بس بے کاروں کو کارآمد بنادیں – جاوید چوہدری
خاتون کا جواب خوف ناک تھا ’’میرے آٹھ بچے ہیں‘‘ فردوس عاشق اعوان کا ردعمل بھی دل چسپ تھا ’’تمہارا میاں کیا کرتا ہے‘ اس کے علاوہ‘‘ اور پھر سب کے منہ سے قہقہہ نکل گیا‘ یہ سوال اور جواب سوشل میڈیا کے ذریعے اب تک پوری دنیا دیکھ چکی ہے‘ یہ بات بظاہر مذاق ہے لیکن پاکستان کی محرومی اور پس ماندگی کی تمام جڑیں اس مذاق میں پیوست ہیں‘ہماری پس ماندگی کا درخت اس مذاق سے پانی اور کھاد لے رہا ہے۔
دنیا کے 40 اداروں نے دنیا بھر کے امراء اور کام یاب لوگوں پر ریسرچ کی اور دنیا کے ہزاروں کام یاب اور امیر لوگوں کی 15 عادتیں اکٹھی کیں‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا کے تمام کام یاب اور امیر لوگ بچوں کو کرہ ارض کی مہنگی ترین پراڈکٹ سمجھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے ایک بچہ بوئنگ جیٹ سے زیادہ مہنگا ہوتا ہے چناں چہ یہ لوگ انتہائی سوچ و بچار اور ماہرین سے گفتگو کے بعد بچے پیدا کرتے ہیں لہٰذا دنیا کے تمام کام یاب اور امیر لوگوں کے بچے کم ہیں جب کہ ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد غرباء اور ناکام لوگوں کے گھر بچوں کی نرسریاں ہیں۔
یہ ہر سال نئے جوتے‘ نئے کپڑے یا نئی رضائی لے سکیں یا نہ لے سکیں لیکن یہ نیا بچہ ضرور لے آتے ہیں‘ آپ کسی کثیر اولاد غریب شخص سے اللہ کے اس ’’کرم‘‘ کی وجہ بھی پوچھ لیں‘ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہے گا بس جی اللہ کی مرضی تھی‘ رازق اللہ تعالیٰ ہے‘ وہ منہ بعد میں پیدا کرتا ہے اور اس کے حصے کا رزق پہلے‘ یہ بات درست ہے‘ واقعی اللہ رازق ہے لیکن بچوں کی پرورش تو والدین کی ذمے داری ہے۔
تعلیم‘ صحت اور اخلاقی تربیت یہ ذمے داری تو اللہ نے انسان کو دے رکھی ہے اور آج کے زمانے میں یہ تمام ’’مصنوعات‘‘ بہت قیمتی‘ بہت مہنگی ہیں‘ آج کے دور میں ایک بچے کو 20سال تک بڑا کرنے پر پانچ کروڑ روپے خرچ ہوجاتے ہیں‘ یہ بچہ روزانہ 100 گیلن پانی استعمال کر جاتا ہے‘ اگر آپ کے آٹھ بچے ہیں تو آپ کو انٹرنیشنل اسٹینڈر کے مطابق روزانہ ہزار گیلن پانی چاہیے‘ آکسیجن‘ خوراک‘ ہیلتھ اور ایجوکیشن اس کے بعد آتی ہے‘ آپ اس کے بعد اس کو روزگار کہاں سے دیں گے؟
اس کی رہائش کا بندوبست کیسے کریں گے اور اس کے لیے انصاف‘ آزادی رائے اور میرا جسم میری مرضی کہاں سے لائیں گے چناں چہ بچہ محض بچہ نہیں ہوتا‘ یہ ذمے داریوں کی طویل فہرست ہوتا ہے اور یہ ذمے داری بھی اگر بڑی ہو کر آٹھ دس مزید ذمے داریاں پیدا کر دے تو پھر اس دنیا کا کیا بنے گا؟ آپ آج جہالت‘ مسکینی اور بیماری کو تلاش کرنا شروع کر دیں‘ یہ آپ کو غریبوں کے گھروں میں اکٹھی مل جائیں گی۔
غربت‘ جہالت اور بیماری تینوں بہنیں ہیں اور یہ ہر وقت وہ گھر تلاش کرتی رہتی ہیں جہاں لوگ زیادہ اور بے کار ہوں‘ ایسے لوگ‘ ایسے گھر ان کا آئیڈیل ٹھکانہ ہوتے ہیں لہٰذا دنیا میں آج تک جو بھی گھر اور جو بھی معاشرہ ان سے بچ سکا اس نے صرف دو کام کیے‘ آبادی کم رکھی اور لوگوں کو کارآمد بنایا‘ہمیں بہرحال یہ حقیقت سمجھنی اور ماننی ہو گی۔
آپ نے کورونا کے دوران اپنے ملک کے اصل مسائل جان لیے ہوں گے‘ غربت‘ غربت اور غربت‘ ہماری آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ یہ دس کروڑ لوگ ہیں‘ ان کی دیہاڑی جس دن نہ لگے یہ اس دن بھوکے سوتے ہیں‘ اب سوال یہ ہے یہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ دو وجوہات ہیں‘ یہ بے ہنر ہیں اور دوسرا یہ تعداد میں زیادہ ہیں‘ آپ ملک کی کسی کچی آبادی میں چلے جائیں‘ آپ کو ایک ایک کمرے میں دس دس لوگ مل جائیں گے۔
آپ کسی سے پوچھ لیں وہ بے روزگار بھی ہو گا اور بے ہنر بھی‘ کیا ہم اتنے لوگوں کو گھروں میں بٹھا کر کھلا سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو کب تک اور یہ لوگ اگر اسی طرح آٹھ آٹھ بچے پیدا کرتے رہیں گے تو ملک یہ بوجھ کب تک اٹھا سکے گا؟ لہٰذا میں آج حکومت کے سامنے ایک تجویز رکھنا چاہتا ہوں‘ میری درخواست ہے خدا کے لیے چند لمحوں کے لیے اس تجویز پر غور ضرور کیجیے گا‘ یہ شاید اس ملک کا مقدر بدل دے۔
حکومت دس سال کا منصوبہ بنائے‘ پارلیمنٹ‘ سپریم کورٹ اور ملک کے مقتدر اداروں سے اس کی اجازت لے‘ اپوزیشن کو بھی ساتھ ملائے اور یہ فیصلہ کر لیا جائے دس سال تک اس منصوبے کو چھیڑا نہیں جائے گا‘ یہ جوں کا توں چلتا رہے گا‘ حکومت فنڈز تخلیق کرے اور ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو شام کے وقت ٹیکنیکل اسکولز میں تبدیل کر دے‘ چار سو ٹیکنیکل شعبے لے۔
احساس پروگرام کے ذریعے امداد لینے والے تمام لوگوں کے تمام بچے لے اور ان بچوں کو ٹیکنیکل اسکولوں میں داخل کر دے‘ حکومت ان بچوں کو والدین سے الگ بھی کر دے‘ وسائل نہ ہوں تو حکومت مسجدوں کو بھی پناہ گاہوں میں تبدیل کر سکتی ہے‘ یہ ان بچوں کو شروع میں مسجدوں میں رکھ لے اور پھر ہاسٹل بنا کر ان کو وہاں شفٹ کرتی رہے‘ ٹیکنیکل اسکولز میں ان بچوں کو لکھنا‘ پڑھنا‘ بولنا‘ ہاتھ دھونا‘ نہانا‘ صاف کپڑے پہننا اور کھانے پینے کا طریقہ سکھایا جائے اور اس کے بعد انھیں کوئی نہ کوئی ہنر سکھا دیا جائے۔
یہ بچے جوں ہی اٹھارہ سال کے ہو جائیںآپ ان بچوں کو ملک سے باہر بھجوا دیں یا پھر لوکل مارکیٹ کے حوالے کر دیں‘ یہ آسانی کے ساتھ اپنا اور اپنے خاندان کا بوجھ اٹھا لیں گے لیکن حکومت یہ فیصلہ کرلے یہ کسی بچے کو بے ہنر نہیں رہنے دے گی‘ یہ معذوروں کو بھی کوئی نہ کوئی کام سکھائے گی‘ ہم اس ضمن میں ترکی‘ جرمنی اور چین کی مثال لے سکتے ہیں‘ خلافت عثمانیہ کے دور میں حکومت یتیم بچوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی تھی‘ یہ انھیں اعلیٰ تعلیم اور تربیت دیتی تھی۔
یہ لوگ جب بڑے ہو جاتے تھے تو حکومت انھیں فوج اور بیوروکریسی میں ضم کر دیتی تھی‘ یہ بچے کیوں کہ رشتے داری کی علت سے پاک ہوتے تھے‘ ان کی تربیت بھی اعلیٰ پیمانے کی ہوتی تھی لہٰذا یہ خلافت عثمانیہ کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتے تھے‘ یہ بیوروکریسی بھی چلاتے تھے‘ نظام عدل بھی اور فوج بھی‘ عثمانیوں کی فوج کا مشہور زمانہ دستہ انھی یتیم بچوں پر مشتمل ہوتا تھا‘ یہ دستہ عثمانیوں کے آٹھ سو سال کی تاریخ میں کبھی ناکام نہیں ہوا ‘ استنبول تک انھوں نے فتح کیا تھا‘ ہم یہ ماڈل لے سکتے ہیں۔
جرمنی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فیصلہ کیا تھا ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی ہنر کا ماہر ہو گا لہٰذا یہ اپنے ہر بچے کو اسکول سے کوئی نہ کوئی ہنر سکھا کر بھجواتے ہیں‘ ان کی ساری پارلیمنٹ نائی‘ موچی‘ ترکھان‘ الیکٹریشن اور پلمبروں پر مشتمل ہے‘ چانسلر اینجلا مرکل بھی ہیئر ڈریسنگ کا کام جانتی ہیں‘ حکومت احساس پروگرام کو ٹیکنیکل اداروں کے ساتھ نتھی کر دے اوراحساس امداد لینے والے تمام خاندانوں کے بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن لازم قرار دے اور چین نے بھی یہی کیا۔
اس نے ثابت کر دیا آبادی ایشو نہیں ہوتا بے ہنر آبادی ایشو ہوتا ہے‘ آپ اگر کارآمد ہیں تو آپ ڈیڑھ ارب بھی کم ہیں‘ ہم چین کو بھی کاپی کر سکتے ہیں‘ چین قیدیوں کو بھی ہنر سکھاتا ہے اور سی پیک جیسے منصوبوں پر لگا دیتا ہے‘ نان نفقے کا بوجھ ہم اٹھاتے ہیں‘ قیدی اپنی قید کی مدت پاکستان میں گزارتے ہیں اور رقم چین کما لیتا ہے۔
ہم یہ کیوں نہیں کرتے؟ ہم کیوں دس کروڑ لوگوں کو گھروں میں بٹھا کر کھلانا چاہتے ہیں‘ ہمیں ماننا ہوگا یہ ملک چیریٹی سے نہیں چل سکے گا‘ ہم ملک میں آخر کتنے دستر خوان بنا لیں گے اور ملک کے کتنے امراء آخر کتنی دیر‘ کتنے بے کار لوگوں کا بوجھ اٹھا پائیں گے لہٰذا وقت آ چکا ہے ہم عقل کو ہاتھ ماریں اور اپنی نوے فیصد آبادی کو کارآمد بنائیں‘ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔
حکومت کو غلط فہمی ہے یہ لوگ کبھی نہ کبھی خود سمجھ جائیں گے‘ آپ یقین کر لیں یہ لوگ جن کے گھروں میں فاقے ہیں‘ خواتین قطاروں میں لگ کر امداد لے رہی ہیں اور یہ ہر سال نیا بچہ پیدا کر دیتے ہیں‘یہ کبھی نہیں سمجھیں گے‘ آپ ان سے یہ توقع بند کر دیں یہ کسی روز اٹھیں گے اور کام شروع کر دیں گے‘ یہ خیال تک بے وقوفی ہے چناں چہ آپ ان سے ان کے بچے لیں اور انھیں کمانے والا ہاتھ بنا دیں ورنہ یہ بے کار ہاتھ چھیننے والے ہاتھ بن جائیں گے اور ہم ایٹمی طاقت روانڈاہو جائیں گے چناں چہ آپ خدا خوفی کریں‘ ان لوگوں پر فوکس کریں۔
Must Read urdu column Bus Bekaron ko Kaaramad bana den by Javed Chaudhry