چھوٹی چھوٹی پدیاں – جاوید چوہدری
ہم دیامر بھاشا ڈیم کی مثال لیتے ہیں‘ دیامر کا ضلع اور بھاشا کا گاؤں ہزاروں سال سے آباد ہیں‘ نانگاپربت کے گلیشیئرز بھی لاکھوں سال سے موجود ہیں ‘گلیشیئرز کے پانی بھی لاکھوں ہزاروں سال سے بہہ رہے ہیں‘ دریائے سندھ بھی ہزاروں لاکھوں سال سے بھاشا کے قریب سے گزر رہا ہے اور یہ جگہ بھی لاکھوں ہزاروں سال سے ڈیم کے لیے آئیڈیل ہے لیکن یہاں آج تک کسی نے ڈیم نہیں بنایا۔
پاکستان بننے کے بعد ایوب خان کا دور آیا‘ یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے دور بھی آئے اور چلے گئے اور 24چیف جسٹس اور 12آرمی چیف بھی آئے‘ اپنی اپنی سروسز مکمل کیں اور ریٹائر ہو گئے مگر کسی نے بھاشا‘ دیامر اور ڈیم کی طرف توجہ نہیں دی‘ یہ تمام لوگ جانتے تھے پاکستان 2020ء تک آبی قلت کے شکارتین ملکوں میں شامل ہو جائے گا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیسے کا ایشو بھی نہیں تھا‘ یہ بڑی آسانی سے کالاباغ اور دیامر بھاشا دونوں ڈیم بنا سکتے تھے مگر انھوں نے بھی ڈیم پر توجہ نہیں دی‘ یہ بھی ڈیمز پر توجہ دیے بغیر اپنا دور گزار کر دبئی میں جا بیٹھے‘ ہم ڈیم کو کتنا سیریس لیتے تھے آپ تین واقعات ملاحظہ کیجیے۔
جنرل مشرف اپنے دور میں اداکارہ فریال گوہر کو مالی فائدہ پہنچانا چاہتے تھے‘ انھوں نے دیامر بھاشا ڈیم کی انوائرمینٹل اسٹڈی کا ٹھیکہ اسے دے دیا‘حکومت کے کروڑوںروپے ضایع ہو گئے‘دوسرا واقعہ‘ دیامر بھاشا ڈیم پر2007ء میں کام شروع ہوا‘واپڈا کے چیئرمین کے حکم پر ورکرز کے لیے سائٹ اور کالونی بنائی گئی‘ یہ کالونی پانی کے رخ پر بنا دی گئی‘ ڈیم میں جس دن پانی کا پہلا ریلا آئے گا یہ کالونی اور سائیٹ دونوں بہہ جائیں گی اور حکومت کو نئی سائیٹ اور نئی کالونی بنانی پڑ جائے گی۔
میاں نواز شریف کے دور میں ڈیم کے لیے زمین کی خریداری شروع ہوئی اور کالونی کے بارے میں تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلایہ جگہ چیئرمین نے سلیکٹ کی تھی‘ ان کا کہنا تھا کالونی کا ویو اچھا ہونا چاہیے اور یہ جگہ دیامر بھاشا کا شاندار ترین ویو تھا‘آپ دیکھ لیجیے ویو اور فریال گوہر کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہم نے کیسے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ضایع کر دیے لیکن کسی نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا‘ یہ رقمیں انا اور سستی کے تنور کا رزق بنتی گئیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی‘ ملک ان پانچ برسوں میں خوفناک لوڈ شیڈنگ کا شکار رہا‘ پاکستان پیپلز پارٹی اگر 2008ء میں ڈیم پر کام شروع کر دیتی تو یہ آج تکمیل کے قریب بھی ہوتا اور یہ 2200 ارب روپے کے بجائے ہزار ارب روپے میں بھی بن جاتالیکن ملک کے کسی ادارے نے آج تک پیپلزپارٹی سے بھی ڈیم کے بارے میں نہیں پوچھا اورتیسرا واقعہ‘ میاں نواز شریف نے 2016ء میں ڈیم کی زمین خریدنے کی منظوری دی۔
حکومت نے متاثرین کو پیسے دینا شروع کیے تو ایم کیو ایم بھی دیامر بھاشا پہنچ گئی‘ الطاف بھائی نے لوکل قبضہ گیروں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا اور معاوضے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا‘حکومت پی ٹی آئی اور پاناما کے دباؤ میں تھی‘ یہ ایم کیو ایم کو ناراض نہیں کر سکتی تھی چنانچہ ایم کیو ایم نے بھی دیامر بھاشا ڈیم کی آڑ میں اربوں روپے وصول کیے‘ رقم کا ایک حصہ مقامی لوگوں کو دیا گیا اورباقی تین حصے کراچی اور ملک سے باہر چلے گئے لیکن آج تک کسی نے ایم کیو ایم سے بھی یہ نہیں پوچھا ’’کہاں کراچی اور کہاں دیامر بھاشا‘ تم نے پندرہ سو کلو میٹر دور کس زمین کے پیسے وصول کیے تھے؟‘‘۔
آپ یہ واقعات اور حقائق دیکھیے اور اس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی مثال لیجیے‘ چیف جسٹس نے 4 جولائی کو ڈیم بنانے کا اعلان کیا‘ فنڈ اکٹھا کرنا شروع کیا‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی طرف سے 1 ارب 59 لاکھ روپے کا چیک پیش کر دیا اور پھر پورے ملک میں چیف جسٹس کی مخالفت شروع ہو گئی‘ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں نے کہنا شروع کر دیا‘ ڈیم بنانا سپریم کورٹ کا کام نہیں‘ آپ یہ کام حکومتوں پر چھوڑ دیں اور صرف اور صرف انصاف کی فراہمی پر توجہ دیں۔
چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپیئن بھی چلائی گئی‘ ان کے خاکے بھی بنائے گئے اور یہ خاکے وائرل بھی کیے گئے‘ آپ المیہ ملاحظہ کیجیے‘ چیف جسٹس نے13 جولائی کو ایک کیس کی سماعت کے دوران فرمایا’’ ڈیم بنانا میری زندگی کا مشن ہے‘‘ تو ظالموں نے چیئرمین واپڈا کی تصویر لگائی اور نیچے لکھ دیا’’ اور انصاف فراہم کرنا میری زندگی کا مشن ہے ‘‘ اور پھر یہ تاثر اور یہ تصویر سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں پھیلا دی ‘ کل سے سرونسٹن چرچل کے اس قول کو بھی توڑ کر نئی سوشل میڈیا کمپیئن شروع کر دی گئی ہے۔
جس میں چرچل کا اسٹاف اس کو بتاتا ہے‘ دشمن نے ہم پر خوفناک حملہ کر دیا ہے تو چرچل اس سے پوچھتا ہے ‘کیا ہماری عدالتیں مظلوم کو انصاف فراہم کر رہی ہیں؟ چیف جسٹس کے خلاف نئی کمپیئن میں چرچل اپنے اسٹاف سے پوچھ رہا ہے‘ کیا ہماری عدالتیں ڈیم بنا رہی ہیں؟آپ اگر چند لمحوں کے لیے جذبات کو ایک طرف رکھ کر اپنے آپ سے پوچھیں‘ یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہو رہا ہے؟ تو شاید آپ کی ملک اور معاشرے کے بارے میں رائے بدل جائے اورآپ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں ڈیم بنانا لیڈروں ‘ حکومتوں اور بیوروکریسی کا کام تھا‘ حکومتوں نے یہ کام نہیں کیا‘ کسی نے ان سے نہیں پوچھا لیکن جوں ہی چیف جسٹس نے اپنی کریز سے باہر نکل کر یہ کام شروع کر دیا ۔
پورا سسٹم ان کے خلاف ہو گیا‘ہم سب نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا‘کیوں؟ہمیں ماننا ہوگا یہ وہ سوچ ہے جس نے آج تک ملک کو آگے نہیں بڑھنے دیا‘ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہم کچھ نہیں کرتے تو ہم سے کوئی کچھ نہیں پوچھتا اور ہم اگرکچھ کرنے کی غلطی کر بیٹھیں تو پھرپورا ملک ہمارے خلاف عدالت بن جاتا ہے‘ یہ چیف جسٹس بھی اگر ڈیم کا ایشو چھیڑے بغیر چپ چاپ ریٹائر ہو جاتے‘ یہ بھی اگر ڈیم فنڈ کے لیے منتیں نہ کرتے‘یہ بھی فنڈ ریزنگ نہ کرتے اور یہ بھی اگر پوری قوم کو جگانے کی غلطی نہ کرتے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا‘ ملک میں ان کے خلاف کوئی کمپیئن چلتی اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت اور کوئی وکیل ان کے خلاف بیان دیتا‘ یہ بھی ایک شاندار اور عزت دار نوکری کے بعد چپ چاپ ریٹائر ہو جاتے‘ یہ بھی دوسرے چیف جسٹس صاحبان کی طرح دھوپ میں واک کرتے اور اپنے پوتے پوتیوں اورنواسے نواسیوں کے ساتھ لندن میں شاپنگ کرتے‘ کوئی ایشو نہ ہوتا‘ کوئی ان پر اعتراض نہ کرتا مگر چیف جسٹس ثاقب نثارکیونکہ ڈیم کو اپنی ذمے داری سمجھ بیٹھے ہیں۔
انھوں نے کیونکہ ڈیم کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے لہٰذا یہ مقصد اوریہ احساس ذمے داری ان کا جرم‘ ان کا گناہ بن گیا ہے اور ہم نے ان کو تنقید کا ہدف بنانا شروع کر دیا‘ یہ مثال کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ مثال ثابت کرتی ہے ہم لوگ اینٹی پراگریس‘ اینٹی ڈویلپمنٹ اور اینٹی بزنس ہیں‘ ہم میں سے جو بھی شخص پرو بزنس‘ پروڈویلپمنٹ اور پرو پراگریس ہونے کی غلطی کرتا ہے ہم اسے عبرت ناک مثال بنا دیتے ہیں‘ ہم اسے تھانوں میں بھی گھسیٹتے ہیں اور ہم اسے سرکاری دفتروں ‘ عدالتوںاور سڑکوں پر بھی ذلیل کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ شخص اپنا جرم پوچھتا پوچھتا مر کھپ جاتا ہے اور یہ وہ کہانی ہے جو ایوب خان سے لے کر ثاقب نثار تک اس ملک میں مسلسل دہرائی جا رہی ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے شخص کو ٹیلی ویژن پر معافی مانگنے پر مجبور کر دیا تھا‘ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن 1956ء میں بنا تھا‘ چیئرمین آتے اور جاتے رہے تھے‘ دفتروں‘ اسٹاف اور تنخواہوں پر کروڑوں اربوں روپے برباد ہوتے رہے تھے مگر کسی نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر نے کیونکہ ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا تھا چنانچہ ہم نے ان کی ناک سرعام رگڑ دی‘ یہ ہیں ہم اور یہ ہیں ہمارے رویئے۔
میری حکومت‘ سپریم کورٹ اور ملک کے تمام مقتدر اداروں سے درخواست ہے آپ ہمیشہ فیصلہ کرتے وقت چیف جسٹس ثاقب نثار کے ڈیم کے ’’اینی شیٹو‘‘ کو ذہن میں رکھا کریں اور فیصلے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیا کریں ملک میں 71 برسوں میں کسی حکومت نے کڈنی اینڈ لیورٹرانسپلانٹ اسپتال بنانے کی کوشش نہیں کی‘ یہ کام پہلی مرتبہ پنجاب میں ہوا اور ہم نے پی کے ایل آئی اور ڈاکٹر سعید اختر دونوں کو عبرت ناک مثال بنا دیا‘ ملک میں کسی نے بجلی پوری کرنے کی کوشش نہیں کی‘ افسر آئے‘ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نوکری کی اور ریٹائر ہو کر گھر بیٹھ گئے‘ ہم نے کسی سے کچھ نہ پوچھا لیکن ہم نے احد چیمہ کو جیل میں ڈال دیا اور دو دو سال میں بارہ بارہ سو میگاواٹ کے پلانٹ لگانے والے افسروں سے تنخواہیں واپس مانگ لیں‘ ملک میں کسی حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ہم نے ان سے نہیں پوچھا لیکن اورنج لائن اور میٹروز بنانے والے پیشیاں بھگت رہے ہیں اور کسی سیاستدان‘ کسی افسر نے پاکستان کے سوئٹزرلینڈ مالم جبہ کو ڈویلپ نہیں کیا‘ ہم نے ان سے نہیں پوچھا مگر پرویز خٹک‘ محمود خان‘ عاطف خان اور محسن عزیز نے یہ کوشش کی‘ انھوں نے کانٹریکٹ ایوارڈ کیا اور یہ اس وقت پیشیاں بھگت رہے ہیں‘ہم کہیں زیادتی تو نہیں کر رہے‘ ہم کہیں ان چند لوگوں کو بھی سزا دے کر ملک کو سُستان تو نہیں بنانا چاہتے۔
مجھے یقین ہے ہمارے چیف جسٹس اور دوسرے مقتدر لوگ جس دن اپنے آپ کو اس فہرست میں رکھ کر دیکھیں گے‘ یہ اس دن ملک کا اصل ایشو بھی سمجھ جائیں گے‘ انھیں اس دن احد چیمہ اور ڈاکٹر سعید اختر جیسے لوگوں سے ہمدردی بھی ہو جائے گی اور یہ اس دن یہ بھی جان لیں گے ہم من حیث القوم کام کرنے والوں کے خلاف ہیں‘ ہم نے آج تک سرسید احمد خان کا جرم معاف نہیں کیا‘ یہ لوگ تو ویسے ہی چھوٹی چھوٹی پدیاں ہیں‘ ہم انھیں کیوں معاف کریں گے۔
Must Read urdu column Choti choti pidiyan By Javed Chaudhry