کولمبیا یونیورسٹی میں پاکستان سمپوزیم – حامد میر
کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں سمپوزیم کا موضوع ’’نیا پاکستان‘‘ تھا لیکن ایک بھارتی طالب علم نے گفتگو کا رُخ دو قومی نظریے کی طرف موڑ دیا۔
اُس نے پوچھا پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا کیا یہ نظریہ ابھی موجود ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ آپ کے سوال کا جواب پچھلے دنوں بھارتی پارلیمنٹ میں کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے دیدیا تھا، اُنہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نریندر مودی نے شہریت کے قانون میں جو تبدیلی کی ہے اُسکے بعد قائداعظم کے دو قومی نظریے کو تقویت ملی ہے کیونکہ مودی حکومت نے ثابت کر دیا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں لہٰذا قائداعظم تقسیمِ ہند کے 72سال کے بعد جیت رہا ہے۔
بھارتی طالب علم نے کہا کہ اگر دو قومی نظریہ ٹھیک تھا تو پھر باچا خان نے پاکستان کی مخالفت کیوں کی؟ میں نے جواب دیا کہ باچا خان بھی انگریزوں سے آزادی چاہتے تھے، قائداعظم بھی آزادی چاہتے تھے لیکن دونوں کے راستے مختلف تھے جب پاکستان بن گیا تو باچا خان نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھا لیا۔
انکی قائداعظم سے ملاقات بھی ہو گئی لیکن کچھ مسلم لیگی رہنمائوں نے دونوں رہنمائوں کو قریب نہیں آنے دیا تاہم باچا خان نے بعد میں ایوب خان کیخلاف قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ میں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باچا خان کے پیروکاروں کی قربانیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ بشیر بلور سمیت اے این پی کے بہت سے رہنمائوں نے پاکستان کی سلامتی کیلئے افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ قربانیاں دیں۔ بھارتی طالب علم تیسرا سوال کرنا چاہتا تھا لیکن منتظمین نے اسے روک دیا کیونکہ وہ موضوع سے ہٹ کر سوال کر رہا تھا اور گفتگو کا رُخ بدلنا چاہتا تھا۔
کولمبیا یونیورسٹی میں پاکستان کے بارے میں اس سمپوزیم میں طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی بڑی تعداد میں شرکت میرے لئے ایک خوشگوار حیرت تھی۔ اس سمپوزیم کے چار سیشن تھے۔ پہلا سیشن بلوچستان، دوسرا پاکستانی میڈیا، تیسرا انسانی حقوق کی صورتحال اور چوتھا معیشت پر تھا۔ صبح گیارہ بجے سے لیکر شام سات بجے تک یونیورسٹی کے لرنر ہال میں کوئی ایک بھی کرسی خالی نہ تھی۔
معروف ٹی وی اینکر وجاہت ایس خان بھی آج کل کولمبیا یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کا جرنلزم اسکول دنیا کے بہترین صحافی پیدا کر چکا ہے۔ وجاہت نے بلوچستان کے سیشن کی میزبانی کی اور میڈیا سے متعلق سیشن میں مجھ سے سوال کیا کہ پاکستان کی فوج مسائل کا حل ہے یا مسائل کی وجہ ؟ میں نے انہیں جواب میں کہا کہ فوج ہو یا سیاست دان، سب کو آئین کی پابندی کرنی چاہئے اور ہر فیصلہ میرٹ پر کرنا چاہئے۔
پاکستان میں فوج کے کردار پر سوالات اس وقت اٹھتے ہیں جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے لوگ فوج کو سیاست میں گھسیٹتے ہیں، ایسی صورتحال سے وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان دولخت ہو جاتا ہے لیکن دوسری طرف اسی فوج کے بہادر جوان اور افسران نے پاکستان کی سالمیت کیلئے بیش بہا قربانیاں بھی دی ہیں لہٰذا پاکستان کی خاطر سینے پر گولیاں کھانے والے فوجی جوان ہمارے ہیرو لیکن آئین پامال کرنے والے ڈکٹیٹر ہمارے ولن ہیں۔ ایک طالب علم نے پوچھا کہ آپ پر پاکستان میں بار بار قاتلانہ حملے ہوئے۔
آپ نے پاکستان کیوں نہیں چھوڑا؟ میں نے جواب میں کہا کہ مجھے کئی مرتبہ پاکستان سے باہر سیاسی پناہ کی پیشکش ہوئی لیکن میں نے انکار کر دیا کیونکہ مجھے پاکستان کے عام لوگوں نے ہمیشہ محبت اور اعتماد دیا۔
جو لوگ مجھ پر تنقید کرتے ہیں یا الزامات لگاتے ہیں وہ چاہتے ہیں میں پاکستان سے بھاگ جائوں لیکن میں ان کی خواہش پوری نہیں کروں گا مجھ پر پابندی لگانے والا پرویز مشرف خود پاکستان سے بھاگ گیا اگر میں پاکستان سے نہیں بھاگا تو یہ میری نہیں بلکہ پاکستان کی جیت ہے۔ میں نے حکومت کی میڈیا پالیسی پر تنقید کی لیکن یہ بھی بتایا کہ عمران خان کی حکومت جرنلسٹ پروٹیکشن بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرا کر دنیا میں اپنا وقار بلند کر سکتی ہے۔
کچھ طالبات نے خواتین کے مسائل کے بارے میں سوالات کئے اور کہا کہ پاکستان میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کو کچھ لوگوں نے غلط معنی پہنائے ہیں جس پر افسوس ہوا۔ میں نے جواب میں کہا کہ پاکستان میں عورتوں کی جدوجہد کی تاریخ بہت پرانی ہے جن لوگوں نے فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا تھا وہ آج بھی عورتوں کو ان کے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں، عورتوں کو وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو اسلام نے دیے ہیں۔
اس کانفرنس کا انعقاد کرنے میں سارہ عرفان اور مہروز احمد سمیت کئی پاکستانی طالبات پیش پیش تھیں۔ لنچ بریک کے دوران میں نے پاکستانی طلبہ و طالبات سے علیحدہ علیحدہ پوچھا کہ تعلیم مکمل کرکے آپ میں سے کون کون واپس جائے گا؟ طلبہ کی اکثریت کو پاکستان کی سیاست میں بہت دلچسپی تھی لیکن وہ پاکستان واپسی میں سنجیدہ نہ تھے۔
طالبات کی اکثریت کو سیاست میں دلچسپی کم تھی لیکن ان میں سے زیادہ تر پاکستان واپس جانا چاہتی تھیں اور ان طالبات کا جذبہ دیکھ کر مجھے یقین ہو رہا تھا کہ اگلے بیس تیس سال میں پاکستان کی عورتیں مردوں پر حاوی ہوں نہ ہوں لیکن برابر ضرورآ جائیں گی اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کی آڑ میں عورتوں پر گھٹیا الزامات لگانے والے تاریخ کی گرد میں گم ہو جائیں گے۔
بالکل اسی طرح جس طرح ہر سال فاطمہ جناح کی برسی تو منائی جاتی ہے لیکن انہیں بھارتی ایجنٹ کہنے والے ایوب خان کی برسی کوئی نہیں مناتا۔ نیا پاکستان صرف عمران خان کا نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا خواب ہے لیکن یہ نیا پاکستان عورتوں، اقلیتوں اور چھوٹے صوبوں کو ان کے حقوق دیے بغیر نہیں بن سکتا۔
2020ءکا پاکستان 2010ءسے بہتر ہے اور 2030ءکا پاکستان 2020ءسے بہتر ہو گا۔ آخر میں حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں قائداعظم چیئر ختم ہو چکی ہے۔
یہاں قائداعظم چیئر کو بحال کیا جائے اور ایسی یونیورسٹیوں میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے کیلئے پاکستانی سفارتکاروں کو خصوصی ٹاسک دیئے جائیں کیونکہ امریکہ کو سپرپاور اس کے ہتھیاروں نے نہیں، اس کی یونیورسٹیوں نے بنایا ہے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Columbia University main Pakistan Symposium By Hamid Mir