چشمِ بددور! – ارشاد بھٹی
چشمِ بددور، گوڈے گوڈے بھُک، نکونک بیروزگاری، بال بال مسائل میں جکڑا ہوا، دستکیں دیتا کورونا وائرس اور پچھلے سات دنوں سے کھیلا جارہا عورت مارچ، خواتین قابلِ احترام، خواتین کے حقوق سر آنکھوں پر، خواتین کا مارچ سر آنکھوں پر لیکن سوال یہ، سال میں ایک بار چند بڑے شہروں کی چند بڑی سڑکوں پر ’من مرضی‘ کے پمفلٹ، پوسٹرز، بینرز لہرانے، نعرے مارنے، تقریریں جھاڑنے سے اس ملک کی اصل عورت کو کیا ملا، ملے گا۔
سوال یہ بھی، سال میں دوچار دن ٹی وی چینلوں پر گلابی اُردو کو بدیسی ٹچ دینے، درجن بھر ٹویٹس فرمانے، ہوٹلوں میں محفلیں سجانے سے اس ملک کی عورت کی صحت پر کیا اثر پڑا، پڑے گا، سوال یہ بھی، کیا یہ عورت مارچ والیاں اس ملک کی اصل عورت کی نمائندہ ہیں، ’میرا جسم میری مرضی‘ والیاں سال میں کتنی بار اندرونِ سندھ کی مسائل ماری خواتین سے ملنے گئیں، کتنی بار بلوچستان کے ژوب، پسنی، گوادر کی دکھیاری عورتوں کے پاس بیٹھیں۔
کتنی بار خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب کی دیہاتی خواتین کے گھر گئیں، کتنی مرتبہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کے قصبوں، دیہاتوں میں جا کر خواتین سے ملیں، سوال یہ بھی، حادثہ پیرس میں ہو، کوئی مرے نیو یارک میں، موم بتیاں اسلام آباد میں جلانے والی نیک دل بیبیوں کو یہ پتا کہ اسلام خواتین کے حوالے سے کیا کہے، ہمارے معاشرے کی اقدار کیا، ہمارا ویلیو سسٹم کیا، سوال یہ بھی، حقوق کے ساتھ ساتھ کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں، حقوق لینے والیاں کیا اپنے فرائض سے بھی آگاہ؟
چلو وقتی طور پر یہ سب ایک طرف رکھیں، کہنا یہ، کچھ لوگ عورت مارچ کے حامی، کچھ لوگ عورت مارچ کے مخالف، اکثریت ایسی جنہیں طریقہ کار، نعروں سے اختلاف، عورت مارچ کے بہت سارے نعرے ایسے جو میں یہاں لکھ بھی نہیں سکتا، اب اگر یہ نعرے یا طریقہ کار بدل دیے جائیں تو اکثریت کو عورت مارچ پر اعتراض نہ عورتوں کے حقوق پر، اب اگر عورت مارچ والی قابلِ احترام خواتین کا مقصد نعروں کو منوانا تو علیحدہ بات لیکن اگر مقصد حقوق کا حصول تو پھر میرا جسم میری مرضی کے بجائے ’میں عورت میرا حق دو‘ ہو جائے تو کیا حرج۔
لیکن موجودہ طریقہ کار، نعرے ایسے، تنقید ہوگی، رکاوٹیں ہوں گی، کہا جائے گا عورت مارچ مغربی ایجنڈا، عورت مارچ کے پیچھے مغربی پیسہ، عورت مارچ ہماری اقدار، اخلاقیات، فیملی سسٹم پر سوچا سمجھا حملہ، یہی طریقہ کار، یہی نعرے رہے، جتنے چاہے مارچ کر لیں، جتنی چاہے میڈیا مہم چلا لیں، ملک کی ساری عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے لے لیں، کچھ نہیں بدلے گا۔
کچھ بدلنا، اس کیلئے مکالمہ ضروری، حکمتِ عملی سے چلنا ضروری، متنازع چیزوں سے بچنا ضروری، ورنہ یہ نہ ختم ہونے والی لڑائی، نہ ختم ہونے والا معاملہ، مادر پدر مارچ مردوں کا ہو یا عورتوں کا، کچھ نکلنے والا نہیں، ریت کے ڈھیر پر عمارت مرد تعمیر کرے یا عورت، ڈھے جائے گی۔
چشمِ بددور، ایک سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا کرتا تھا، 14لوگ دن دہاڑے قتل ہوئے تھے، تب عمران خان اپوزیشن میں تھے، روز سانحہ ماڈل ٹاؤن کو یاد کیا کرتے، اس پر مارچ، دھرنے بھی ہوئے تھے، ڈاکٹر طاہر القادری ماڈل ٹاؤن انصاف کیلئے ہزاروں افراد سمیت سوا سو دن اسلام آباد بیٹھے بھی تھے سانحہ ماڈل ٹاؤن قتلوں پر ایک ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی، نواز، شہباز سمیت بہت سارے نامزد ملزم، عمران خان، طاہر القادری نے ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کو انصاف دلانے کیلئے وعدے بھی کئے تھے، اقتدار میں آکر قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے دعوے بھی کئے، پھر عمران خان کو اقتدار مل گیا اور آج اقتدار ملے 19ماہ ہو گئے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کہیں کھو گیا، زندگی کی آخری سانس تک ماڈل ٹاؤن مقتولین کیلئے لڑنے،مرنے کی باتیں کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری سیاست سے ریٹائر ہو کر ولایت سدھار گئے، عمران خان سانحہ ماڈل ٹاؤن بھول گیا، آج نہ صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین دربدر، نہ صرف اس سانحہ میں ملوث سیاستدان پتلی گلی سے نکل گئے بلکہ پولیس سمیت تب کی تمام بیوروکریسی اس وقت اہم عہدوں پر،ذرا کسی دن چند لمحے نکال کر ان افسروں کے نام نکالیں۔
جن کے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عمران خان اور طاہر القادری نام لیا کرتے تھے اور پھر دیکھیں وہ سب افسر اس وقت کہاں، آپکو یہ دیکھ کر حیرانی ہوگی کہ سب کو ترقیاں ملیں، سب اہم عہدوں پربلکہ پنجاب چلا رہے، اتناسستا غریب کا خون، سوچا نہ تھا۔
چشمِ بددور، کراچی میں رہائشی عمارتیں گریں، 17افراد جان سے گئے، 5خواتین، 3بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 9جنازے بھی اٹھے، خیر سے عمارت مالک اسپتال سے فرار، ویسے تووہ کراچی جہاں 46ہزار نامعلوم قبریں، جس کے پارک، کھیل کے میدان، قبرستان تک بیچ دیے گئے، جہاں 5سو غیر قانونی عمارتیں، جو کوڑا کوڑا ہو چکا، جہاں کے فالودے والے، مالی ارب پتی، جہاں پچھلی بارشوں میں کرنٹ لگنے سے 22افراد جان سے گئے۔
جہاں سانحہ کار ساز، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری، کراچی کی سڑکوں پر ہوئی قتل و غارت، کسی کو انصاف نہ ملا، جہاں پانی کیلئے برتن لائن میں لگیں اور جہاں امن وامان ایسا کہ آئی جی سندھ کی اپنی فیملی لٹ جائے، اس کراچی پر کیا رونا دھونا لیکن آپکو کچھ بتانا، عمارت گری،لوگ مرے، چیف جسٹس دکھی ہو کر بولے، عمارت گر گئی، سب نیند کے مزے لیتے رہے، کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔
نیوزی لینڈ میں لوگ مرے، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ایک ہفتہ نہ سوئی، کراچی ملبے کا ڈھیر بن گیا، حالات روز بروز خراب ہورہے، سب ادارے چور، لوگوں نے ابا کی زمین سمجھ کر عمارتیں بنا لیں، لوگ مررہے، حکومت بین بجارہی، اب بتانا یہ، جس دن چیف جسٹس عمار ت گرنے، لوگوں کے مرنے پر دکھی ہوکر یہ باتیں کر رہے تھے۔
اسی دن بلاول بھٹو فرما رہے تھے ’’عمران خان کی نظر میں اپوزیشن سیاستدان کرپٹ، حکومت کو بلیک میل کرکے 19ویں ترمیم منظور کروائی گئی، نواز شریف انتقام کا نشانہ بنے‘‘، اندازہ کریں،کراچی میں 17لوگ مر گئے۔
بلاول کو 19ویں ترمیم،نواز شریف کی پڑی ہوئی، پھر بتانا یہ، جس روز سراج درانی کے گھر نیب نے چھاپہ مارا، تمام سندھ حکومت درانی صاحب کے گھر کے باہر تھی، چادر چار دیواری کی دہائیاں دی گئیں، 17لوگ مرے، لوگ ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے، کوئی موقع پر نہ تھا، تبھی تو چیف جسٹس کو کہنا پڑا ’’لوگ مر رہے، آپ بین بجارہے‘‘
Source: Jung News
Read Urdu column Chasmay e Badoor By Irshad Bhatti