ڈرو اس وبال سے – اوریا مقبول جان
انسان ہتھیار بناتا ہے، اسے استعمال بھی کرتا ہے لیکن موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے موت کی آغوش میں جانے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھتا ہے۔ انسان دوا بناتا ہے، اسے مریض کو دیتا ہے لیکن شفا اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ کسی کو اسی دوا سے صحت عطا فرماتا ہے اور کسی کے لئے یہی دوا زہِر قاتل بن جاتی ہے۔ میں نے یہاں لفظ ”بنانا” تحریر کیا ہے ورنہ جب سے انسان نے اس زمین پر اکڑ کر چلنا اور قوت و طاقت سے غالب آنا سیکھا ہے، جب وہ کوئی نئی چیز بناتا ہے تو ایجادیا inventionجیسے الفاظ تحریر کرتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس پوری کائنات میں ایک ذرہ بھی ایسا نہیں ہے جسے انسان نے تخلیق کیا ہو۔ انسان کی تمام ایجادات، تخلیقات، تشکیلات کا سامان، مواد، مسالہ یہاں تک کہ تمام اسباب تک اللہ نے اس دنیا میں ازل سے فراہم کر رکھے ہیں۔ انسان انہیں ڈھونڈتا ہے، اور اللہ نے ان میں جو اعجاز چھپا رکھے ہیں انہیں استعمال کرتا ہے۔ لیکن وہ اس مالک کائنات کا شکر گزار ہونے کی بجائے اپنے سینے پر خالق اور موجد کے تمغے سے جاکر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں تباہی و بربادی، خیروشر، سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔ بم برسائے، گولیاں چلائے یا کیمیائی ہتھیار خفیہ طریقے سے استعمال کرے، یہ سب کچھ انسان بلکہ طاقتور انسان ہی کرتا ہے۔ وہی اس حیاتیاتی جنگ کا آغاز کرتا ہے اور وہی اسکو ختم کرسکتا ہے۔ لیکن یہی انسان اپنی شکست دیکھنا کبھی پسند نہیں کرتا۔
جہاں یہ بے بس ہوتا ہے، ہارتا ہے تو فوراً اس کی توجیہات دینا شروع کر دیتا ہے۔ ان توجیہات کی سب سے بڑی قسم ”سازشی نظریہ” ہے جو آج کے دور میں بہت عام ہے۔ تمام سازشی نظریات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دھیان کسی مافوق الفطرت اور بالا ہستی کی جانب نہ چلا جائے، وہ کسی بھی غیر معمولی واقعے کے بارے میں یہ تصور ذہن میں نہ لے آئے کہ ایسا کسی غیبی قوت کی وجہ سے ہوا ہے۔ مثلا جیسے، افغانستان جیسے نہتے ملک میں تمام عالمی قوتوں کی ذلت آمیز شکست کو کبھی حقانی نیٹ ورک، پاکستان اور آئی ایس آئی کی خفیہ طاقت کا شاخسانہ بتایا جاتا ہے اور کبھی یہ ”,سازشی نظریہ” پیش کیا جاتا ہے کہ دراصل امریکہ نے اپنا مقصد پورا کر لیا تھا اور وہ خود ہی افغانستان سے نکلنا چاہتا تھا۔ زلزلوں، طوفانوں، سیلابوں، وباؤں، سب کی انسان نے کوئی نہ کوئی مادی توجیہ ضرور کی ہے اور اپنے دماغ کو یہ بات کہہ کر قائل کیا کہ ہم تحقیق کی دنیا کے مسافر ہیں ایک نہ ایک دن ہم ان سب پر سائنسی تحقیق سے قابو پالیں گے۔ لیکن چونکہ جدید دنیا سائنسی ترقی کی بہت بڑی دعویدار ہے اس لئے آج جب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایڈز، ابیولا، سارس اور اب کرونا جیسے نہ نظر آنے والے دشمن کہاں سے آتے ہیں، ہم ان پر قابو کیوں نہیں پاتے۔ تو ان کا جواب چونکہ صرف بے بسی ہے، اس لئے ہر دفعہ ایک ”سازشی نظریہ” یا ”تھیوری” گھڑکے پیش کردی جاتی ہے۔ ایسی ہی کئی تھیوریاں کرونا وائرس کے بارے میں گردش کر رہی ہیں، مثلا یہ ایک انسان کا تخلیق کردہ وائرس ہے جسے اس نے اپنے مخالفوں کو زیر کرنے اور ان کی معیشت تباہ کرنے کے لئے بنایا ہے۔ اس کی ویکسین بھی بہت پہلے ہی دریافت ہو چکی ہے جسے وقت آنے پر سامنے لایا جائے گا تاکہ سرمایہ کمایا جاسکے۔ بے شمار تھیوریاں ہیں جن میں کچھ اسرائیل اور اس کی عالمی حکومت کے خواب دنیا بھر کی معیشت کو تباہ کر کے اسکو کنٹرول کرنے کی خواہش کے گرد گھومتی ہیں۔ اسرائیل کا خواب اور دنیا کی معیشتوں کو کنٹرول کرنے کی خواہش اپنی جگہ،لیکن کیا بیک وقت دنیا میں موجود لاکھوں ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور ریسرچ کے ماہرین کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اگر امریکہ نے چین کے خلاف ایسا کیا ہے اور اگر چین نے امریکہ کیخلاف ایسا کیا ہے تو یہ کیسا ہتھیار ہے جس کو بنانے کے بعد وہ بنانے والوں کے قابو میں ہی نہیں رہتا اور الٹا اسی کی صفوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ سازشی تھیوری دراصل ایک ایسا تیر ہے جس سے بیک وقت دو شکار کیے جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ بتایا جائے کہ دنیا میں کچھ قوتیں ایسی ہیں جن کی دسترس میں سب کچھ ہے۔ سارا نظام کائنات ان کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
دوسرا مقصد یہ ہے کہ عام آدمی کے دماغ میں یہ تصور راسخ کردیا جائے کہ وہ سارے کے سارے مل بھی جائیں تو ان قوتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ صرف مہرے اور کٹھ پتلیاں ہیں۔ مثلاً یہ تھیوری تو عام سنی ہوگی کہ پاکستان میں امریکہ کی منظوری کے بغیر کوئی وزیر اعظم نہیںبن سکتا، جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ امریکہ کی منظوری سے آتی ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے۔ کیا کمال ہے اس ”سازشی تھیوری” کا کہ وہ تمام طاقت قوت اور اختیار جو اللہ رب العزت نے اپنے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے، ”کہو کہ: اے اللہ! اے اقتدار کے مالک تو جس کو چاہتا ہے کہ اقتدار بخشتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے (آل عمران:24)، لیکن اکثریت اس بات پر یقین کر چکی ہے کہ ایسا اب اللہ نہیں امریکہ کرتا ہے۔ اس ”سازشی تھیوری” کے تصور اور اس سے جنم لینے والی انسانی بادشاہی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمان امت بھی کرونا کی وبا کی وجہ سے پیدا ہونیوالی بے بسی میں بھی اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی سائنسی معجزے کے انتظار کر رہی ہے۔ وبا سے بچنے کی احتیاط اپنی جگہ لازم لیکن بحیثیت امت کیا ایک بھی آواز ایسی بلند ہوئی کہ ہم سے بہت سی غلطیاں ہوگئیں ہیں جس کی پاداش میں ہم اس عذاب میں گرفتار ہوئے ہیں۔ ایسا عذاب جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہو، اس کے بارے میں تو اللہ نے بہت پہلے وارننگ دی تھی، ڈرو اس ”وبال” سے جو تم میں سے صرف ان لوگوں پر نہیں پڑیگا جنہوں نے ظلم کیا ہوگا (الانفال :25)۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے انسان کی پھیلائی گندگی اور فضائی آلودگی ان لوگوں پر بھی اثر ڈالتی ہے جنکا اس میں کوئی حصہ تک نہیں ہوتا۔
اجتماعی گناہوں اور اجتماعی خطاؤں کا عذاب بھی اجتماعی ہوتا ہے۔ جنگ چند لوگ چھیڑتے ہیں اور کروڑوں لوگ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ سیدنا یونس علیہ السلام اور ان کی قوم کی مثال اجتماعی ظلم اور گناہ پر اجتماعی معافی کی مثال ہے۔ جب یونس علیہ السلام کی قوم سجدے میں گر گئی اور فضیل بن عیاض کے بقول یہ دعا کی ” اَلّٰھمّٰ اِنَّ ذُنُوبَنَا قَد عَظُمُت وَجَلّٰت، وَأنتَ اَعظَمُ وَاَجَلُّ فَافعَل بِنَا مَا اَنتَ اَہلُہ وَلاَ تَفعَل بِنَا مَانحن اَہلُہ ” ترجمہ: ”اے رب! بے شک ہمارے گناہ بڑے اور اونچے ہو چکے ہیں۔ اور آپ سب سے زیادہ بڑے اور سب سے زیادہ جلال والے ہیں۔ پس آپ ہمارے ساتھ وہ معاملہ فرمائیں جو آپ کے شایانِ شان ہے اور ہمارے ساتھ وہ نہ کریں جس (سزا) کے ہم لائق ہو چکے ہیں”۔ تو اللہ نے فرمایا ” صرف یونس کی قوم کے لوگ ایسے تھے جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیوی زندگی کی رسوائی کا عذاب ان سے اٹھا لیا اور ان کو ایک مدت تک زندگی کا لطف اٹھانے دیا” (یونس:98)۔ یہ ایمان کس بات پر لانے کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس بات پر ایمان کہ حضرت یونس نے جو انہیں عذاب کی وعید سنائی ہے وہ آکر رہے گا۔ یہ اللہ کی قدرت پر ایمان ہے، اللہ کے عذاب نازل کرنے کی قوت اور عذاب ٹالنے کی طاقت پر بلا شرکت غیرے ایمان ہے۔ جس دن ہم نے اس ایمان کیساتھ اپنی بے بسی کے عالم میں یہ پکارا کہ ہم نے ظلم کیا، ہم مجبور ہیں اور صرف تو ہی عذاب کو ٹال سکتا ہے تو اس دن اس کرونا کا علاج بھی اللہ کسی کے دل میں ڈال دے گا۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Daro is Wabal se By Orya Maqbool jan