بس ایک جنگ باقی ہے- جاوید چودھری
حمیدہ بانو بیگم تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کی والدہ تھیں‘ اکبر انھیں مریم مکانی کہتا تھا‘ وہ نسلاً مغل تھیں اور ایران سے تعلق رکھتی تھیں‘ اکبر کے دور میں مریم مکانی کے بے شمار رشتے دار ایران سے ہندوستان شفٹ ہوئے۔
اکبر کی زندگی کے 14 سال لاہور میں گزرے لہٰذا وہ دل میں لاہور کے لیے انتہائی نرم گوشہ رکھتا تھا اور اپنی والدہ کے زیادہ تر رشتے داروں کو لاہور میں سیٹل کرا دیتا تھا‘ محمد قاسم خان بھی ان لوگوں میں شامل تھا‘ وہ مریم مکانی کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا‘ والدین ایران سے آگرہ آئے اور بادشاہ کے حکم پر لاہور منتقل ہو گئے‘ بادشاہ نے خاندان کو لاہور کے مضافات میں جاگیر عنایت کر دی‘ محمد قاسم خان کی آخری زندگی اس جاگیر پر گزری‘ 1635ء میں اس کا انتقال ہوا اور اسے اس کی جاگیر میں دفن کر دیا گیا۔
پانچواں مغل بادشاہ شاہ جہاں 1630ء میں لاہورآیا اور اس نے لاہور کے شاہی قلعے میں موتی مسجد بھی بنوائی‘ شالیمار باغ بھی شروع کروایا اور اپنے تمام رشتے داروں کے مزارات بھی تعمیر کرائے‘ ان مزارات میں محمد قاسم خان کا مزار بھی شامل تھا‘ یہ دو منزلہ مزار تھا‘ تہہ خانے میں قبر تھی‘ اوپر بارہ دری اور اس کے اوپر گنبد تھا‘ سکھوں کا دور آیا تو راجہ رنجیت سنگھ نے محمد قاسم خان کے مزار سمیت پوری جاگیر اپنے وزیر خزانہ خوشحال سنگھ کو الاٹ کر دی‘ خوشحال سنگھ نے مزار کے گرد شاندار حویلی بنوانا شروع کر دی۔
خاندان نے محمد قاسم خان کا مزار مسمار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن خوشحال سنگھ نے روک دیا یوں حویلی بھی بن گئی اور مزار بھی قائم رہا‘ خوش حال سنگھ کے بعد تیجا سنگھ وزیرخزانہ بنا تو اس نے سیالکوٹ میں اپنی حویلی دے کر خوشحال سنگھ سے یہ حویلی لے لی‘ 1849ء میں انگریز نے پنجاب فتح کر لیا‘ 1859ء میں میجر میک گریگر (MacGregor) لاہور کا پہلا ڈپٹی کمشنر بنا‘ میجر میک کو یہ حویلی پسند آ گئی اور وہ اس میں اقامت پذیر ہو گیا۔
1859ء ہی میں رابرٹ منٹگمری کو پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر بنا دیا گیا‘ وہ لاہور پہنچا‘ ڈپٹی کمشنر نے اسے گھر پر کھانے کی دعوت دی‘وہ آیا‘ اسے یہ حویلی پسند آئی اور اس نے اسے گورنر ہاؤس میں تبدیل کر نے کا فیصلہ کر لیا‘ انگریز آرکی ٹیکٹ جان لک ووڈ آیا اور اس نے اپنے شاگرد بھائی رام سنگھ کے ساتھ مل کر عمارت اور فرنیچر ڈیزائن کیا‘ محمد قاسم خان کا مزار نئی عمارت کے نیچے آ گیا‘ آرکی ٹیکٹس نے یہ مزار نہیں چھیڑا‘ اس کے گرد تہہ خانہ بنا دیا گیا اور اوپر گورنر ہاؤس کا ڈائننگ ہال تعمیر کر دیا گیا‘ یہ ڈائننگ ہال اور محمد قاسم خان کا مزار یہ دونوں آج بھی گورنر ہاؤس لاہور میں موجود ہیں۔
لاہور کا گورنر ہاؤس 383 سال کی تاریخ کے ساتھ پاکستان کی شاندار ترین عمارتوں میں شامل ہے‘ یہ مغل‘ سکھ‘ انگریز اور ماڈرن چار ’’آرکی ٹیکچرز‘‘ کا مجموعہ ہے‘ رقبہ 85 ایکڑ ہے‘کمپلیکس میں عمارت کے علاوہ خوبصورت لانز‘ گارڈنز‘ جھیل‘ چڑیا گھر اور فوارے ہیں‘ دو دو سوسال پرانے درخت اور پھولوں اور پودوں کی نایاب نسلیں بھی ہیں‘ یہ عمارت اور محمد قاسم خان کا مزار یہ دونوں بابرکت ہیں‘ تاریخ کے 383 برسوں میں لاہور میں ہر قسم کا انقلاب آیا‘ مغل آئے اور رخصت ہوئے‘ دنیا میں سکھوں کی پہلی حکومت بنی اور پھر وہ بھی رخصت ہو گئی‘ انگریز آئے‘ حکومت کی اور برطانیہ واپس چلے گئے۔
پاکستان بنا اور 70 برسوں میں ہر قسم کا حکمران اور حکومت آئی لیکن یہ عمارت اور محمد قاسم خان کا مزار ہر دور میں قائم بھی رہا اور اس کی خوبصورتی اور مضبوطی میں اضافہ بھی ہوتا رہا‘ کیوں؟ اس کیوں کا جواب شاید کسی کے پاس موجود نہیں‘ اللہ تعالیٰ کو کسی انسان کی کوئی ادا پسند آ جاتی ہے اور یہ پھر اس کا نام اور اس کا نشان مٹنے نہیں دیتا‘ محمد قاسم خان نے بھی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی نیکی ضرور کی ہو گی جس کے صدقے اللہ تعالیٰ اس کی قبر اور اس کی جاگیر کی حفاظت کر رہا ہے لہٰذا جو بھی یہاں آتا ہے وہ اس عمارت کونقصان پہنچانے کے بجائے اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر جاتا ہے‘ وہ قاسم خان کی قبر کو مزید مضبوط بنا جاتا ہے۔
آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ تازہ ترین مثال لے لیجیے‘ وزیراعظم عمران خان نے یکم دسمبرکو گورنر ہاؤس کی بیرونی دیوار گرانے کا حکم دے دیا‘ ایل ڈی اے نے حکم کی پیروی میں دیوار سے جنگلہ اتارنا شروع کر دیا‘ یہ ایشو فوراً لاہور ہائی کورٹ پہنچا اور جسٹس مامون الرشید نے دیواریں گرانے کے خلاف نہ صرف سٹے آرڈر دے دیا بلکہ یہ حکم بھی جاری کر دیا’’ حکومت کے جس اہلکار نے گورنر ہاؤس کی دیوار کی ایک اینٹ بھی چھیڑی وہ سیدھا جیل جائے گا‘‘ یہ مثال کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ ثابت کرتی ہے کوئی ہے جو اس عمارت اور اس کی حدود کی حفاظت کر رہا ہے‘ وزیراعظم اور خاتون اول دونوں روحانی شخصیات ہیں‘ ان دونوں کو گورنر ہاؤس کے اس روحانی پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
میں ملک کے سسٹم اور انگریز کی نفسیاتی غلامی کے خلاف ہوں‘ میں سر کے بال سے پاؤں کے ناخن تک تبدیلی بھی چاہتا ہوں لیکن میں ایسی تبدیلی کے خلاف ہوں جس کی بنیاد پرانی عمارتوں کی لاش پر رکھی جائے‘ آپ حکومت کا کمال دیکھیے‘ یہ ڈیڑھ سو سال پرانی دیوار گرا کر اس کی جگہ چھ کروڑ کا جنگلہ لگانا چاہتی ہے‘ یہ کیسی سادگی‘ یہ کیسی کفایت شعاری ہے؟ آپ پہلے دیوار گرائیں گے اور پھر اس پر چھ کروڑ روپے کا نیا جنگلہ لگائیں گے‘ پنجاب کا گورنر آج بھی گورنر ہاؤس میں بیٹھتا ہے‘ دیوار گرنے اور جنگلہ لگانے کے بعد لاہور گورنر ہاؤس کی سیکیورٹی کا کیا عالم ہو گا؟ کیا اسے آسانی سے دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنایا جا سکے گا؟ حکومت اس عمارت میں یونیورسٹی بنا کر نیا گورنر ہاؤس بھی بنانا چاہتی ہے۔
آپ یونیورسٹی ضرور بنائیں لیکن سوال یہ ہے کیا نیا گورنر ہاؤس مفت بنے گا‘ کیا اس پر پچاس ساٹھ ستر کروڑ روپے خرچ نہیں ہوں گے اور کیا یہ فضول خرچی نہیں ہو گی؟ میں چار دن سے حکومتی ترجمانوں کے منہ سے سن رہا ہوں یہ عمارت انگریز استعمار کی یادگار ہے اور ہم یہ یادگار ختم کر رہے ہیں‘ یہ نقطہ بھی درست ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا صرف گورنر ہاؤس کی دیوار استعماری یادگار ہے‘ پوری عمارت نہیں‘ آپ نے اگر استعماری یادگار ختم کرنی ہے تو پھر آپ پورا گورنر ہاؤس گرا دیں اور استعمار کے خلاف آپریشن صرف گورنر ہاؤس تک ہی کیوں محدود رہے؟ پورا مال روڈ انگریزوں کی یادگار ہے۔
آپ گورنمنٹ کالج‘ ٹاؤن ہال‘ اولڈ کیمپس‘ جی پی او‘ ہائی کورٹ کی عمارت اور 119 سال پرانا چرچ بھی گرا دیں‘ آپ لاہور کا ریلوے اسٹیشن بھی گرا دیں اور آپ اس کے بعد کوشش کریں آپ راجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی‘ لاہور کا قلعہ‘ شالیمار گارڈن‘ چوبرجی اور کینٹ میں موجود انگریزوں کی تمام بیرکس بھی گرا دیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ بھی انگریز‘ سکھ اور مغل استعمار کی یادگاریں ہیں اور آپ اگر کوشش کریں تو آپ مینار پاکستان کو بھی گرا کر اس کی جگہ ایک لمباسا بانس لگا سکتے ہیں‘ ہمیں آخر اس مہنگائی میں اتنے بڑے مینار پاکستان کی کیا ضرورت ہے! ہمیں ملک میں سادگی‘ کفایت شعاری اور انقلاب کی ایسی روشن ترین مثالیں قائم کرنی چاہئیں جن سے یہ پھٹا پرانا ملک بھی نیا پاکستان بن جائے اور دنیا بھی ایفل ٹاور‘ مجسمہ آزادی اور بگ بینگ گرا کر ان کی جگہ بانس لگانے پر مجبور ہو جائے‘ ہم دنیا کو لیڈ کریں۔
حکومت کو بہرحال اب بریک لگانی ہو گی ورنہ یہ ملک ایک ایسی کھائی میں جا گرے گا جہاں سے اسے کوئی نہیں نکال سکے گا‘ آپ کی حالت یہ ہے آپ نے صرف 108 دنوں میں معیشت کا بھرکس نکال دیا‘ آپ سو دنوں میں ڈالر تک کو اسٹیبل نہیں کر سکے‘ وزیراعظم بھی ڈالر کو ٹیلی ویژن کے ذریعے پرواز کرتا دیکھتے ہیں‘ ملک میں کوئی ایک بھی ایسا شعبہ‘ ڈیپارٹمنٹ یا ادارہ نہیں بچا جو سر پر ہاتھ رکھ کر دہائیاں نہ دے رہا ہو‘ حکومت کے اپنے معاشی ماہرین چلا چلا کر کہہ رہے ہیں ڈالر 180 روپے تک چلا جائے گا‘ 100 دنوں میںڈالر کے اتار چڑھاؤ سے حکومتی قرضوں میں دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا‘ڈالر نے جمعہ 30نومبرکو جو چھلانگ لگائی صرف اس سے غیرملکی قرضوں میں 750 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔
ملک میں کام کرنے والی تین بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہاتھ اٹھا دیے ہیں‘ یہ ڈاؤن سائزنگ بھی کر رہی ہیں اور یہ اپنے آپریشن بھی بند کر رہی ہیں‘ اسلام آباد کے ڈی چوک میں روزانہ کسی نہ کسی ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین مظاہرہ کرتے ہیں اور سڑکیں بند ہو جاتی ہیں‘ آپ پٹرول‘ بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی دیکھ لیں اور ملک میں مہنگائی‘ بے روزگاری اور ڈپریشن بھی دیکھ لیجیے لیکن آپ ڈھلوان پر لڑھکتی ان گاڑیوں کو روکنے کے بجائے گرانے اور ڈھانے پر لگے ہوئے ہیں‘ آپ نے آدھے ملک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا‘ آپ آج ملک کے کسی ائیرپورٹ سے باہر نکلیں آپ کو دائیں بائیں قطار اندر قطار ملبے کے ڈھیر ملتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے آپ کسی جنگ زدہ علاقے میں آگئے ہیں۔
ہماری حالت یہ ہے ہمارے اداروں میں ملبہ تک اٹھانے کی کیپسٹی موجود نہیں لیکن ہم انبار میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ پاگل پن کب تک چلتا رہے گا اور اس کا کیا انجام ہو گا؟ لوگ کہہ رہے ہیں بس ایک جنگ باقی ہے آپ یہ بھی شروع کر دیں‘ آپ انڈیا اور افغانستان پر چڑھ دوڑیں تاکہ ساری کسریں پوری ہو جائیں‘پاکستان واقعی نیا پاکستان بن جائے‘ کاش کوئی حکومت کو سمجھائے گرانے اور ڈھانے سے پرانے ملک نئے ملک بن سکتے تو عراق اور افغانستان دونوں آج امریکا ہوتے‘ گرانے اور ڈھانے کی اپروچ ٹھیک نہیں‘ آپ یہ کام روک کر صرف اور صرف معیشت پر توجہ دیں‘ معیشت کا پہیہ چل پڑا تو پورا ملک ٹھیک ہو جائے گا اور آپ کو پھر گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانا پڑیں گی اور نہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانا پڑے گا‘ لوگ آپ کا بت بنا کر ملک کی ہر سڑک پر لگا دیں گے لیکن آپ نے اگر یہ سلسلہ بند نہ کیا‘ آپ نے اگر اپنی سوچ نہ بدلی تو مجھے خطرہ ہے آپ لوگ چھ ماہ بعد اپنے دفتروں‘ گھروں اور حلقوں میں داخل نہیں ہو سکیں گے‘ عوام کے ہاتھوں سے نہ بننے والی حکومت عوام کے ہاتھوں ختم ہو جائے گی۔
Must Read urdu column Bus aik jang baki hai By Javed Chaudhry