بس مولانا کو روکیں – جاوید چوہدری
بودھ بھکشو عورت کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے‘ یہ ویرانوں میں زندگی گزار تے تھے‘بھکشوؤں کی کتاب میں لکھا ہے دو بھکشو جنگل میں پیدل سفر کر رہے تھے‘ راستے میں ندی آ گئی‘ یہ ندی پار کرنے کے لیے پانی میں اترنے لگے تو ایک بھکشو نے دیکھا چار پانچ سال کی بچی ندی کے کنارے کھڑی ہو کر رو رہی ہے‘ بھکشو اس کے پاس گیا اور رونے کی وجہ پوچھی‘ بچی نے بتایا وہ ندی کے دوسرے کنارے پر گاؤں میں رہتی ہے۔
رشتے داروں کے ساتھ ادھر آئی تھی‘ جنگل میں کھیلتی رہی اور رشتے دار واپس چلے گئے ‘وہ اب اکیلی ندی پار نہیں کر سکتی‘ بھکشو نے اسے اٹھا کر کندھے پر رکھا‘ ندی پار کی‘ بچی کو اتارا اور ساتھی کے ساتھ آگے چل پڑا‘ پانچ سات کلو میٹر بعد اس کے ساتھی نے اچانک سر اٹھایا‘ اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’تم پاپی ہو‘‘ بھکشو نے حیرت سے پوچھا ’’میں نے کیا پاپ کیا‘‘ ساتھی بولا ’’تم نے ناری کو کندھے پر بٹھا کر ندی پار کرائی‘‘ پہلے بھکشو نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’میں نے اس بچی کو ندی کے کنارے اتار دیا تھا لیکن تم ابھی تک اسے کندھے پر بٹھا کر چل رہے ہو‘‘۔
پنجاب میاں شہباز شریف اورپاکستان میاں نواز شریف کو بھول جانا چاہتا ہے‘ لوگ انھیں بھول بھی جاتے ہیں لیکن عمران خان نواز شریف اور عثمان بزدار عوام کو میاں شہباز شریف کو بھلانے نہیں دے رہے‘ یہ 13 ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کے کندھوں پر سوار ہیں‘ یہ انھیں نیچے نہیں اترنے دے رہے‘عوام روزانہ مان لیتے ہیں 2018 کے انتخابات میں عمران خان ہی کو ووٹ ملے تھے۔
لوگ میاں برادران کو کرپٹ اور نااہل بھی مان لیتے ہیں اور عوام اس پر بھی یقین کر لیتے ہیں، یہ دونوں بھائی ملک کی تباہی کے ذمے دار ہیں لیکن حکومت کی تسلی اس کے باوجود نہیں ہو رہی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی ساری قیادت جیلوں میں پڑی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی جیلوں کے پھاٹک کھل چکے ہیں‘ بلاول بھٹو کے علاوہ پارٹی کے تمام اہم لوگ جلد جیلوں میں ہوں گے مگر حکومت اس اچیومنٹ کے باوجود خوش نہیں! یہ روز شریف شریف اور زرداری‘ زرداری کی تسبیح کرتے رہتے ہیں‘ یہ ’’مجرموں‘‘ کو مرنے نہیں دے رہے‘یہ ان لوگوں کو مرنے اور تاریخ کے قبرستان میں دفن کیوں نہیں ہونے دے رہے؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی! قوم ان لوگوں کو روز بھول جاتی ہے۔
قوم انھیں مکمل طور پر فراموش بھی کرنا چاہتی ہے لیکن پنجاب میں جب بھی بارش آ جائے‘ اسٹریٹ کرائمز بڑھ جائیں‘ پی کے ایل آئی نامکمل رہ جائے‘ اورنج لائن ٹرین نہ چل پائے‘ میٹرو کے کرایوں میں اضافہ ہو جائے‘ سرکاری پھول‘ پودے اور گملے چوری ہو جائیں‘ گلی محلوں میں گندگی کے انبار لگ جائیں‘ پولیس بندے مار دے یا پھر ڈنگی پھوٹ پڑے عثمان بزدار فوراً لوگوں کو یاد کرا دیتے ہیں لاہور میں ایک میاں شہباز شریف بھی ہوتا تھا اور وہ لانگ بوٹ پہن کر پانی اور کیچڑ میں اتر جاتا تھا‘ وہ زینب جیسے واقعات کے بعد آئی جی کو قصور بھجوا دیتا تھا اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سڑکوں‘ پلوں‘ ریلوے ٹریکس اور انڈرپاسز کا جائزہ لیتا تھا۔
میں سمجھتا ہوں پنجاب میں جب تک عثمان بزدار پلس موجود ہے‘ لوگ اس وقت تک میاں شہباز شریف کو نہیں بھول سکیں گے‘ یہ اس وقت تک پچھلے دس سالوں کو یاد کرتے رہیں گے‘ صوبے میں جب بھی کوئی حادثہ ہو گا‘ جب بھی کوئی بحران پیدا ہو گا‘ جب بھی سفارش پر کسی کا تقرر یا تبادلہ ہو گا‘ حکومت کو جب بھی کسی محکمے کے لیے کوئی سربراہ نہیں ملے گا اور لوگ جب بھی کسی کو سی ایم یا وزیراعلیٰ کہیں گے تو انھیں بے اختیار میاں شہباز شریف یاد آ جائے گا۔
میں پچھلے دس بارہ برسوں سے اپنے ان خیالات کی وجہ سے گالیاں کھا رہا ہوں‘ پاکستان تحریک انصاف کے جذباتی نوجوان مجھے بکاؤ اور شریف خاندان کا ملازم تک کہتے ہیں‘ یہ لوگ جب تک جی چاہے یہ کہتے رہیں مجھے فرق پڑا اور نہ پڑے گا تاہم حقیقت وہی رہے گی میں جس کا اعلان پندرہ برسوں سے کر رہا ہوں اور شاید آیندہ بھی کرتا رہوں گا‘ مجھے یاد ہے میں 2014 سے 2019 تک اکیلا ہوتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے عمران خان اور عثمان بزدار جیسے ’’فرشتے‘‘ اتارے اور آج حسن نثار اور ہارون الرشید جیسے کٹر عمرانیے بھی اپنی کمر پر ہاتھ لگا لگا کر چوٹیں گن رہے ہیں۔
یہ بھی وہی کہہ رہے ہیں جو میں کہتا تھا اور ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو میرے ساتھ ہوتاتھا‘ مجھے خطرہ ہے یہ حکومت اگر مزید چھ ماہ چل گئی تو پورا پاکستان حسن نثار بن جائے گا‘ یہ بھی مان لے گا یہ نادانی میں اپنی جان پر ظلم عظیم کر بیٹھے ہیں‘ یہ خود کنوئیں میں آ گرے ہیں‘ آپ صرف تین ماہ انتظار کر لیجیے‘ آپ کو آج کے دن شان دار ترین محسوس ہوں گے اور آپ ان لوگوں سے درخواست کر یں گے آپ ہمیں 2018میں نہ لے کر جائیں آپ ہمیں بس اکتوبر 2019 میں واپس لے جائیں‘ وہ بھی غنیمت تھا‘عثمان بزدار جو کارنامے پنجاب میں کر رہے ہیں عمران خان وہ ذمے داری اسلام آباد میں نبھا رہے ہیں۔
یہ بھی عوام کو روز نواز شریف یاد دلا دیتے ہیں‘ آپ پچھلے دو ماہ کے دوران اسلام آباد میں کرائم کی رپورٹیں نکال کر دیکھ لیں‘ پوش علاقوں میں ڈاکے شروع ہو چکے ہیں‘ لوگوں کو سر راہ لوٹ لیا جاتا ہے‘ ایمان دار اور مخلص حکومت 13 ماہ میں ایئر پورٹ کو میٹرو کے ساتھ نہیں جوڑ سکی‘ نواز شریف یہ کام جہاں چھوڑ کر گیا تھا یہ اس سے بھی دس پندرہ کلو میٹر پیچھے جا چکا ہے‘ سی پیک بھی کفن میں لپٹ چکا ہے بس اس کی تدفین باقی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھاگے مدت ہو چکی ہے بس اس کے پاؤں کے نشان باقی ہیں اور لوکل بزنس مین کیا سوچ رہا ہے یہ ملک کے چوٹی کے بزنس مینوں نے دو اکتوبرکو آرمی چیف کو بتا دیا‘ بزنس مینوں کی آرمی چیف سے ملاقات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے بزنس مین حکومت پر اعتبار کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ بھی اب فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ ملک میں سردیاں شروع ہو چکی ہیں‘ شاہد خاقان عباسی اور اقبال زیڈ احمد نیب کی حراست میں ہیں‘ حسین داؤد کو بھی نوٹس مل چکا ہے چناں چہ ملک میں کسی بھی وقت ایل این جی کا بحران پیدا ہو جائے گا‘ سردیوں میں گیس غائب ہو جائے گی اور یوں ملک 2012میں واپس چلا جائے گا جب لوگ کچا آٹا لے کر سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتے تھے۔
حکومت مسلسل دعویٰ کر رہی ہے ہم اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں‘حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے‘ عمران خان کوواقعی اسٹیبلشمنٹ کی بے انتہا سپورٹ حاصل ہے لیکن کیا یہ سپورٹ مستقبل میں بھی جاری رہے گی؟ میرا خیال ہے نہیں‘یہ تعاون وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا چلا جائے گا‘ نومبر کے بعد حکومت کے لیے سپورٹ مزید مشکل بلکہ ناممکن ہوتی چلی جائے گی‘کیوں؟ قوم ملک کی دونوں پارٹیوں کی قیادت کو کرپٹ سمجھتی تھی لیکن عمران خان کی غلطیاں انھیں بے گناہ ثابت کرتی جا رہی ہیں‘ عوام کو یہ آج سچے اور ایمان دار دکھائی دے رہے ہیں بس عدالت کی مہر باقی ہے اور یہ مہر کسی بھی وقت لگ جائے گی۔
آپ چند ہفتوں میں ان لوگوں کو ایک ایک کر کے جیل سے باہر آتے دیکھیں گے‘ حکومت اس محاذ پر بھی بری طرح پسپا ہو جائے گی لہٰذا ہم تاریخ کے جوہڑ میں جا گریں گے‘ ہم نے 1971 میں ایک فاش غلطی کی تھی‘ شیخ مجیب الرحمن نے آزادانہ الیکشن میں اکثریت حاصل کر لی تھی‘ حکومت بنانا اس کا حق تھا‘ ہم نے اسے یہ حق نہ دے کر ملک توڑ دیا‘ ہم آج اس حکومت کو بچا کر 1971 سے بھی بڑی غلطی کریں گے‘ یہ لوگ بنیادوں کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں‘ یہ جاتے جاتے اپنے تمام ستونوں کو بھی ساتھ لے جائیں گے اور مجھے نہیں لگتا اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں حکومت کا ستون بننا پسند کرے گی۔
ملک واقعی خطرناک دور میں داخل ہو چکا ہے‘ ہماری سیاسی حماقتیں ملک کو چلنے کے قابل نہیں چھوڑیں گی‘ میں نے 2014میں عمران خان سے کہا تھا آپ دھرنے کی غلطی بھی نہ کریں اور اپنی خواہشوں کا تابوت علامہ طاہر القادری کے مدرسے کے بچوں کے کندھوں پر بھی نہ رکھیں‘ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی‘ عمران خان نے پوچھا تھا‘ کیوں؟ میں نے عرض کیا تھا‘ ہم نے اگر دھرنے سے ایک حکومت گرا دی تو پھر یہ روایت پڑ جائے گی۔
ملک میں اگلا دھرنا مولانا فضل الرحمن دیں گے اور پورا ملک مل کر بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ عمران خان نے میری بات نہیں مانی چناں چہ یہ آج مولانا فضل الرحمن کا نشانہ بننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں‘ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں اگر مولانا یہ حکومت گرانے میں کام یاب ہو گئے تو پھر اس ملک کو کوئی مستحکم حکومت نصیب نہیں ہو سکے گی‘ ہم سب جتھوں کا لقمہ بن جائیں گے لہٰذا کچھ بھی کرنا پڑے آپ مولانا کو روکیں‘آپ سسٹم کو بچائیں‘ مولانا نہ رکے تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا‘ حکومت اور اپوزیشن مل کر مارشل لاء کا مطالبہ کریں گی۔
Must Read urdu column Bus maulana ko rok den By Javed Chaudhry