دبا لو یا پھرخرید لو – جاوید چوہدری
نور مقدم قتل کیس میں مزید ایسے چند ہول ناک انکشافات سامنے آئے ہیں جنھوں نے سسٹم کو مکمل ننگا کر دیا مثلاً پولیس نے 20 جولائی کو جب ظاہر ذاکر جعفر کو گرفتار کیا اور اس سے نور کو قتل کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے نفرت سے جواب دیا تھا ’’یہ مجھے دھوکا دے رہی تھی‘ یہ موت کو ڈیزرو کرتی تھی لہٰذا میں نے اسے مار دیا‘‘ قاتل کے والد نے بعدازاں کیس میں بڑے وکلاء کو شامل کر دیا‘ یہ ملزم سے ملے اور اسے سمجھانا شروع کر دیا چناں چہ 26 جولائی کی رات ظاہر جعفر نے پولیس کو نئی کہانی سنا دی۔
اس کا کہنا تھا ’’نور مقدم نے چاقو اٹھایا اور خودکشی کر لی‘ اسلام میں خودکشی حرام ہے‘ یہ میری دوست تھی‘ میں نہیں چاہتا تھا یہ حرام موت مرے یا یہ گناہ گار ہو یا لوگ اس کے بارے میں کہیں یہ حرام موت مر گئی لہٰذا میں نے اس کا سر اتار کر اس کا جرم اپنے ذمے لے لیا‘ میں نے اسے نہیں مارا تھا‘ یہ میرے سر اتارنے سے پہلے ہی مر چکی تھی‘‘ آپ ذرا لاجک ملاحظہ کیجیے‘ یہ انکشاف بھی ہوا نور مقدم نے اپنے ڈرائیور کو فون کر کے تین لاکھ روپے منگوائے تھے اور ڈرائیور یہ رقم خانساماں کو دے کر آیا تھا۔
اس نقطے پر تفتیش ہوئی تو معلوم ہوا ظاہر کے والدین اسے پیسے نہیں دیتے تھے چناں چہ اس نے نور سے سات لاکھ روپے مانگے‘ نور نے ڈرائیور کو فون کیا اور اسے کہا تم تین لاکھ روپے کا بندوبست کر دو‘ مجھے ایمرجنسی میں ضرورت ہے اور ڈرائیور یہ رقم ظاہر کے گھر دے آیا‘ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے‘ کیا ڈرائیور کے پاس اتنی رقم موجود تھی؟ تیسرا انکشاف ظاہر اور نور دونوں لنچ تک نارمل تھے‘ پولیس کو کمرے سے دو سٹیک بھی ملے گویا دونوں نے لنچ منگوایا بھی اور کیا بھی تھا اور ان کے درمیان جھگڑا لنچ کے بعد ہوا تھا‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے ظاہر مکمل طور پر نارمل تھا۔
یہ اگر نفسیاتی مریض ہوتا یا نشے میں ہوتا تو نوبت لنچ تک بھی نہ آتی‘ تھراپی ورکس کی انتظامیہ کا کردار بھی بہت مشکوک ہے‘ یہ پولیس کو اطلاع دیے بغیر وہاں چلے گئے‘کیوں؟ یہ اگر وہاں پہنچ بھی گئے تھے اور انھوں نے نور کی لاش دیکھ لی تھی توانھیں اس وقت بھی پولیس کو اطلاع دینی چاہیے تھی‘ یہ کیوں نہیں ہوا؟ اور یہ کام بالآخر ایک ہمسائے کو کیوں کرنا پڑا؟ پولیس نے تھراپی ورکس کو دو آپشن دیے ہیں‘ آپ گواہ ہیں یا پھر آپ ملزم ہیں۔
آپ فیصلہ کر لیں‘ ظاہر جعفر 19 جولائی کو امریکا جا رہا تھا‘ اس کی سیٹ بھی کنفرم تھی لیکن یہ پھر رک گیا اور اس نے نور کو قتل کر دیا‘ یہ کیوں رکا اور کیا والدین کو اس کے رکنے کی وجہ معلوم تھی؟ پولیس نے نور کے ناخنوں کا ڈی این اے بھی کرایا‘ لیبارٹری سے رپورٹ میں بلاوجہ تاخیر ہو رہی ہے‘ یہ کیوں ہو رہا ہے اورکون کر رہا ہے؟ ہائی کورٹ نے پولیس کو اس کیس کے بارے میں میڈیا بریفنگ اور پریس کانفرنس سے روک دیا‘ یہ حکم بھی غیرمعمولی ہے۔
کیوں؟ کیوں کہ پولیس عثمان مرزا سمیت ہر کیس کے دوران ہر فورم پر بولتی ہے اور کوئی عدالت پولیس کو نہیں روکتی مگر اس کیس میں پولیس کی صرف ایک بریفنگ کے بعد انصاف حرکت میں آگیا‘کیوں؟ پاکستان میں چھوٹے سے چھوٹے جرم میں بھی پولیس عدالت سے دو تین مرتبہ ریمانڈ لے لیتی ہے لیکن پولیس نے قاتل کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کو 25جولائی کو گرفتار کیا‘عدالت سے دو دن کا ریمانڈ ملا اور عدالت نے منگل 27 جولائی کو انھیں جیل بھجوا دیا‘ پولیس کو دوسری بار ریمانڈ نہیں مل سکا جب کہ تفتیش ابھی جاری تھی۔
ہمیں ماننا ہو گا نور مقدم کا قتل اگر ہول ناک ہے تو یہ تمام واقعات ان سے بھی زیادہ ہول ناک ہیں‘ آج اسلام آباد کے شہری کہہ رہے ہیں ملک میں پیسہ اور اثرورسوخ ہر چیز خرید سکتا ہے‘ اگر سردار تنویر الیاس پاکستان تحریک انصاف سے ٹکٹ لے سکتا ہے اور یہ آزاد کشمیر میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بن سکتا ہے تو پھر اس ملک میں پیسے کے زور پر کچھ بھی ہو سکتا ہے‘دوسرا ہول ناک واقعہ یہ ہے۔
ایک امیر زادے نے ایک لڑکی کا سر اتار دیا لیکن اگلے دن اسے وکلاء بھی مل گئے‘ تھانے میں چار پائی‘ منرل واٹر اور ریستوران کا کھانا بھی ‘ عدالت نے اس کے شہری حقوق کو مانتے ہوئے پولیس کو ’’میڈیا ٹرائل‘‘ سے بھی روک دیا‘ پولیس جن والدین کو شریک جرم سمجھتی تھی اور اس کا خیال تھا یہ اگر چاہتے تو لڑکی بچ سکتی تھی لیکن ان ظالموں نے پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے قتل کے شواہد مٹانا شروع کر دیے۔
ظاہر اگر تھراپی ورکس کے ملازم کو زخمی نہ کرتا تو شاید یہ لوگ اسے گھر سے نکال کر نہلاتے‘صاف کپڑے پہناتے‘ایئرپورٹ چھوڑ آتے اور یہ اس وقت امریکا میں بیٹھا ہوتا لیکن اس یقین کے باوجود کہ ذاکر جعفر اور بیگم ذاکر جعفر نے اپنے بیٹے کو غیر ضروری سپورٹ کیا پولیس دوسری بار ریمانڈ نہ لے سکی۔
ملزم نے بھی بڑی آسانی سے قتل کو خودکشی کہہ دیا اور یہ بھی فرما دیا‘ میں نے لڑکی کو بے عزتی سے بچانے کے لیے اس کا سر کاٹ دیا تھا اور پولیس نے یہ بیان لکھ بھی لیا‘سوال یہ ہے اگر ظاہر کا تعلق مڈل کلاس سے ہوتا تو کیا پولیس اتنی آسانی سے یہ لاجک سن لیتی اور یہ شخص ہر دوسرے دن اپنے پاؤں پر چل کر مزے سے عدالت آ اور جا رہا ہوتا اور صحافیوں کے سوالوں کا انگریزی میں جواب بھی دے رہا ہوتا۔
پولیس نے یقینا اسے اب تک پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ چھوڑا ہوتا‘ ہماری پولیس پرس چوروں کو بھی چھ چھ ماہ تک اٹھنے اور بیٹھنے کے قابل نہیں چھوڑتی لیکن ظاہر جعفر ہول ناک قتل کے بعد بھی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر Solicite کر رہا ہے لہٰذا اس کیس کا مستقبل کیا ہو گا ہم آج کے دن میں کھڑے ہو کر بڑی آسانی سے بتا سکتے ہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں قاتل پارٹی لواحقین کو خون بہا دے کر راضی کر لے گی‘ عدالت میں قتل کو خودکشی ثابت کر دیا جائے گا‘ نور مقدم کے ناخنوں میں موجود ڈی این اے کی رپورٹ تبدیل کر دی جائے گی‘ پولیس ریکارڈ سے آلہ قتل غائب کر دے گی‘ تھراپی ورکس کی ٹیم کا بیان بدل دیا جائے گا اور اگر یہ ممکن نہ ہوا تو بھی کیس اپنی مرضی کی عدالت میں لگوانا یا اپنی مرضی کے منصف کا بندوبست کر لینا اور ملک کے مہنگے ترین وکلاء کو عدالتوں میں کھڑا کر دینا یہ ہتھکنڈا کہیں نہیں گیا۔
شاہ زیب قتل کیس سے لے کر زین قتل کیس ‘ اسامہ ستی کیس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سانحہ ساہیوال تک سیکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں‘ یہ ملک بااثر اور امیر لوگوں کے لیے بنا تھا‘ آپ اگر پاورفل ہیں یا پھر آپ پاور فل لوگوں کو خریدنے کی پاور رکھتے ہیں تو پھر خواہ مجید خان اچکزئی کوئٹہ میں پولیس اہلکار عطاء اللہ کو کچل دے یا شاہ رخ جتوئی 20سال کے نوجوان شاہ زیب کو کراچی میں سڑک پر قتل کر دے یا شوکت عزیز کابینہ کا ایک وزیرخاتون کی لاش موٹروے پر پھینک دے یا پھر ظاہر جعفر لڑکی کا سر اتار کر اس کے پاس بیٹھ کر اپنے والد کو فون کرتا رہے۔
کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ملک میں کوئی شخص ان کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا‘ کیا ملک ایسے ہوتے ہیں؟ کیا ریاستوں کے یہ کام ہیں اور کیا ہم انصاف کے اس سسٹم کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں‘ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک طرف مقتول قتل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف لواحقین وکیلوں کے خرچے اور عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر مر جاتے ہیں‘ قاتل تھانوں میں جشن مناتے ہیں‘ جیلوں میں موج کرتے ہیں اور عدالتوں میں ججوں کو لطیفے بھی سناتے ہیں اور مظلوموں کے آنسو ان کے گریبانوں پر گرتے رہتے ہیں‘ یہ ہے یہ ملک اور اس کا جوڈیشل سسٹم۔
میں آخر میں اس ریاست اور اس حکومت سے ایک سنجیدہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں‘ یہ درست ہے ہم ایف اے ٹی ایف سے نہیں نبٹ سکتے‘ ہم اپنی معیشت کا قبلہ بھی درست نہیں کر سکتے‘ ہم امریکا سے بھی اپنی شرائط نہیں منوا سکتے‘ ہم بھارت کو بھی فتح نہیں کر سکتے۔
ہم طالبان سے بھی نہیں نبٹ سکتے اور ہم ملک میں فری اینڈ فیئر الیکشن بھی نہیں کرا سکتے لیکن کیا ہم اس ملک کو ایک ایسا جوڈیشل سسٹم بھی نہیں دے سکتے جو کم از کم نور مقدم جیسے مظلوموں کو انصاف ہی دے سکے‘ ملک میں حالت یہ ہے عثمان مرزا کے ویڈیو اسکینڈل نے پوری دنیا میں پاکستان کے منہ پر کالک مل دی لیکن پولیس کی تفتیش کے صرف ایک ہفتے بعد اسلام آباد کی ایک عدالت میں ملزموں میں شامل ایک ملزم کی ضمانت کا کیس لگ گیا۔
اس دن خوش قسمتی سے پولیس کا تفتیشی افسر شہر سے باہر تھا ورنہ اس ملزم کی ضمانت بھی ہو جاتی جسے مدعی نے شناخت پریڈ میں شناخت کیا تھا‘ یہ ہے اس ملک کا نظام انصاف یعنی دبا لو یا پھر خرید لو اور مظلوم اور مقتول اپنی لاش اپنے کندھے پر رکھ کر پھرتے رہیں اور آپ المیہ دیکھیں‘ ہم لوگوں کو آج اس بدبودار سسٹم سے گھن بھی نہیں آتی‘ کیا ہم انسان ہیں اور کیا یہ معاشرہ‘ معاشرہ کہلانے کے قابل ہے؟ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Daba lo Ya Phir Khareed lo By Javed Chaudhry