم میں نہیں پھنستے، ٹھک کرکے ہر جگہ ہمیشہ ٹائم پر پہنچ جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے ان پلیدوں کو پابندی اوقات کے علاوہ اور کام ہی کوئی نہیں جبکہ ہم نمازیں تو وقت پر پڑھتے ہیں، باقی وقت کے مسئلہ میں ریلیکس کرتے ہیں۔ بندہ پوچھے ایک آدھ گھنٹہ آگے پیچھے ہو جانے میں کیا مضائقہ ہے؟ہم صحیح معنوں میں ہر طرح آزاد لوگ ہیں، سڑکوں پر مکمل آزادی انجوائے کرتے ہیں اور یومِ آزادی پر تو یہ آزادی قابلِ دید ہوتی ہے جبکہ گنوار، جاہل گورا ٹریفک سگنل کی ایسے سنتا ہے جیسے کوئی آسمانی اشارہ یا کسی پیر فقیر سائیں لوک یا مجذوب کا حکم ہو۔ کبھی کسی جی دار کو اپنی ’’لین‘‘ سے ادھر ادھر ہلنے کی ہمت کرتے دیکھا؟ اور تو اور دو گورے بھی ہوں تو ہماری طرح برادرانہ یعنی شانہ بشانہ نہیں، آگے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں جیسے قطار بنانا کسی اوتار کا حکم ہو۔مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں بالکل نہیں جانتا کہ جب گوروں کے پولٹری فارموں پر کوئی بیماری حملہ آور ہوتی ہے اور مرغیاں مر جاتی ہیں تو گورا ان ’’ٹھنڈی مرغیوں‘‘ کا کیا کرتا ہے، اندازہ میرا یہ ہے کہ وہ انہیں تلف کر دیتا ہوگا کیونکہ اس میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہے جبکہ ہمارے پاس ’’ٹیلنٹ‘‘ کی فراوانی ہے اس لئے ہم انہیں ضائع نہیں کرتے بلکہ ذرا کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں اور اس طرح دونوں پارٹیاں فائدے میں رہتی ہیں۔ بیچنے والا ٹوٹلی نقصان سے بچ جاتا ہے اور خریدنے والے کو ’’ٹھنڈی مرغی‘‘ سستی مل جاتی ہے۔ رہ گیا گاہک تو اس نے تو مرغی ہی کھانی ہے جو اس تک پہنچتے پہنچتے پھر سے خوب گرم ہو جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے تین تین شکار کرنا۔ہم سب جانتے ہیں کہ ادرک انسانی صحت کیلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔ ہم نے ادرک کو بھی ’’ادرک پلس‘‘ بنانے پر عبور حاصل کر لیا ہے۔
ہم ایک چھوٹےسے تالاب میں پانی چھوڑ کر اس میں اک کیمیکل ملا دیتے ہیں جس کا نام میں اس لئے نہیں بتا سکتا کیونکہ یہ ہمارا ’’ٹریڈ سیکرٹ‘‘ ہے جسے لیک کرنا بےایمانی ہوگی۔ قصہ مختصر ہم اس کیمیکل ملے پانی میں ادرک ڈبو دیتے ہیں جس سے نہ صرف اس کے وزن میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ اس کی ’’شیو‘‘ بھی ہو جاتی ہے، ’’شائن‘‘ بھی پیدا ہو جاتی ہے اور یوں بیٹھے بٹھائے ایک من ادرک سوا من ہو جاتا ہے۔ ہمارے کچھ ’’برادر‘‘ ایکسپائر ہو چکی اشیاء بھی لیبلز تبدیل کرکے امپورٹ کر لیتے ہیں جن کے استعمال سے گاہک کا تو بگڑتا کچھ نہیں، امپورٹر کا بہت کچھ سنور جاتا ہے۔گزشتہ چند برسوں سے ہم نے اک نئی ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائی ہے جس کا فخریہ تعارف کرانے کا اعزاز حاصل کر رہا ہوں۔ ہمارے ہاں عید پر قربانی کا رواج ہے اور قربانی کیلئے ’’بکرا‘‘ سب سے پاپولر ہے اور خریدار ’’دوندے‘‘ یعنی دو دانتوں والے بکرے کو ترجیح دیتا ہے۔ زندگی نام ہے سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کا سو ہم میں سے کچھ نے ’’ڈنگر ڈینٹسٹ‘‘ بننے کا فیصلہ کیا اور دندان سازی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے بکروں کے اصل دانت غائب کرکے دو دو دانت لگا کر ’’دوندے‘‘ بکروں کی مینو فیکچرنگ شروع کر دی۔دودھ بچوں کی بنیادی ضرورت ہے سو اپنے نونہالوں کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ہم نے گائے، بھینس، بکری سے بےنیاز ہوکر کیمیکلز والا دودھ تیار کیا تو ’’پنجاب فوڈ اٹھارٹی‘‘ حسد میں مبتلا ہو گئی لیکن کام نہ صرف جاری ہے بلکہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔قصہ مختصر ہماری ایجادات و تخلیقات و تحقیقات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ایک آدھ تحریر یا تقریر میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اللہ گورے کو بھی یہ توفیقِ تخلیق دے، اسی لئے انہیں ’’بددعائوں‘‘ میں لپٹی ’’دعائیں‘‘ دینے پر مجبور ہوں۔ آخر وہ بھی انسان ہیں۔یار مردہ صحبت باقی….باقی آئندہ
Source: Jung News
Read Urdu column Buduaoon main Lipti Duayen By Hassan Nisar