کلچر کینچلی بدلتا رہتا ہے – حسن نثار

hassan-nisar

خطرے کے حوالہ سے پہلے عموماً دو نعرے مقبول تھے۔ کبھی کہتے اسلام خطرے میں ہے، کبھی کوئی اعلان کرتا پاکستان خطرے میں ہے، لیکن اب کچھ عرصہ سے اک اور سنسی پھیلائی جارہی ہے کہ ہمارا کلچر خطرے میں ہے حالانکہ کلچر نہ کبھی خطرے میں تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے، کیونکہ کلچر کسی منجمد نہیں بلکہ بہتی ہوئی شے کا نام ہے اور اگر دنیا سچ مچ گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے تو ماں کا کوئی لعل گلوبل کلچر کا راستہ نہیں روک سکتا۔ کوئی شے کسی قوم کے کلچر کو نہ آباد کرسکتی ہے نہ برباد کر سکتی ہے کیونکہ اس کےپیچھے بے شمار عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ موسموں سے لے کر آلات، اقتصادیات، ایجادات جیسے لاتعداد فیکٹرز فیصلہ کن ہوتے ہیں مثلاً پتھر اور کمپیوٹر کے زمانے کے لوگوں کا کلچر ایک جیساکیسے ہوسکتا ہے؟ گھوڑے اور تازہ ترین ماڈل کی گاڑی کا اپنا اپنا ’’کلچر‘‘ ہوگا جو اپنے اپنے سوار کی سوچ اور اطوار تک کو تبدیل کردے گا، خوراک اورلباس تک کوالٹ پلٹ کر رکھ دے گا۔ رفتار بدل جائے تو کردار بھی بدلتا ہے۔

’’تیرے لو نگ دا پیا لشکارہ تے ہالیاں نے ہل ڈک لے‘‘ لیکن جب نہ لونگ رہے نہ اس کالشکارہ، نہ ہل نہ ہالی توگیت اور بولیاں بھی بتدریج زندہ درگور، کتابوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔ ہل کی جگہ ٹریکٹر پر بیٹھے لونڈے یا گبھرو نے دھوتی نہیں لُنڈے کی جینز پہنی ہوتی ہے اور اس کا دھیان کسی لونگ کے لشکارے نہیں، اپنے سیل فون کی طرف ہوتا ہے، اوزار، ہتھیار کیا موسیقی کے آلات تک تبدیل ہو جاتے ہیں تو کلچر بھی کینچلی تبدیل کرلیتا ہے۔ میرے دادا پگڑی یا ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔ مدتیں ہوگئیں نہ وہ پگڑی دیکھی نہ ترکی ٹوپی دکھائی دی۔ یہاںتک کہ ترک بھی ترکی ٹوپی ترک کرچکے۔ مغل اعظم کا ملک ماپا نہیں جاسکتا تھا لیکن اس کے محل میں ٹی وی لائونج موجود نہیں تھا۔ کیا ’’کلچر‘‘ تھا جب پیدل سورمائوں کو گھڑ سواروں نے دھول چٹا دی کیونکہ انہوں نے گھوڑے کو ’’جنگی مشین‘‘ میں تبدیل کردیا تھا اور پھر ان پر وہ لوگ غالب آگئے جنہوںنے گھوڑے کی پیٹھ پر کاٹھی اور منہ میں لگام ڈال کر اس کو کہیں زیادہ موثر بنا لیا تھا۔ کلچر نام ہی تبدیلی کا ہے جو کبھی ’’سلوموشن‘‘ میں آتی تھی لیکن اب تو صدی سکڑ کر ایک سال کی بھی نہیں رہ گئی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی بودوباش، ترجیحات، رشتوں، سوچوں، کھانوں، لباسوں، عادتوں، رویوں اور چہروں کو ہی نہیں عمروں کو بھی تبدیل کر چکی۔ اب زیادہ تر لوگ گھروں نہیں، ہسپتالوں میں مرتے ہیں، انسانی پرزے بہ آسانی تبدیل ہوتے ہیں اور بندہ قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ جو دل میں نے

تمہیں دیا تھا، تبدیل ہو چکا۔ پیس میکرز نے پیس ہی تبدیل کردی تو سوچو جب سپیس میں ہائوزنگ کالونیاں (ہائوسنگ غلط ہے) بنیں گی تو اس کے مکین اور ان کے آپس میں رشتوں کی نوعیت کیسی ہوگی؟ نانیوں کی کہانیوں کا کیا بنے گا؟ جب زلزلوں اور سونامیوں سے انرجی کشید ہوگی اور DNA کے ساتھ فری سٹائل ریسلنگ عام ہوگی تو کہاں کا کلچر؟ کون سا کلچر؟

ایسے ایسے پیشے ختم ہونے جا رہے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ ڈرائیورز سے لیکر وکیلوں اور سرجنوں تک کا وجود ختم ہونے جا رہا ہے۔ آج کا بہت کچھ اسی طرح تبدیل اور تحلیل ہو جائے گا جیسے آج ڈولیاں، کہار، لٹھیت اور برچھیت ڈائنا سورز کی طرح ختم ہو چکے۔ آج سے صرف چند سال پہلے تک کوئی بچہ ’’اون لائن کلاسز‘‘ کا سوچ بھی سکتا تھا؟ ابھی تو ’’مصنوعی ذہانت‘‘ نے قیامت ڈھانی ہے اور مین میڈ انسانوں یعنی روبوٹس نے ’’سربازار می رقصم‘‘ کا ورد شروع کرنا ہے تو پلیز! ٹیک اٹ ایزی . . . . کلچر کو چھوڑو، اپنے کل کی فکر کرو اور سوچو کہ اگر ہم لنگر خانوں سے ہی نہ نکل پائے تو ہماری 100/50 سال بعد والی نسلوں کا کیا حشر ہوگا؟

ہمیں جو کچھ سو سال پہلے کرنا چاہیے تھا، آج بھی نہیں کر رہے اور جو آج کرنا چاہیے وہ سو سال بعدبھی نہیں کریں گے تو کہاں ہوں گے؟ مقدس بلیک میلرز کی تو ترجیحات ہی اور ہیں۔ ترکی میں میڈیکل کالج سے لے کر پرنٹنگ پریس تک کی بندش کی قیمت کب تک چکاتے رہیں گے؟ لائوڈ سپیکر بھی حرام، تصویر بھی حرام، انجکشن بھی حرام، اعضا کاعطیہ بھی حرام . . . . .باقی سب کچھ حلال تو یہ حکم فیصلہ کن ہے کہ جس عہد میں زندہ ہو، اس کے تقاضوں کو سمجھو اور خود کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کرو کہ یہ دنیا بہت ہی بے رحم اور سفاک ہے جس کا پہلا اور آخری اصول ہے ۔

"SURVIVAL OF THE FITEST”

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Culuture Kenchali Badalta Rehta hai By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.