کلچر کی تلاش میں – عطا ء الحق قاسمی
میرے گھر سے دفتر تک کے راستے میں ایک ایسی دنیا آباد ہے جس سے میرا ناتا ٹوٹ چکا ہے اور اب میں ایک تماشائی کے طور پر اُس کا نظارہ کرتا ہوں۔ میں اور میرے جیسے لاکھوں لوگ اپنے پرانے گھروں کو چھوڑ کر نئی بستیوں میں آباد ہو چکے ہیں جہاں ہم سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں۔
مجھے علم نہیں میرے گھر کی دیوار کے ساتھ جس گھر کی دیوار ملی ہوئی ہے اس میں کون رہتا ہے، کیوں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے؟ مجھے اپنے سامنے والے گھر میں رہنے والے کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں، ہم جب صبح اپنے دفتروں کو جانے کے لئے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو ایک دوسرے پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ہیلو کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ہم اپنے دفتر کے ساتھیوں کو جانتے ہیں اور حفظِ مراتب کے مطابق اُن سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ہماری اپنی ایک الگ دنیا ہے جس میں ہمسایوں اور رشتہ داروں پر ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے ہماری ضرورت ہیں۔
ہم صبح اپنے کام پر جاتے ہیں اور اپنے کولیگز کے ساتھ رسمی سی گپ شپ کرتے، شام کو کھانا کھانے باہر چلے جاتے ہیں اور رات کو گھر لوٹتے ہیں تو پوری فیملی موبائل پر مصروف ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک بےمقصد سی زندگی گزارنے کے سبب ہم تھکے تھکے سے رہنے لگے ہیں۔
ہماری تفریح میں بھی یکسانیت آگئی ہے، رات کو سوتے ہیں مگر لگتا ہے جاگتے رہے ہیں، ہم مرتے ہیں تو رشتے داروں اور کولیگز کو مجبوراً جنازے میں آنا پڑتا ہے۔ نئی بستیوں کے ہمسایوں کو تو ہماری موت کی خبر کہیں بعد میں ہوتی ہے۔
میں گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی فوتیدگی میں گیا، نمازِ جنازہ میں شرکت کے لئے آنے والوں کی کم تعداد کی وجہ سے یہ رسم بنگلے کے لان ہی میں ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ کے دوران ساتھ والے گھر سے مسلسل قہقہے سنائی دیتے رہے۔
انہیں اس سانحہ کا علم ہی نہیں تھا جو ان کے برابر والے گھر پر گزر گیا۔ اب نئی بستیوں کی مہذب خواتین بین بھی تو نہیں ڈالتیں۔ اس سے کم از کم ہمسایوں کو تو اطلاع مل جاتی تھی۔ ہمارے جن جنازوں میں رونق نظر آتی ہے وہ ہمارے کسی بیوروکریٹ، سیاستدان، بڑے صنعتکار یا ایسے ہی کسی ’’آئی کون‘‘ کی کسی دور دراز کی پھوپھی یا خالو صاحب کی وفات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ خود ’’آئی کون‘‘ کی وفات پر اتنا بڑا میلہ نہیں لگتا، اِلّا یہ کہ اس کی اولاد بھی ’’کام‘‘ کی نکلی ہو اور اُس نے والد صاحب کی وفات پر ایک بڑی جائیداد ہاتھ لگنے کی خوشی میں دو نفل شکرانے کے ادا نہ کئے ہوں۔
یہ بیگانگی کا وہ کلچر ہے جو کسی معاشرے میں بےپناہ صنعتی ترقی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے چنانچہ اہلِ مغرب اس Isoletionمیں زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم وقت سے آگے چلنے والوں میں سے ہیں۔
گزشتہ روز میں اپنی بستی سے باہر جانے کے لئے گھر سے نکلا۔ یورپ کی طرح یہاں بھی کوئی شخص سڑک پر پیدل چلتا نظر نہ آیا۔ میری طرح سب اپنی اپنی کاروں میں اپنی روٹین کی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے لیکن آج میری منزل گوالمنڈی تھی۔ مجھے وہاں کوئی کام نہیں تھا بس اپنی پرانی یادوں کو سمیٹنے ادھر جا رہا تھا۔
میں نے گاڑی پاکستان ٹائمز کے پرانے دفتر کے سامنے پارک کی اور اس انسانی بستی میں داخل ہو گیا جہاں زندگی سانس لے رہی تھی۔ میرے ارد گرد پیدل چلنے والوں کا ہجوم تھا، میرے دونوں طرف دکانیں تھیں، اب میرے دائیں ہاتھ پر ایروز سنیما تھا جس کے باہر لاہور کا ایک مشہور کردار حاجی حرامہ چنے لگایا کرتا تھا۔ اُسے یہ نام اُس کی بےتکلف جملے بازی کی وجہ سے ملا تھا جو اس نے بہت خوشی سے قبول کیا تھا، چنانچہ ادیب،شاعر، دانشور، فلمساز، اداکار اس کے جملوں سے محظوظ ہونے کے لئے اس کے پاس آیا کرتے تھے مگر اب حاجی وہاں نہیں تھا، اُسے مرے ہوئے کئی سال بیت گئے ہیں۔
خود ایروز سنیما بھی وفات پا چکا ہے۔ اُس کی رونقیں دم توڑ چکی ہیں۔ سنیما کی سامنے والی گلی میں میری ایک کزن اپنی فیملی کے ساتھ رہا کرتی تھی چنانچہ میں اس سارے علاقے سے مانوس تھا۔ آگے ممتاز اسکالر حکیم محمد موسیٰ امرتسری کا ڈیرہ تھا جہاں ہر وقت اہلِ علم کا جمگٹھا لگا رہتا تھا۔
چوک سے دائیں ہاتھ مڑیں تو نرالے کی مٹھائی کی دکان تھی جہاں یہ محنت کش سر پر پٹکا باندھے اور دھوتی پہنے دکان کے وسط میں بچھی ایک چوکی پر بیٹھا ہوتا تھا مگر اس کے بعد اس کی آل اولاد نے ’’نرالہ سویٹ‘‘ کو ملٹی نیشنل کمپنی بنا دیا۔ نرالا والی گلی میں میری آپی رہتی تھیں۔ وہ اب کراچی جا چکی ہیں۔
میں گوالمنڈی میں گھومتے ہوئے خوش بھی بہت تھا اور اداسی کی ایک لہر بھی میرے اندر سرایت کررہی تھی۔ مجھ اداس بستی کے مکینوں کو یہاں کی گہما گہمی بہت اچھی لگ رہی تھیں لیکن اب اس نگر میں حکیم موسیٰ امرتسر ی نہیں تھے۔
میری بہنیں نہیں تھیں۔ حاجی حرامہ نہیں تھا۔ میں اب تھک گیا تھا اور واپس جانے کو تھا کہ ایک شناسا چہرے نے مجھے روک لیا ’’تم عطاء ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہاں اور تم‘‘ مگر اس کے جواب سے پہلے میں نے اسے پہچان کر گلے لگا لیا وہ داؤد تھا، ایم اے او کالج میں میرے ساتھ پڑھا کرتا تھا۔
ایک بابو ہوٹل میں گندی مندی پیالیوں میں چائے پیتے ہوئے میں نے کہا ’’یار داؤد تم کتنے خوش قسمت ہو، ابھی تک اپنے کلچر میں سانس لے رہے ہو‘‘ اس پر اس کے چہرے پر ایک مردہ سی مسکراہٹ ابھری اور وہ بولا ’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو لیکن میں اور میری دو جوان بیٹیاں بہت بدقسمت ہیں‘‘۔
میں نے پریشان ہو کر پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ داؤد نے کہا کہ میری بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن جب کسی اچھے خاندان میں ان کے رشتے کی بات چلنے لگتی ہے تو وہ وہیں بریک ہو جاتی ہے کیونکہ ہم پر ایک بہت بڑا داغ ہے اور وہ داغ یہ ہے کہ ہم اندرون شہر رہتے ہیں۔
اپنے کلچر سے بندھے ہوئے لوگ ہیں، بیٹیوں کی شادی کے لئے ڈیفنس میں رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ سن کر مجھے چپ سی لگ گئی اور اس کے ساتھ میرے پورے جسم میں درد کی ایک ٹیس اٹھی اور میں نے اپنی کہنیاں مضبوطی سے میز پر جما دیں۔ داؤد نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’عطاء میرا ایک کام کرو، مجھے اپنے علاقے میں ایک گھر کرائے پر لے دو تاکہ میری بچیاں بیاہی جاسکیں، میں اس فریضے کی ادائیگی کے بعد واپس اپنے اس آبائی گھر میں آجاؤں گا‘‘۔
داؤد نے مجھے شدید دکھ کی کیفیت میں دیکھا تو اس نے موضوع بدل دیا، کچھ دیر بعد جب میں واپس جانے کے لئے اپنی نشست سے اٹھا تو داؤد نے مجھ سے الوداعی معانقہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا ’’تم مجھے اپنی نئی بستی میں جلد سے جلد مکان کرایہ پرلے کر دو تاکہ وہاں تم سے ملاقات رہا کرے کیونکہ تم نے اب دوبارہ گوالمنڈی کہاں آنا ہے۔ تمہارا کلچر کا کوٹہ تو آج پورا ہو گیا ہے‘‘۔
Source: Jung News
Read Urdu column Culture ki talash mein By Ata ul Haq Qasmi