کرونا اور لمبی چھٹی – سیّد طلعت حسین
شاید کوئی ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب لوگ کرونا (کورونا) کو کوسنے کی بجائے اس کے قصیدے پڑھیں۔ وہ جو تمام لوگ اس موذی بیماری کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گئے ہیں ان کو یاد کرنے کے ساتھ اس کی وجہ سے ہونے والی ان تبدیلیوں کا بھی ذکر کریں جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھیں۔
مثلا کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ اس دنیا میں چلنے والی فیکٹریاں اور ماحولیات کے لیے روزانہ بےحساب زہر اگلتی ہوئی مشینیں بند ہو جائیں گی اور پھر چند ہفتوں میں اربوں لوگوں کے سروں پر چھایا ہوا موت کا چھاتا غائب ہو کر آسمان کے اصل رنگ کو ظاہر کر دے گا؟ یا پھر ایک ایسا وقت آئے گا کہ ہر لمحے زمین پر کودنے والا انسان اپنے گھر میں واپس جا کر دبے پاؤں اپنے غرور اور تمکنت کے ٹوٹے ہوئے شیشے چنے گا اور ندامت کے آنسو روئے گا؟
یا پھر ایک ایسا نظارہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ جب تمام دولت، ثروت، طاقت اور تحفظ رکھنے والے اتنے خوفزدہ ہوں گے کہ جتنا ایک بےگھر اور معاشرے کا دھتکارہ ہوا جواری؟ جب اربوں ڈالرز خرچ کرنے والے سپر پاور نما ممالک بھی اتنے ہی بے بس ہوں گے کہ جتنی اندرونی طور پر ٹوٹی پھوٹی اقوام جن کو عموما ناکام ریاستیں کہہ کر پچھلی کرسیوں پر بٹھا دیا جاتا ہے؟ جب ڈاکٹر اور نرسیں نیوکلیئر صلاحیت سے زیادہ اہم بن جائیں گی اور ملیریا کی دوائی ایک سادہ سے ماسک کے ساتھ فوجی تحفظ سے بھی کہیں زیادہ مرکزیت اختیار کر جائے گی؟
جب سات سٹار ہوٹل ہسپتال بنیں گے اور سانس لینے والی مشینیں خلائی سفر پر ہونے والی تمام تحقیق کے خرچے سے بھی زیادہ قیمتی ہو جائیں گی؟ جب ہر چھوٹا بڑا ملک اور معاشرہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ ‘جان ہے تو جہان ہے’ اور یہ کہ جان بچانے کے لیے سرحدوں سے زیادہ گھروں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کورونا کے اس بین الاقوامی حملے سے پہلے اگر کسی لکھنے یا سوچنے والے نے تمام دنیا کے سربراہان کو کسی تحریر یا تقریر یا تجویز کے ذریعے یہ سب کچھ کرنے یا سوچنے کو کہا ہوتا تو وہ نہ صرف ہر دروازے سے ٹھڈے کھاتا بلکہ اس کی فکر کو نئے تہذیبی انداز کے خلاف سازش قرار دے کر دریا برد کر دیا جاتا۔
پھر ایک وائرس نے اس دنیا اور اس کے چلانے والوں کو گلے سے پکڑ کر ایک ایسے راستے پر چلنے پر مجبور کر دیا جس کو کسی بے لگام سوچ رکھنے والے افسانہ نویس نے بھی خانہ ذہن میں جگہ نہیں دی ہو گی۔ آج اگر اس دنیا میں کسی کا راج ہے تو وہ کرونا ہے۔ اگر کوئی اس نظام پر حاوی ہے تو وہ ایک نہ نظر آنے والا وائرس ہے جس کا نہ تو کوئی دماغ ہے اور نہ ایجنڈا لیکن اس کے باوجود چین سے لے کر امریکہ تک سب اس کی طاقت کے سامنے ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور ہیں۔
جب سے تاریخ انسانی رقم ہونا شروع ہوئی تب سے اب تک اس قسم کے طوفان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ چھ ہزار سال میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آفاقی، آسمانی اور دنیاوی ادیان و مذاہب کی عبادت گاہیں بند ہیں۔ لیکن پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جہاں پرتمام جہان بدل گئے وہاں پر ہم نے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے بہت کچھ نہ بدلنے کی سر توڑ کوشش کی جو ابھی بھی شد و مد سے جاری ہے۔ مثلا ہم نے اس تاریخی طوفان کے تلاطم کا یک جان ہو کر مقابلہ کرنے کی بجائے ہر جگہ پر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کو ترجیح دی۔
صوبہ سندھ اور اس کا وزیر اعلی ہفتوں مرکز، پنجاب اور کے پی سے جدا اقدامات کرتا رہا لیکن وزیر اعظم سمیت دوسرے وزرائے اعلی کو اس سے سیکھنے، جاننے یا تعاون کرنے کا خیال نہ آیا۔ مرکز کے چلانے والے قوم کو کرفیو، لاک ڈاؤن اور گھروں میں بندش کے مرکزی خیال سے آگاہ کرتے رہے۔
ملک میں جمعہ کے اجتماعات اور اندرون شہر اور قصبوں میں خرید وفروخت بدستور جاری رہی۔ نہ کوئی قومی پالیسی مرتب ہو پائی اور نہ عوام کے اذہان میں موجود کوفت، غلط فہمی اور ابہام کو دور کرنے کے لیے کوئی موثر معلومات کی فراہمی کا بندوبست ہوا۔ ظاہر ہے ان حالات میں چن بھائی کی طرف سے مختارے کو دی جانے والی خصوصی ہدایت میں پوشیدہ ہزاروں اموات کی خبر کو قومی بحث کا حصہ بننا ہی تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بعد میں چن صاحب نے خود ہی وضاحت کر دی ورنہ ابھی تک سرکاری اعداد و شمار پر شک کی بارش برس رہی ہوتی۔
کرونا ایمرجنسی کے باوجود عمران خان اور ان کی ٹیم نے میدان میں اکیلا کھیلنے کی عادت کو ترک نہیں کیا۔ پارلیمانی رہنماؤں کو یکطرفہ خطاب کے بعد غائب ہو کر وزیر اعظم عمران خان نے اپنےاس پیغام کو مزید مستحکم کیا کہ ان کو کسی کی ضرورت نہیں ہے لیکن سب کو ان کی ضرورت یقینا ہے۔ شہباز شریف کا ’آن لائن‘ گفتگو سے واک آؤٹ بھی ماضی کے ہومیو پیتھک احتجاج کی طرح تھا جس کا نہ کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ اس پر کوئی توجہ دیتا ہے۔
ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی فوج کی قیادت کو اپنے مخصوص انداز میں قومی ردعمل کی گاڑی کو دھکا لگانا پڑا۔ لاک ڈاؤن کی بحث کے خاتمے اور ایک مرکزی فیصلہ سازی سینٹر کے قیام جیسے اہم معاملات کو طے کرنے کے بعد فوج اپنی تمام کورز کے ذریعے ملک میں کرونا سے لڑنے والے لائحہ عمل کو چلا رہی ہے اور تمام بین الاقوامی، صوبائی ہم آہنگی بھی اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے۔ اس معاملے میں بھی کرونا کی طوفانی تبدیلیوں کا ہمارے نظام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی تمام کام فوج کے حوالے ہی ہے۔ ہاں اتنا فرق ضرور دیکھنے میں آیا ہے کہ وزیر اعظم نے ‘ایک پیج’ والی لائن بولنا چھوڑ دی ہے اور آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کیے جانے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیانات اب براہ راست عوام کے حوالوں سے مزین ہوتے ہیں۔
اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ وقتی فاصلے ہیں یا مسلسل دوریاں، یا پھر محض اتفاق۔ فی الحال پاکستان میں کرونا نے ہر شہری کو اس کے دل میں چھپی ہوئی ہر پل کی خواہش کو پانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یعنی لمبی چھٹی۔
Must Read Urdu column Corona aur Lambi Chuti By Talat Hussain
Source: Independent URDU