دیر نہ ہوجائے! – ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
اضطراب، کرب اور گھبراہٹ نے ہمیں گھیرے میں لے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ سچ سننے اور کہنے میں بھی معذوری سی محسوس ہونے لگی ہے گو کہ گھڑی تو یہ ہے کہ صرف سچ کہا جائے، نہ جانے کب موت مزاج پوچھ لے؟ نہ جانے کب ہم بھی تنہائی کا شکار ہو کر ابدی تنہائی کے قبری مسافر بن جائیں ،کسی کو معلوم نہیں! اور قضا و قدر کے معاملات میں ویسے بھی سوال و جواب کی منزلیں اﷲ اور اس کے حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب نہیں ۔
مجھے حقیقتوں سے کنارہ کشی کرنا آتا نہیں ہے، میں متکبرانہ فکر اور فرعونی طبیعت کے خلاف ہمیشہ ابراہیم و موسیٰ علیہم الصلوٰۃ کا غلام کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہوں ، بھلا لگے یا برا؟ سمع خراشی ہو یا انگلیوں میں کی بورڈ تھام کر گالیاں دینے کی منصوبہ بند خراش ! میں جو دیکھوں گا وہ کہوں گا !! نشست، اسمبلی، حلقہ ، حکومت، سب آنی جانی شے ہیں، میں نے پہلی بار اقتدار کی راہ داریاں نہیں دیکھیں، میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا رکن نہیں بنا ، میرا پہلی بار مغلظات بکنے والوں سے سامنا نہیں ہوا، اور ویسے بھی گالیاں سننے والے ہی جالیاں تھامنے کے مستحق کہلاتے ہیں، مصیبت کا شکار پوری قوم ہے، ایک جاں لیوا وبا ہم پر حملہ آور ہے، گنجان آباد علاقوں میں لوگ سسک رہے ہیں، قرنطینہ مراکز میں بیمار بلک رہے ہیں اور ایسے میں ہم سماجی رابطوں کی سائٹس پر ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، بے ہودہ گوئی کرنے اور رات گئے ننگی گفتگو کے بے حیا سیشنز کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
کیا یہ توبہ کی گھڑی نہیں ہے؟ کیا استغفار کا وقت نہیں آن پہنچا؟ (حالانکہ مومن کا ہر لمحہ ، لمحہ استغفار ہے) کیا اب بھی ایسا پَل نہیں آیا کہ جو ہمیں رب کی جانب متوجہ کردے؟ کیا اب بھی ہم ‘‘حیاتِ قرنطینہ’’ کو تماشا سمجھتے ہوئے رات گئے یو ٹیوب پر فخر کے ساتھ ناشائستہ گفتگو کے سیشنز منعقد کر کے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا مزید اس کے غضب کو آواز دے رہے ہیں؟ حرمین پاک کے دروازے بند ہوگئے! مواجہ شریف کے سامنے سلام پیش کرنے کی سعادتیں چِھن گئیں، نعت و درود پڑھنے والی یاداشتیں سلب ہوگئیں تاہم اس کے باوجود جرات ملاحظہ کیجیے کہ رات گئے بدترین گفتگو کے سیشنز میں ہزاروں کلمہ گو شریک ہو کر اعضائے جسمانی کے مختلف ناموں پر بحث و مباحثہ کر کے اپنی قرنطینہ زندگی کو دلچسپ بنانے کی برہنہ کوششوں میں مصروف ہیں، بلاشبہ ہم میں سے کوئی دودھ کا دھلا نہیں، بے شک مجھ سمیت ہم سب گناہ گار ہیں لیکن کیا گناہوں پر اصرار تقاضہ ہوش مندی ہے یا ندامت و استغفار نسخہ وفا؟ مہینے بھر سے ملک میں کورونا کا ہنگامہ بپا ہے لیکن ایک دوسرے پر وہی لعنتیں، غلیظ گالیاں، حسد و عناد کی آگ میں جلتے بازوؤں سے محسود کا گلا دبانے کی ناکام کوششیں! ،ہماری سمت کیا ہے؟ کس راستے کو ہم نے چن لیا ہے؟ کہاں سے پڑھ کر آئے ہیں کہ ان حالات میں تو بدترین دشمن بھی ایک دوسرے کی مدد کو آپہنچے ہیں لیکن ہم اپنے ہی وطن میں موجود ہم وطنوں کی ماؤں، بہنوں پر غلاظت کا چھڑکاؤ کر کے اپنے آپ کو کورونا سے پاک کرنے کی کیا خوب مشق کررہے ہیں ( انا للہ وانا الیہ راجعون)
کیا کچھ جانتے ہو کہ حقیقتاً قرنطینہ زندگی نے آواز دے ڈالی تو کیا ہوگا؟
اوّل تو کسی اسپتال میں داخل کروانا ( غریب و متوسط طبقے کے لیے ) اب تقریباً ناممکن ہو گیا ہے فرض کر لیجیے اگر اسپتال میں داخل کر لیا جاتا ہے پھر کیا ہوگا؟
ڈاکٹر حضرات آپ کو آئسولیشن میں ڈال دیں گے مگر کیا ہوتا ہے یہ آئسولیشن ؟؟
آپ کو ایک وارڈ میں سیکڑوں کورونا کے مریضوں کے ساتھ ’’جمع‘‘ کردیا جائے گا ( یہی اطلاعات ہیں) اسپتال کے عملے کے سوا کسی کو بھی آپ کے قریب آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ آپ کے ماں باپ ، بہن بھائی ، بیوی بچے کسی کو بھی ۱۴ دنوں تک آپ سے ملنے نہیں دیا جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسپتال میں کام کے دباؤ کے باعث آپ پر کسی ڈاکٹر کی مکمل توجہ نہیں ہوگی، اِس کا علاج تو ہے ہی نہیں تکلیف کم کرنے کی ادویات کی بھی قلت ہوگی اور ہونے والی ہے ( اﷲ رحم فرمائے) ۔
خدانخواستہ وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی تو وہ دستیاب نہ ہوگا کیونکہ تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق قیمت ایک کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے، اور پھر بالآخر کسمپرسی کے عالم میں بے یار و مددگار شدید اذیت سہنے کے بعد آپ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ ( یہی ہم سب کی کہانی ہے)
اپنی آخری سانس تک آپ اپنے کسی پیارے کی شکل دیکھنے کو تڑپ رہے ہونگے مگر یہ ممکن نہ ہوگا۔
باہر آپ کے پیارے آپ کی شکل کو ترس رہے ہوں گے اور کوششیں بے سود۔
کہا جاتا ہے مرگئے چلو جان چھوٹی !! مگر یہاں (کورونا کے سبب ) مرنے کے بعد بھی مشکلات ختم ہو جائیں گی ؟ نہیں !!!
شرح اموات میں اضافے کی وجہ سے کفن دفن آسان نہیں رہے گا، آپ کی نعش ایک ’’ سیلڈ پلاسٹک ریپر‘‘ میں بند کر کے اس پر جراثیم کش اسپرے کر کے پولیس کی نگرانی میں کہیں دفن کر دی جائے گی، (کیونکہ اہل خانہ تو خود قرنطینہ میں ہوں گے) نہ غسل نہ جنازہ اور نہ ہی نماز جنازہ ، وائرس پھیلنے کا اندیشہ سب رکوا دے گا کہیں طاقت کے ذریعے اور کہیں بلا طاقت!، اہل خانہ کو بس اتنا ہی بتا دیا جائے گا کہ ’’مر گئے‘‘ اور فلاں قبرستان میں دفن کر دیا ..
وہ نصیب والے ہوں گے اگر ان کی قبر کی نشاندہی کر دی جائے ورنہ اجتماعی تدفین کی صورت میں کوئی نشانی بھی کہاں ہوگی بس کسی نمبر سے مردے کو یاد کیا جائے گا کہ مرنے والے کا فلاں نمبر تھا۔
یہ ساری باتیں داستان گوئی نہیں تلخ حقیقت ہے، اٹلی ، جرمنی، اسپین اور ایران میں یہ ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
سوچیے!!!
یہ مذاق نہیں ہے۔ تاہم بچنا ممکن ہے۔ پہلے تو اپنے آپ کو درست کیجیے، دوسروں کو گالیاں دینے کے بجائے اپنی کھدی ہوئی قبر کی فکر کیجیے اور دو باتیں اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے
عوام کو انفرادی طور پر اپنے علاوہ ہر دوسرے انسان کے بارے میں یہ تصور کرنا ہوگا کہ اسے کورونا لگ چکا ہے اور مجھے اس سے بچنا ہے اور دوسری بات یہ کہ اپنے گھر کے علاوہ ہر جگہ کے حوالے سے یہ تصور کرنا ہوگا کہ وہاں وائرس موجود ہے۔
خود کو اور اپنے اہل خانہ کو مکمل طور پر گھر کی چار دیواری تک محدود کرنا ہوگا نہ کسی سے ملنے جائیں اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے کی اجازت دیں۔
گھر کو کسی جراثیم کش محلول سے روزانہ پونچا دیں، ہاتھوں کو صابن سے بار بار دھوئیں، گھر میں ہوا کی با آسانی روانی کو یقینی بنائیں اور اپنے رب کی طرف رجوع کریں یعنی استغفار کریں، رب کی رضا زندگی ہے تو گناہ معاف ہوں گے اور رضا قضا ہے تو خاتمہ ایمان پر ہوگا، رات گئے ترجمے سے قرآن پڑھیے نا کہ یوٹیوب کے غلیظ سیشنز کا حصہ بنیے، اللہ ہم سب کا مددگار ہو ( آمین)
Must Read urdu column Deer na ho jaye Dr Ammir Liaqat Hussain