چمچ اور کانٹا – سہیل وڑائچ
چمچ: قسم خدا کی! مجھے اس کی نیت پر شک نہیں، میاں کانٹے تم تو ہر شخص پر شک کرتے ہو۔
کانٹا: چمچے خان، کبھی سمجھ بھی جایا کرو، بات نیت کی نہیں صلاحیت کی ہے۔ نیت ٹھیک بھی ہو اور صلاحیت نہ ہو تو حکومت نہیں چلتی۔
چمچ: پہلی بار کوئی ایماندار حکمران آیا ہے۔ سارے مافیا اکٹھے ہو گئے ہیں۔ شوگر مافیا، شریف مافیا، زرداری مافیا، آٹا مافیا، کرپشن مافیا سب حکومت کو چلنے نہیں دے رہے۔
کانٹا: ارے او بھائی چمچ خان! دو سال ہونے کو آئے ہیں، کب تک ماضی کو روتے رہو گے؟ کچھ کرکے بھی دکھائو گے یا صرف تنقید ہی کرتے اور ماضی کی کہانیاں سناتے رہو گے؟
چمچ: ارے او میاں کانٹے، تمہارا تو کام ہی کانٹے بچھانا ہے۔ کرپٹ سیاستدان، لفافہ صحافی اور ڈرپوک نوکر شاہی سب ملے ہوئے ہیں۔ یہ حکومت کو کوئی کام کرنے ہی نہیں دیتے۔ لیڈر تو ایماندار ہے اس کو اچھی ٹیم نہیں ملی۔
کانٹا: ارے او چمچ خان! لیڈر ہی ٹیم چنتا ہے۔ بھٹو نے ناتجربہ کار چنے لیکن ان میں سے کوئی حفیظ پیرزادہ بن کر چمکا، کوئی مصطفیٰ کھر بنا اور کوئی کوثر نیازی بن گیا۔ اب تو پرویز خٹک ہو یا فواد چودھری کسی کی سنی ہی نہیں جاتی۔
چمچ: مسائل ہی اتنے ہیں کہ ایک مسئلے کو ٹھیک کرتے ہیں تو دوسرا نکل آتا ہے، شریفوں اور زرداریوں نے اس قدر تباہ حالی کر دی ہے کہ پانچ سال میں تو صرف سمت سیدھی ہو گی۔
کانٹا: پانچ سال کا وقت نہیں ملتا۔ معیشت تباہ ہے، شرح نمو منفی میں چلی گئی ہے۔ بجٹ تاریخ ساز خسارے میں ہے۔ ترقیاتی فنڈز بند ہیں۔ کوئی نیا منصوبہ زیر غور نہیں کوئی اصلاحاتی ایجنڈا نہیں ہے۔ اس لئے اگلے 3سال میں بہتری کی کوئی امید نہیں۔
چمچ: میاں کانٹے تمہیں تنقید کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔ سارے ریاستی ادارے ایک صفحےپر ہیں۔ سب حکومتی کارکردگی پر مطمئن ہیں۔ کورونا سے جس اچھے طریقے سے نمٹا گیا ہے، اس پرسب خوش ہیں۔
کانٹا: چمچ خان صاحب، خوش فہمی سے نکل آئو، یہی آخری چھ مہینے آپ کے پاس ہیں۔ خانِ اعظم نے تو کابینہ کے اجلاس میں خود کہہ دیا ہے کہ بس یہی آخری چھ ماہ ہیں، پھر حکومت نہیں اپوزیشن کا پائوں بھاری ہو جائیگا۔
چمچ: اقتدار اب نہ شریفوں کو مل سکتا ہے نہ زرداریوں کو۔ موجودہ حکومت نے اداروں سے تعاون کا حق ادا کر دیا ہے۔ ہم پر تو یہ الزام ہے کہ ہم نے سی پیک اور کنسٹرکشن کا شعبہ بھی ان کو دے دیا ہے۔ افغانستان، چین، بھارت اور امریکہ سے سارے معاملات وہ خود طے کر رہے ہیں۔ دراصل یہ حکومت کے اداروں پر اعتماد کا اظہار ہے کیا کسی سیاسی حکومت نے اس سے پہلے اتنے اختیارات دیے تھے۔
کانٹا: اصل بات معیشت اور طرزِ حکمرانی کی ہے، اگر معیشت نہ چلی تو ادارے کیسے چلیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسی حکومت کو چلانا چاہتے ہوں لیکن کل کو اس کی وجہ سے جو تنقید ہو گی وہ ان کیلئے ناقابل برداشت ہو گی۔
چمچ: کسی کے پاس بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔ ایسا ایماندار اور پاپولر لیڈر پورے ملک میں ہے ہی نہیں، اس کو کسی نے ہاتھ لگایا تو لگ پتہ جائے گا۔ اس کا ردِعمل ہوگا چھریاں، چاقو چلیں گے، پلیٹیں اور رکابیاں ٹوٹیں گی۔
کانٹا: دیکھو حکومت کو کام کرنے کی مکمل آزادی دی گئی، ٹیم خان کی مرضی کی ہے۔ وزرائے اعلیٰ انہوں نے خود بنائے، اداروں نے بھرپور تعاون اور مدد کی، اب اگر ان سے معیشت کا پہیہ نہیں چل رہا تو ادارے حکومتی غلطیوں کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟ چاول اچھے نہیں پکے تو دیگ کا کیا قصور، باورچی کو پکڑیں۔ گلاس توڑنے سے مسائل حل نہیں، مزید خراب ہوں گے۔
چمچ: وہ کیا کرے؟ دن رات میٹنگز کرتا ہے، اس کا کوئی کمیشن نہیں، کوئی پسندیدہ سرمایہ دار یا سیٹھ نہیں جسے وہ فائدہ پہنچائے۔ غریبوں اور مڈل کلاس کی خاطر اس نے سادہ ترین لائف اسٹائل اپنا رکھا ہے۔
کانٹا: وہ میٹنگز تو بہت کرتا ہے، پالیسی ساز فیصلے نہیں کرتا۔ ایک دن کچھ کہتا ہے دوسرے دن کچھ، اس کے وژن، فہم اور گہرائی پر شک ہے۔
چمچ: وہ پاکستانی لوگوں کی آخری امید ہے۔ یہ ناکام ہوا تو ریاست ناکام ہو جائے گی۔ اس کو نواز شریف اور بینظیر کی طرح گھر نہیں بھیجا جا سکتا، یہ ایماندار ہے۔ اس پر کوئی مقدمہ نہیں۔ اسے ہٹایا گیا تو قیامت برپا ہو جائے گی، صرف چائے کی پیالیوں میں طوفان نہیں آئے گا، بلکہ حمام کے سب لوٹے ننگے کردئیے جائیںگے۔
کانٹا: چمچے، کڑچھے اور کف گیر اسی طرح اپنے لیڈروں کو مرواتے ہیں، کہتے ہیں آگے بڑھو اور پھر پیچھے سے خود کھسک جاتے ہیں۔ ریاست میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ بھٹو کتنا پاپولر تھا مگر جب اسے ریاست نے نکالا تو کوئی بچانے والا نہ تھا۔ آپ لوگوں نے ریاست کا جبر دیکھا نہیں، آپ تو ریاست کے کاسہ لیس رہے ان کی بالٹی سے ہی فیض ملا۔ دونوں میں ناراضی اور دوری ہوئی تو لگ پتا جائے گا۔
چمچ: وہ دن گئے جب یہ دیگچے الٹا دیا کرتے تھے۔ اول تو سب اکٹھے آئے ہیں، اکٹھے جائیں گے۔ ایک کو پہلے رخصت کر دیا گیا تو دوسرے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ چائے کے سیٹ کا ٹی پاٹ ٹوٹ جائے تو پورا سیٹ خراب ہو جاتا ہے۔
کانٹا: مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر فرائی پین سے ڈنڈی ٹک مرچ کو نہ نکالا تو سارا آملیٹ اتنا کڑوا ہو جائے گا کہ پھر کسی سے بھی کھایا نہ جائے گا، انڈے بھی ضائع ہوں گے اور آملیٹ بھی پھینکنا پڑے گا۔
چمچ: ملک کڑے دور سے گزر رہا ہے، کوئی بھی ایسی صورتحال میں مہم جوئی نہیں کر سکتا۔ نہ مارشل لا لگ سکتا ہے نہ نئے الیکشن ہو سکتے ہیں۔ آ جا کر عدم اعتماد کا راستہ ہے اگر وہ راستہ اپنایا گیا تو پھر ملک واقعی بحران کی نذر ہو جائے گا۔
کانٹا: آپ دعا کریں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے، وگرنہ آپ تو ہانڈی کی ڈوئی بھی برداشت نہیں کر پائیں گے۔ آپ جائیں گے تو بحران ختم ہو جائیں گے۔
چمچ: ہمیں بھیجنا اتنا بھی آسان نہیں۔ وہ زمانے گئے جب مٹکے الٹا دیے جاتے تھے۔ اب پلوں سے بہت سا پانی بہہ چکا۔
کانٹا: دیکھو اور انتظار کرو، وہ وقت جلد آنے والا ہے…..
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Source: jang News
Must Read Urdu column Chamach aur Kanta By Sohail Warraich