چند سو روپے – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

کینیڈا میں میری بہت سے تارکین وطن پاکستانی کاروباری حضرات سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ پچھلے دنوں بھی اِسی طرح کی ایک نشست ہوئی جس میں میرے بھائیوں جیسے دوست حارث کیانی بھی موجود تھے۔ وہاں بیٹھے حارث بھائی نے انکشاف کیا کہ اُنہیں کینیڈا اور پاکستان کی زندگی بالخصوص کاروباری زندگی میں ایک بہت بڑا فرق یہ محسوس ہوا ہے کہ پاکستان میں آپ عام طور پر ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کو سڑک پر کوئی راہ گیر سلام بھی کر لے تو آپ فوراً محتاط ہو جاتے ہیں کہ اس نے آپ کو سلام کیوں کیا۔ آپ اپنے معاملات میں صرف اُسی پر اعتبار کرتے ہیں جسے آپ بخوبی جانتے ہوں۔ یعنی آپ تب تک کسی پر اعتبار نہیں کرتے جب تک کہ وہ ثابت نہ کردے کہ وہ آپ کے اعتبار کے قابل ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ صرف مالی معاملات میں ایسی احتیاط برتی جاتی ہو بلکہ کمٹمنٹ سے لے کر کام تک یہی عمومی رویہ ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کینیڈا میں کسی بھی شخص پر تب تک اعتبار کر سکتے ہیں جب تک کہ وہ آپ کو کوئی وجہ فراہم نہ کردے کہ اُس پر اعتبار نہ کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کینیڈا میں لوگ فراڈ نہیں کرتے لیکن یہاں فراڈ کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

حارث بھائی کی یہ بات کرنے کی دیر تھی کہ محفل میں ایسا ماحول بنا جیسے اُنہوں نے سب کے دل کی بات کہہ دی ہو۔ وہاں بیٹھے ہمارے ایک اور دوست الطاف بھی اپنی روداد سنانے لگے کہ وہ تیس سال سے بیرونِ ملک مقیم ہیں اور ان تیس برسوں میں اُنہوں نے چھ بار پاکستان میں رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی کوشش کی۔ چھ کی چھ بار اُن کے ساتھ فراڈ ہی ہوا۔ کبھی سارا کا سارا سرمایہ ڈوب گیا اور کبھی صرف تھوڑا تھوڑا پیسہ لوٹا کر ٹھینگا دکھا دیا گیا۔ اس طرح کی اور بھی کئی کہانیاں سامنے آئیں۔

تارکین وطن پاکستانیوں کی پاکستان سے محبت اور رشتہ مگر مثالی ہے۔ اُن کی اُمید، دلچسپی اور پریشانی پاکستان ہی سے جڑی رہتی ہے چاہے وہ بیرونِ ملک کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہو جائیں۔ اسی لئےوہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا سوچتے ہیں یا اپنے کاروبار کا ایک حصہ وہاں بھی رکھتے ہیں۔ اس میں اُن کا بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن پھر ایسی مایوس کن کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔

ایما زون جو دنیا کی سب سے بڑی آن لائن شاپنگ ویب سائٹ ہے، وہاں پاکستانی سیلرز کو گزشتہ سال اپنی پروڈکٹس فروخت کرنے کی اجازت ملی تو بڑی تعداد میں اکائونٹ کھولے گئے جسے بڑی کامیابی تصور کیا گیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ اس ویب سائٹ پر جس ملک کے سیلرز کے اکائونٹ سب سے زیادہ تعداد میں بلاک کئے گئے ان میں پاکستان شامل ہے۔

ایما زون تو بڑی دور کی بات ہے، ہمارے ہاں تو آئے روز کسی نہ کسی مقامی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پیج سے خریدی ہوئی چیزوں پر فراڈ کا انکشاف ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ آن لائن فوڈ ڈلیوری ایپ کے رائیڈرز آن لائن بھجوائی جانے والی رقم ہڑپ کر جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

مذکورہ نشست ختم ہونے پر میں نے حارث بھائی سے دریافت کیا کہ لگتا ہے آپ کے ساتھ تازہ تازہ کوئی فراڈ ہوا ہے۔ انہوں نے میرے اصرار پر بتایا کہ اُنہوں نے اپنے کاروبار کو پھیلانے کے لئے پاکستان سے کینیڈا ٹیلی کام سیلز کا کام شروع کیا تھا۔ اس کاروبار کی نگرانی کیلئے اُنہوں نے اپنا ایک بااعتبار بندہ رکھا جو پہلے بمشکل پچیس تیس ہزار کی نوکری کر رہا تھا۔ اُنہوں نے اُس کی باقاعدہ ٹریننگ کروائی، عملہ بھی رکھ کر دیا اور سیلز کا کام شروع ہو گیا۔ تین مہینوں کے اندر اندر وہ شخص حارث کے کاروبار سے کم از کم دو لاکھ ماہانہ کمانے لگا۔ حارث بھائی بڑی خوشی سے بتاتے تھے کہ پاکستان میں اُن کی سرمایہ کاری کی وجہ سے اُن کے کاروبار سے منسلک افراد اچھی آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ پھر ایک دن جب حارث بھائی نے اس کا اکائونٹ لاگ اِن کیا تو اُن پریہ منکشف ہوا کہ وہی بندہ جس کی چند ماہ میں اُنہوں نے کافی امداد کی تھی، وہ اُنہی کے کسٹمرز دوسری کمپنیوں کو دے رہا تھا اور حارث بھائی سے چوری چھپے اُن کےآرڈرز لے رہا تھا۔ جب اُس سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو اُس نے بتایا کہ دوسری کمپنی اُسے فی آرڈر چند سو روپے زیادہ کمیشن دے رہی تھی۔ حارث بھائی کے لئے زیادہ حیران کن بات یہ بھی تھی کہ وہ بندہ شرمندہ ہونے کے بجائے وضاحتیں پیش کر رہا تھا کہ آپ کمیشن کم دے رہے تھے۔ چند سو روپے کے لئے اُس بندے نے چوری بھی کی، اُسے غلط بھی نہیں سمجھا اور جس بندے نے اُسے ایک نیا راستہ دکھایا اُسے دھوکہ بھی دیا۔

حارث بھائی کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنی سیلز ٹیم پاکستان سے فلپائن منتقل کر رہے ہیں کیونکہ وہ اور نہ ہی اُن کا کاروبار مزید کسی فراڈ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ملکی معیشت اس وقت گمبھیر صورتحال سے دوچار ہے۔ حکومت آئی ٹی برآمدات اور آئی ٹی خدمات سے منسلک افراد کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ ہمیں ڈالرز لا کر دیں گے۔ مگر جو تارکین وطن پاکستانی یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں حکومت یہاں نہ تو اُن کے کاروبار کو کوئی تحفظ فراہم کرتی ہے اور نہ انصاف۔ تارکین وطن پاکستانیوں کے ساتھ مقامی پاکستانیوں کا برتائو بھی درست نہیں ہے۔ ہم قلیل المدتی اور چند سو روپوں کے فائدے کے لئےطویل المدتی فائدے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہماری قومی اور انفرادی معاشی پالیسیوں، دونوں کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Chand Soo Rupay By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.