کوکین کی لائن- جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

فیل بانوں (ہاتھی پالنے والے) کی زبان دنیا کی قدیم ترین زندہ زبان ہے‘ یہ تامل سے ملتی جلتی ہے اورتامل زبان پانچ سے چھ ہزار سال کے درمیان ایجاد ہوئی تھی اور یہ آج تک تعطل کے بغیر لکھی‘ پڑھی اور بولی جاتی ہے‘ تامل دنیا کی واحد زبان ہے جس کے الفاظ‘ لہجے اور ساؤنڈز دنیا کی تمام زبانوں میں موجود ہیں‘ آپ کو دنیا کے ہر خطے میںکوئی نہ کوئی تامل لفظ ضرور ملے گا‘ کیوں؟

شاید انسانی تاریخ میں کوئی ایساوقت گزرا ہو جب انسان پورے کرہ ارض سے سمٹ کر برصغیر کے آخری کونے میں آباد ہو گیا ہو اور یہ صدیوں تک وہاں رہنے پر مجبور ہو گیا ہو‘شاید یہ صدیاں اس کی زندگی کا پرامن ترین دور ہوں اور اسے وہاں جم کر زبان سازی کے لیے وقت مل گیا ہو‘ہماری معاشرت دو حصوں میں تقسیم ہے‘ لائف اسٹائل اور زبان‘ ہماری لائف کی تمام بنیادی روایات افریقہ سے نکلیں‘ زیمبیا میں ایک قبیلہ ہے ’’بش مین ٹرائیب‘‘ ہم تمام انسانوں کے جینز ’’بش مین ٹرائیب‘‘ میں جا گرتے ہیں۔

ماہرین اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں حضرت آدم ؑ کا تعلق زیمبیا اور ’’بش مین ٹرائیب‘‘ سے تھا‘ ہم اگر یہ تھیوری مان لیں تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا ہماری معاشرت زیمبیا (افریقہ) سے آئی جب کہ زبان (جدید شکل) تامل ناڈو میں تخلیق ہوئی اور یہ تامل ناڈو تک پہنچی لیکن زبان تامل ناڈو سے واپس افریقہ گئی‘ یہ کیسے گئی ہو گی؟ انسان شاید حالات ٹھیک ہونے کے بعد تامل ناڈو سے نکل کھڑا ہوا ہو گا‘یہ تامل ناڈو سے واپس جاتے ہوئے راستے میں آباد ہوتا رہا ہو گااور یہ اپنے حالات کے مطابق زبانیں‘ کلچر اور مذہب تخلیق کرتا رہا ہو گا‘ یہ ماحول کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ‘ قد کاٹھ اور ری ایکشن بھی وضع کرتا رہا ہو گا تاہم تامل زبان اپنے لہجے‘ لفظوں اور آوازوں کی صورت میں اس کے جینز میں موجود رہی ہو گی۔

تامل کے بعد سنسکرت ایجاد ہوئی‘یہ دنیا کی دوسری قدیم ترین زبان ہے‘ مجھے چند برس قبل باربار لیتھونیا جانے کا اتفاق ہوا‘ میں وہاں لکڑی کے گھر بنانے کی ٹریننگ لینے جاتا تھا‘ مجھے لیتھونین زبان میں اردو کے بے شمار لفظ ملے‘ میں نے تحقیق کی تو پتا چلا یہ اردو نہیں یہ سنسکرت کے لفظ ہیں‘لیتھونیا کے لوگ ہزاروں سال قبل سنسکرت زبان کے ساتھ برصغیر سے آ کر بالٹک سی کے کنارے آباد ہوئے تھے‘ لسانیات کے ماہرین شاید اسی لیے لیتھونین زبان کو ’’انڈو یورپین‘‘ زبان بھی کہتے ہیں اور یہ مدر لینگوئج ہے۔

یورپ کی زیادہ تر زبانوں نے لیتھونین سے جنم لیا تھا‘ہم اب فیل بانوں کی زبان کی طرف آتے ہیں‘ ہاتھی زمین پر سب سے بڑا جانور ہے‘ تامل ناڈو کے چند قبائل نے ہزاروں سال قبل ہاتھی سدھانے کا کام شروع کیا‘ یہ ہاتھیوں کو سدھا کر ان سے باربرداری‘ چٹانوں اور درختوں کو راستے سے ہٹانے اور جنگوں میں بکتر بند کا کام لیتے تھے‘ تامل قبائل نے ہاتھیوں کو سدھانے کے لیے ایک خفیہ زبان ایجاد کی‘ یہ زبان دنیا کی قدیم ترین زبان ہے‘ یہ آج تک موجود ہے اور یہ صرف ہاتھی اور یہ تامل قبائل جانتے ہیں‘ تامل ماہرین کا دعویٰ ہے فیل بانوں کی زبان تامل سے بھی قدیم ہے‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ زبان اگر قدیم ہے تو پھر لسانیات کے ماہرین اسے قدیم ترین کیوں نہیں مانتے؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ‘ یہ زبان صرف بولی جاتی ہے۔

یہ لکھی اور پڑھی نہیں جاتی جب کہ لسانیات کے ماہرین صرف اس زبان کو زبان سمجھتے ہیں جو بولی‘ لکھی اور پڑھی جا سکے اور دوسری وجہ یہ زبان صرف چند لوگوں اور ہاتھیوں تک محدود ہے‘باقی دنیا یہ نہیں سمجھ سکتی‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو دنیا کے نوے فیصد ہاتھی جنیاتی طور پر یہ زبان سمجھتے ہیں چناں چہ ہاتھیوں کو سدھانے والے زیادہ تر لوگ تامل ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ہاتھی کے قریب کھڑے ہو کر کوئی منتر پڑھتے ہیں اور ہاتھی چپ چاپ ان کے ساتھ چل پڑتا ہے۔

ہاتھیوں سے متعلق تمام قدیم محاورے بھی اسی زبان سے دوسری زبانوں میں آئے ‘ مثلاً ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘ بے وفا ہاتھی اپنی فوج کو روندتا ہے (پورس کا ہاتھی)‘ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہوتا ہے اور ہاتھی کے منہ سے گنا چھیننے والے اس کے پاؤں تلے روندے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘ یہ تمام محاورے ہاتھی سدھانے والی دنیا کی قدیم ترین زبان سے دوسری زبانوں میں آئے اور دنیا نے ان سے ’’وزڈم‘‘ سیکھی۔

سفارت کاری دنیا کا سب سے نازک آرٹ ہے‘ سفارت کار کہتے ہیں یہ آرٹ ہاتھیوں سے متعلق دو محاوروں پرقائم ہے‘ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں اور ہاتھی کے منہ سے گنا چھیننے کی کوشش نہ کریں یعنی مائیٹ از آل ویز رائٹ اور ہم اس وقت دنیا کے تین بڑے ہاتھیوں کے پاؤں میں کھڑے ہیں‘ امریکا‘ روس اور چین۔ ہم جانتے ہیں یہ تینوں ہاتھی جنگل کا بادشاہ بننے کے لیے لڑ رہے ہیں اور یہ لڑتے رہیں گے اور یہ جب بھی لڑیں گے نقصان ہم جیسی گھاس اٹھائے گی لیکن ہم اس کے باوجود تینوں ہاتھیوں کے پاؤں سے بھی نہیں نکل رہے اور ہم ان کی ٹانگوں پر گدگدی بھی کر رہے ہیں‘ ہم 65 سال امریکا کے ساتھ رہے‘ امریکا روس کے ساتھ لڑتا رہا اور ہمارا گزارہ ہوتا رہا‘ چین اس دوران مکمل ہاتھی بن گیا‘ امریکا اور روس کی لڑائی ختم ہوئی توہم نے روس اور چین پر سواری شروع کر دی۔

یہ اچھی پالیسی تھی‘ کیوں؟ کیوں کہ روس اور چین ہمارے ہمسائے ہیں جب کہ امریکی ہاتھی ہم سے ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر دور ہے چناں چہ ہم اگر دور کے سہانے ہاتھی کو چھوڑ کر قریب کے ہاتھیوں کے ساتھ دوستی لگا لیتے ہیں تو یہ ہمارے لیے مفید ہو گا‘ ہمارا ماضی گواہ ہے ہم 65 سال امریکا کے ساتھ رہے‘ ہم نے ان 65 برسوں میں پایا بھی اور کھویا بھی‘ پاکستان امریکی کیمپ کی وجہ سے چھوٹا اور غریب ملک ہونے کے باوجود دنیا کے اہم ترین ملکوں میں شامل ہو گیا‘ ہم نے یہ پایا لیکن ہم نے اس دوستی میں اپنا مشرقی بازو بھی کھو دیا اور ہم دہشت گردی اور معاشرتی‘ طبقاتی اور مذہبی تقسیم کا شکار بھی ہو گئے ‘ ہم معاشی غلامی میں بھی چلے گئے اور ہم امداد کے عادی بھی ہو گئے۔

ہمیں آج آئی ایم ایف یا عرب ملک رقم نہیں دیتے تو ہم لیٹ کر ایڑیاں رگڑنے لگتے ہیں اور ہم پوری دنیا میں دہشت کی علامت بھی بن گئے ہیں‘ ہم نے امریکا کی دوستی میں یہ نقصان اٹھایا‘ ہماری ان قربانیوں کے بعد امریکا کو ہماری قدر کرنی چاہیے تھی لیکن ہم بدقسمتی سے امریکا کا اعتماد بھی کھو بیٹھے‘ یہ بھی ہمیں ’’بلیک میلر‘‘ سمجھنے لگا‘آپ کو یاد ہوگا امریکی فوج نے 26 نومبر2011 کو صلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے ہمارے دو فوجی افسروں سمیت 26جوان شہید کر دیے تھے‘ ہمارا خیال تھا امریکا اس پر ہم سے معافی بھی مانگے گا اور اپنی فوجوں کو کنٹرول بھی کرے گا لیکن امریکا نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔

ہم نے نیٹو سپلائی بند کردی اور امریکا کی ’’وار آن ٹیرر‘‘ سے الگ ہونے کی دھمکی بھی دے دی‘ ہیلری کلنٹن نے اس پر سات ماہ بعد ڈھیلی ڈھالی ’’سوری‘‘ کر لی‘ یہ کافی نہیں تھی چناں چہ ہم نے مایوس ہو کر چین اور روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا‘ چین نے ہمیں امداد بھی دی‘ پاکستان میں ترقیاتی منصوبے بھی شروع کیے اور ’’سی پیک‘‘ کا آغاز بھی کیا جب کہ روس نے امریکا کے دشمن طالبان کی مدد شروع کر دی‘یہ ایف اے ٹی ایف میں ہمارے ساتھ کھڑا بھی ہو گیا‘ ہمارا نیا آغاز اچھا تھا‘ ہم ٹیک آف کرنے لگے لیکن پھر عمران خان ابھر کر سامنے آئے‘ وزیراعظم بنے اور ہماری ساری قیادت اس وقت واشنگٹن میں بیٹھی ہے‘ ہم ایک بار پھر امریکی ہاتھی کے سائے میں کھڑے ہورہے ہیں۔

امریکا بے شک ہمارا پرانا اتحادی بھی ہے اور دنیا کی واحد سپر پاور بھی‘ ہم بے شک اسے ناراض کر کے سکھی نہیں رہ سکتے لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے ہمیں اس نئے رومانس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ؟ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے مصافحے اور واہ واہ کی پہلی قیمت شکیل آفریدی کی صورت میں دینا ہو گی‘ یہ وہ کردار تھا جس نے امریکا کو اسامہ بن لادن کے گھر تک پہنچایا تھا اور یہ پوری دنیا میں ہماری بے عزتی کا باعث بنا تھا‘امریکا یہ ہم سے لے گا اور ہم یہ اسے دیں گے‘ ہمیں دوسری قیمت حقانی نیٹ ورک‘ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی‘ ہم اگر ان لوگوں کے سلسلے میں امریکا کی مدد کرتے ہیں تو یہ کشمیر کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی اور پاکستان کے اندرونی حالات بھی مزید خراب ہو جائیں گے۔

میں ملیشیا فورسز کے خلاف ہوں لیکن میں اس کے ساتھ ساتھ کسی کے حکم پر ان کی پیدائش اور پھر کسی اور کے حکم پر ان کے خاتمے کا بھی انتہائی مخالف ہوں‘ آزاد قومیں اس قسم کی خدمات سرانجام نہیں دیتیں‘ ہمیں تیسری قیمت ایران کے سلسلے میں دینی پڑے گی‘ ہمیں ایران کے دشمنوں کو ’’گراؤنڈ سروسز‘‘ فراہم کرنا ہوں گی اور یہ سیدھی سادی خودکشی ہو گی اور ہمیں ’’سی پیک‘‘ کو بھی سرد خانے میں ڈالنا ہوگا اوریہ ہمارے جیسے ملک کے لیے چھوٹی قیمت نہیں ہو گی‘ یہ درست ہے ہم اس وقت آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے ہاتھیوں کی ٹانگوں کے درمیان کھڑے ہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو جائے ہم ان سے بچتے بچتے روس اور چین کا اعتماد بھی کھو بیٹھیں اور ہم ان لوگوں کو بھی ناراض کر بیٹھیں جو 35 سال سے کشمیر کے نام پر جانیں دے رہے ہیں۔

حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے سیکڑوں مجاہدین شہید ہو چکے ہیں چناں چہ ہم ان لوگوں کو ناراض کر کے بھی زیادتی کریں گے‘ یہ سچ ہے ہم امریکا کے منہ سے گنا چھیننے کی کوشش میں زخمی ہو سکتے ہیں لیکن یہ بھی درست ہے ہم چین‘ روس اور اپنے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ناراض کر کے بھی بری طرح کچلے جائیں گے‘ امریکا ہمیں لولی پاپ دے کر روس‘ چین اور طاقتور اندرونی گروپوں کی نظر میں گندہ کر دے گا‘ یہ ہمیں سب کی نظروں میں بے اعتبار بنا دے گا لہٰذا احتیاط لازم ہے‘ امریکا کی دوستی کوکین کی لائن ہوتی ہے‘ یہ شروع میں انسان کو مریخ تک پہنچا دیتی ہے لیکن انسان نشہ اترنے کے بعد زمین کے قابل بھی نہیں رہتا‘ ہم ماضی میں یہ غلطی کرتے رہے ہیں‘ ہمیں یہ اب دہرانی نہیں چاہیے‘ ہمیںایک ہاتھی کے چکر میں تین ہاتھی ناراض نہیں کرنے چاہئیں۔

Source

Must Read urdu column Cocaine ki line by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.