’’چاند رات کی چاندنی– حسن نثار
چاند رات ہم اکٹھے تھے، ہم جو برسوں پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر ون میں چار پانچ سال اکٹھے رہے۔ چار پانچ سال اس لئے نہیں کہ نالائق تھے بلکہ اس لئے کہ ہم وہ پہلے انڈر گریجویٹس تھے جنہیں تھرڈ ایئر (آنرز پارٹ ون) میں داخلہ کا اعزاز ملا۔ تب یہ نہر اتنی میلی تھی نہ دائیں بائیں سڑکیں ایسی چوڑی اور پُرشور، گنتی کے چار پانچ ہاسٹل تھے انتہائی خوب صورت، اجلے۔ اب تو ہاسٹل بھی گندے اور نہر بھی….. ’’رام تیری گنگا میلی ہو گئی‘‘۔ معاشرہ اور ماحول بھی آلودہ نہیں تھا۔ آگے پیچھے دائیں بائیں کھیت ہی کھیت، ہریالی ہی ہریالی، پھر یوں ہوا کہ آبادی بہت کچھ نگل گئی۔ تب ہائوزنگ سکیموں اور قبضہ گروپوں جیسی اصطلاحیں بھی متعارف نہ ہوئی تھیں۔ تب معاشرہ پُرسکون، آسودہ اور مطمئن تھا، نیو کیمپس آسودہ اور پرسکون تر۔ مچھلی بازار تو بہت بعد میں بنا۔شیخ افضل، عنایت، جج صاحب، جاوید اقبال قریشی جو دوستوں میں جاوید ککڑ کے نام سے تب اور اب بھی مقبول، منہ کھولے بلکہ ہلائے بغیر ایسی بانگ دیتے کہ آڈیٹوریم میں مرغے کی تلاش شروع ہو جاتی اور یوسف ہونڈا جو رنگ روپ قد کاٹھ کی وجہ سے ’’انگریز‘‘ دکھائی دیتا لیکن خالص پٹھان اور اس کے باوجود خاندان کی پہچان علم و فضل، یوسف ہونڈا کے مرحوم والد کی ’’پردہ‘‘ پر ایک کتاب ہے جو ہوش
اڑا دیتی ہے حالانکہ وہ عالم دین نہیں صرف عالم تھے کہ اس زمانے میں پرنسپلز عموماً عالم ہی ہوا کرتے تھے۔ جاوید گتہ بھی تھا جس کے والد انکل شمس یعنی ڈاکٹر شمس اس زمانے میں ’’جیالوجی‘‘ کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ تھے اور ہم سوچا کرتے کہ جب انہوں نے جیالوجی (اراضیات) میں پی ایچ ڈی کی ہو گی تب برصغیر میں کتنے لوگوں نے ’’جیالوجی‘‘ کا لفظ بھی سنا ہو گا۔ جاوید گتہ کی وجہ شہرت مارشل آرٹسٹ ہونا بھی تھا۔ شاعروں کے شاعر ن م راشد کا بیٹا شہر یار راشد امریکہ سے آیا، بلیک بیلٹ ہولڈر تھا جس نے نیو کیمپس میں دوستوں کو مارشل آرٹ سکھانا شروع کیا۔ جاوید گتہ اس کا دوست ہی نہیں ہونہار ترین شاگرد بھی تھا۔ شہر یار راشد شیری بعد ازاں فارن سروس میں چلا گیا اور ہری بھری جوانی میں بھری دنیا خالی کر گیا۔چاند رات ہم سب نے ان سب کو بہت یاد کیا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے۔ ابھی پچھلے دنوں ہم سب کو دو گہرے زخم لگے۔ پہلے مسعود داڑھو رخصت ہوا اور اس کے پیچھے پیچھے سردار رجب علی پتافی گیا۔ ظالموں نے رخصت ہونے سے پہلے اجازت تک نہ لی۔ پتافی اور داڑھو کی کنٹی نیوٹی آج بھی خون کے آنسو رلاتی ہے۔ پتافی اور داڑھو کے کمرے آمنے سامنے تھے، صبح کاذب دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے اور پتافی شروع ہو جاتا’’داڑھو وا!چولہا جلتا نہ دیکھوتوا چڑھتا نہ دیکھوروٹی پر نظر نہ پڑےصبح کی کھائو شام کی فکر رہے‘‘یہ ساری محبت بھری بددعائیں پتافی سرائیکی زبان میں داڑھو کی خدمت میں پیش کرتا۔’’سدا ناں ماپے حسن جوانی سدا نہ صحبت یاراں‘‘کچھ ملک چھوڑ گئے، کچھ دنیا چھوڑ گئے۔جج صاحب بولے ’’مہینے میں ایک بار ہر صورت اکٹھے ہونا چاہئے۔ کون جانے کل کون نہ ہو‘‘ میں نے احتجاجاً عرض کیا کہ ___’’یار ککڑ! سیانے کہتے ہیں شکل اچھی ہو تو بات بھی اچھی کرنی چاہئے‘‘ سب کھلکھلا کے ہنس دیئے تو میں نے انہیں بتایا کہ ریٹائرمنٹ سے بہت پہلے ایک بار جج صاحب نے مجھے باقاعدہ سمن بھجوا دیا تھا۔باتوں باتوں میں پاکستان کے مسائل کا ذکر چھڑا اور پھر چھڑتا ہی چلا گیا۔کمال یہ ہے کہ اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ پاکستان کسی بھی طرح ایک غریب ملک نہیں۔ یہاں میں نے اپنے اس ’’کالے قول‘‘ کا حوالہ دیا کہ حکمران اگر صرف اس ملک کو کھانا، لوٹنا ہی بند کر دیں تو اس ملک کو کسی شے کی ضرورت نہیں۔ چند باتیں جو ہائی لائٹ ہوئیں اور ذہن میں محفوظ بھی ہیں، آپ بھی غور کریں۔پہلی یہ کہ یہاں قوانین کی بہتات ہے یا یوں کہہ لیں کمی کوئی نہیں لیکن قوانین پر عملدرآمد کی حالت بہت پتلی ہے۔نظام عدل و انصاف میں بہتری کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔تیسری یہ کہ اخلاقی اقدار کا حشر نشر ہو چکا اور یہ سلسلہ 80کی دہائی میں شروع ہو کر اب عروج پر ہے اور دور دور تک رکتا دکھائی نہیں دیتا۔تعلیم کی کمی تو چھوڑیں کوالٹی ایجوکیشن نام کی کسی شے کا وجود ہی نہیں رہ گیا۔ اساتذہ بھی تنخواہوں کے منتظر ’’نوکر‘‘ ہیں اور دھڑا دھڑ ’’نوکر‘‘ ہی پیدا کئے جا رہے ہیں۔مذہبیت ایک عجیب سا موڑ مڑ گئی ہے۔ سارا زور ’’ظواہر‘‘ کی طرف منتقل ہو چکا۔ ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘ تو کیا ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھوں اور زبانوں سے محفوظ ہیں؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔زراعت سے لے کر صنعت تک میں ہنگامی انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔مالیاتی استحصال کے 101بہانے ہیں جن کی عوام کو خبر تک نہیں اور اس کے ذمہ داران مافیاز کا روپ دھار چکے۔بے لگام آبادی کے بڑھائو چڑھائو کا موثر بندوبست نہ کیا گیا تو صرف یہ ایک مسئلہ ہی ایک ایسی دلدل ثابت ہو گا جس کا تصور ہی لرزا دیتا ہے۔ایک کرپٹ معاشرہ میں ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی سے کہیں زیادہ بھیانک ہوتی ہیں۔ امپورٹ سے لے کر مقامی ادویات سازی تک پر غور کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔مختصراً یہ کہ مسائل کی نشاندہی میں سب نے حصہ ڈالا اور دعا کی کہ اللہ حکمرانوں کو مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔کھانے کے بعد ’’یار زندہ صحبت باقی‘‘ کی صدا اور دعا کے ساتھ سب رخصت ہوئے تو چاند رات کی چاندنی ماحول میں گہری سرایت کر چکی تھی۔
Source: Jung News
Read Urdu column Chaand rat ki chandni By Hassan nisar