دے مجھے اذنِ مسیحائی دے – اوریا مقبول جان
گجرات شہر کا فوارہ چوک کتنی یادوں کا امین ہے۔ ایک جانب اپنے زمانے کی خوبرو خاتون رام پیاری کا محل ہے کہ جس کے حسن کا پورے شہر میں چرچا تھا۔دوسری جانب اپنے زمانے کے مشہور تاجر، کیدارناتھ کی دلکش حویلی۔ رام پیاری کے حسن کا شہرہ سن کر گجرات آیا، محل کے سامنے ڈیرہ لگا یا، زمین خریدی اور شاندار محل تعمیر کروایا۔ ابھی وہاں بسنے کی آرزو دل میں ہی تھی کہ ٹھیکیداری کے سلسلے میں کوئٹہ گیا اور 1935 ء کے زلزلے میں سورگباش ہو گیا۔ پاکستان بنا، رام پیاری نے سامان سمیٹا اور سنگِ مرمر کی سیڑھیاں اترتی اپنے ملازموں کے ہمراہ بھارت چلی گئی۔ یہ دو عمارتیں گجرات شہر کو ترکے میں ملیں۔ ایک میں لڑکیوں کا کالج بنا دیا گیا اور دوسری میں اس کا ہاسٹل۔ اس فوارہ چوک کی چوتھی سمت اس جیل کے کھنڈر تھے جس میں اداکارہ صبیحہ خانم کی والدہ’’بالو‘‘ اپنے عاشق زار محمد علی گھڑونج کے ساتھ جرمِ عشق کی سزا میں قید رہی تھی۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ’’ماہیا‘‘ کی صنف کو ان دونوں نے بامِ عروج پر پہنچایا۔ کوئی راہگیر ماہیے سننا چاہتا تو وہ جیل کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر ایک بول گاتا اور پھر ایک جانب سے بالو اور دوسری جانب سے محمد علی گھڑونج کے ماہیوں کی تکرار شروع ہو جاتی۔ اس چوک سے چند سو گز کے فاصلے پر وہ مکان آج بھی موجود ہے جس میں میری زندگی کے ابتدائی بیس سال گزرے۔
یہ پورا علاقہ چاق گھما کر خوبصورت برتن بنانے والے کمہاروں کا مسکن تھا جو اپنے دامن میں ایک روایت لیے تھا کہ سوہنی یہیں خوبصورت برتن بیچا کرتی تھی کہ چناب کے کنارے ماہیوال کے قافلے نے پڑاؤ ڈالا اور سوہنی ماہیوال کی محبتوں کی لازوال داستان شروع ہو گئی۔ دن بھر اس چوک پر ٹانگوں، ریڑھوں، گاڑیوں کا ہجوم رہتا اور رات کو یہ جلسہ گاہ بن جاتا۔ اسی فوارہ چوک میں 1970ء کے ایک انتخابی جلسے میں میری، طارق عزیز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ میں جلسے کا اسٹیج سیکرٹری تھا اور طارق عزیز آخری مقرر۔ دونوں پر مارکسزم کا خمار چھایا ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ اپنی تقریر میں ’’ٹھاہ‘‘ کی گردان کرواتے ہوئے امریکہ ٹھاہ اور یہودی ٹھاہ کے نعرے بھی لگواتا تھا۔ جلسہ ختم ہوا اور طارق عزیز جیسے ایک بگولے کی طرح گجرات سے روانہ ہوا ویسے ہی وہ میرے ذہن سے بھی محو ہو گیا۔ ٹی وی ہمارے گھر میں نہیں تھا، فلم دیکھنے کی اجازت مجھے تھی نہیں، اس لیے طارق عزیز مجھے کیوں یاد رہتا۔ لیکن پھر ایک دن وہ ہماری محفلوں کا غائبانہ رکن بن گیا۔ اسی فوارہ چوک سے جی ٹی روڈ تک جانے والی چند سو گز لمبی سڑک جہاں پر مسعود مفتی کا بھی ایک عمر ٹھکانہ رہا، ہمارے بچپن میں کبھی لاری اڈوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اڈے منتقل ہوئے تو ہوٹل ویران ہو گئے۔ ان میں سے ایک فوجی ہوٹل تھا جہاں یار لوگوں نے ویسا ہی ٹھکانہ بنا لیا جیسے لاہور کا پاک ٹی ہائوس۔ اس ہوٹل میں چھت سے چند فٹ نیچے، لوہے کے سٹینڈ پر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی رکھا ہوتا۔ طارق عزیز کے نیلام گھر نے ہمیںاس ٹی وی کے سامنے اکٹھا کر دیا۔ میز پر بیٹھنے والوں میں سے تین پہلے ہی ملکِ عدم میں طارق عزیز کا استقبال کرنے جا چکے ہیں۔ مفتی آفتاب کہ ہفت روزہ تازیانہ نکالتا تھا، ایسا سچا کیمونسٹ کہ لینن کا مجسمہ گرا تو حرکتِ قلب بند ہونے سے مر گیا۔ میرے دویارانِ باصفا میرا بہنوئی، جاوید اقبال رانا، انکم ٹیکس کمشنر کی حیثیت سے دنیا سے گیا اور صرف چار مرلے کا مکان ترکے میں چھوڑا اور سید محمود ضیغم کہ جن کا چند ماہ پہلے نوحہ تحریر کیا ہے کہ باپ کے بعد وہی ایک شخص تھا جو زندگی بھر میرے لیے خلوص سے دعا کرتا تھا اور میری پریشانی پر تڑپ اٹھتا تھا۔ اسی فوارہ چوک کے آس پاس کمہاروں کے محلے میں میرا سکول تھا جس میں مٹی سے نازک کاغذی پیالے بنانے والے باپ کا بیٹا اسحٰق نور میرا کلاس فیلو تھا۔
میری طرح اسے بھی نصابی کتب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ہم لائبریریوں سے الّم غلم اٹھا کر پڑھتے رہتے۔ میرے والد کہتے اس کے پاس تو ہنر ہے، وہ چاق پر جا بیٹھے گا، لیکن تم کیا کرو گے۔ لیکن نویں جماعت کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑدی اور دنیا گھومنے چل نکلا، مدتوں لاہور کی ہیرا منڈی میں بسیرا کیا، عورت جنس اور جذبات کے سارے روپ اس پر کھلے، اسی ماحول میں مولانا مودودی کی ’’پردہ‘‘ اس کے ہاتھ آئی، کایاکلپ ہو گئی، واپس گجرات آگیا۔ میرا الحاد اور مارکسزم کا سفر بھی مولانا مودودی کی تنقیحات کے دروازے پر دم توڑ چکا تھا۔ چند ماہ اکٹھے گذرے، میں پنجاب یونیورسٹی چلاآیا اور وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو ڈھونڈنے بنارس کے پنڈتوں سے ستارہ شناسی سیکھنے چل نکلا۔ فوارہ چوک اور اس کی گلیاں بس اب یادوں میں بسی رہ گئیں۔ زندگی کے جھمیلوں میں ایسا الجھاکہ بارہ سال، تعلیم، یونیورسٹی میں پڑھانااور سول سروس اوڑھنا بچھونا بنے رہے۔ لیکن رات کو سرہانے پڑی نوٹ بک پر شاعری مسلسل ہوتی رہتی، جو 1988ء میں کتاب کی صورت سامنے آئی۔ بیوروکریسی کی گھٹن میں، سانس لینے کو ایک کھڑکی میسر ہوئی تو ٹیلی ویژن پر ڈرامہ لکھنا شروع کر دیا۔ بیس سال کے وقفے کے بعد ایک دن اچانک نواب اسلم رئیسانی کے فون سے اسحٰق نور کا فون آیا، وہ کوئی بھول جانے والی چیز تو تھا نہیں، مگروہ اب ایک ستارہ شناس بن چکا تھا۔ بڑے بڑے سیاست دانوں، جرنیلوںاور کاروباری حضرات کے گھروں میں ’’ شاہی منجم‘‘ کے طور پر مہمان بلایا جاتا۔ مجھ پر ایک مہربانی کرتا کہ بلوچستان آتا تو کئی ہفتے میرے پاس ٹھہرتا۔ دنیا کا ہر علم اس کی پیاس کے لیے ناکافی تھا۔ فزکس، کیمسٹری سے لے کر فلسفہ تک سب کی کتب اس کے تکیے کی زینت ہوتیں۔ ایک دن میرے پاس چاغی آیا اور کہا میں کورکمانڈر پرویزمشرف سے منگلا میں مل کر آیا ہوں، اور اسے بتادیا ہے کہ وہ اگلا مارشل لاء لگائے گا اور اس نے یقین بھی کرلیا ہے۔ پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والا، بیٹے نے شمالی علاقہ جات کی برف سے ڈھکی جھیل میںکود کر خودکشی کر لی، چہرے پر ملال تک نہ آیا۔ زائچے بناتا لوگوں کو مستقبل کی خبریں سناتا نگر نگر گھومنے والا میرا یہ دوست اپنا زائچہ نہ بنا سکا۔ موت سے چند دن پہلے کہنے لگا، اس دفعہ لاہور آیا تو کئی مہینوں کے لیے آؤں گا۔
میں نے گجرات کے بچے کھچے دوستوں کو بتا دیا ہے کہ وہ سب تمہیں اپنی یادیں بتائیں اور تم کتاب مرتب کرو۔ لیکن قضاوقدر کے زائچے ستارہ شناسی کے زائچوں سے بالاتر ہوتے ہیں۔ فوارہ چوک کے فوجی ہوٹل میں جس طارق عزیز کو چھت کے قریب رکھے ہوئے ٹیلی ویژن پر دیکھتے تھے اس سے لاہور کے ٹیلی ویژن سینٹر پر 1999ء میں اس وقت قربت میسر ہوئی جب راشد ڈار میرے ڈرامے ’’قفس‘‘ کی عکس بندی کر رہا تھا۔ یارِدلربا علی اکبر عباس کے کمرے میں جو ملاقاتیں شروع ہوئیں تو یوں لگا کہ طارق عزیز تو میری طرح ازسرِنو مسلمان ہوچکا ہے۔ بلا کے حافظے والا یہ شخص آج کے قحط الرجال کے دور کوبالکل ویران کر گیا ہے۔ وہ نیلام گھرجسے میں ’’ہم نفسانِ رفتہ‘‘ کے ساتھ گجرات میں دیکھا کرتا تھا طارق عزیز نے اس میں مجھے دو دفعہ مہمان بلایا۔ لیکن طارق عزیز سے آخری ملاقات ایک ایسی یادگار ہے کہ اس کا ذکر بھی ہم دونوں کی عاقبت کے لیے سرمایہ ہے۔ رمضان کے مہینے میں فیصل آباد میں ایک شاپنگ مال کا افتتاح تھا جس میں نیلام گھر سجایا گیا تھا۔ منتظمین نے اس نیلام گھر میں سحری سے ذرا پہلے سود کے خلاف میری تقریر رکھی تھی، طارق عزیز نے مجھے بلانے سے قبل چند لمحے جو سود کے حوالے سے گفتگو کی ا س سے یوں لگتا تھاجیسے کوزے میں دریا سمو دیا ہو، جیسے مجھ سے میرا لطفِ بیان چھین لیا ہو۔ کیسے کیسے سحرالبیان لوگ شہرِ خموشاں میں جا کر آباد ہوجاتے ہیں۔ کرونا کے اس چل چلائو کے عالم میںیہ دو پیارے ہی نہیں جن کا غم آج دل پر بار ہے، کئی ہیں جو ان مہینوں میں یوں دنیا سے چلے گئے کہ جیسے ابھی تو ہنس بول رہے تھے۔ گجرات کے فوارہ چوک کے ایک مکان کے باسی مقسط ندیم کا دعائیہ شعر بار بار لبوں پر آتا ہے۔ مجھ سے قبریں نہیں دیکھی جاتیں دے مجھے اذنِ مسیحائی دے
Source: 92 news
Must Read Urdu column De Muje Azan e Masehaye de By Orya Maqbool jan