بہت سال پہلے 1999ء میں کارگل کی جنگ کا فائدہ بی جے پی کو ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ اُس نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے۔ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف میں اختلافات پیدا ہو گئے اور معاملہ اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت پر ختم ہوا۔ 2019 میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی۔ بھارتی ایئرفورس کے طیارے مظفرآباد کی طرف سے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور خیبرپختونخوا کے علاقے جابہ کے جنگلوں میں بم گرا کر واپس بھاگ گئے اور بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ بالاکوٹ میں جیشِ محمد کا ایک ٹریننگ کیمپ تباہ کردیا گیا۔ حقائق بالکل مختلف نکلے۔ بھارتی طیارے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل تو ہوئے لیکن رات کے اندھیرے میں بم گرا کر بھاگ گئے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی اس کارروائی کے ذریعے جو سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حاصل نہیں کر سکے تاہم پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہو گئی۔ اِس مرتبہ جارحیت کا الزام بھارت پر ہے اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے مؤقف میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ بھارتی جارحیت سے صرف ایک دن پہلے سینیٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں ایک قرارداد منظور کی گئی اور اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی تمام سیاسی جماعتیں بھارت کے خلاف متحد نظر آئیں گی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جب بھی بھارت نے جارحیت کی تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں۔ سیاستدانوں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور معاشرے کے تمام طبقوں نے دائیں اور بائیں کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت کی ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کا یہ الزام ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کے پیچھے پاکستان ہے جبکہ حقیقت ِحال یہ ہے کہ کشمیر کی حالیہ تحریک 1931ء میں شروع ہوئی اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے پہلا یومِ کشمیر 14اگست 1931ء کو لاہور میں منایا گیا اور یومِ کشمیر کے اِس جلسے کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔ یہی اقبال تھے جنہوں نے فرمایا؎
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
اقبال کے بعد فیض احمد فیض نے کشمیر کی تحریک آزادی کی نا صرف حمایت کی بلکہ پاکستان میں قیدوبند بھی برداشت کی۔ فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور الزام تھا کہ وہ کشمیر میں ہونے والے سیز فائر کے خلاف کچھ فوجی افسران کے ساتھ مل کر بغاوت کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ فیض نے راولپنڈی سازش کیس کو پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازش قرار دیا اور کہا
قصۂ سازش اغیار کہوں یا نہ کہوں؟
شکوہ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں؟
قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری سے لے کر عوامی شاعر حبیب جالب تک ہر بڑے شاعر اور ادیب نے کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ حفیظ جالندھری نے فرمایا؎
وہ دیکھو وادیٔ کشمیر کے جانباز جاتے ہیں
ستارے اپنی آنکھیں جن کی راہوں میں بچھاتے ہیں
شورش کاشمیری نے ’’سری نگر کو سلام‘‘ کے نام سے ایک نظم میں کہا؎
مجاہدوں میں ہر جوان برق ہے، شرار ہے
جدھر نظر اٹھایئے غنیمِ دل فگار ہے
سری نگر کے شہریو! ڈٹے رہو، ڈٹے رہو
قریب آ گئے وہ دن کہ جن کا انتظار ہے
حبیب جالب نے کشمیر کی تحریک آزادی کے بارے میں کہا ؎
ویت نام و فلسطیں ہو انگولا کہ ہو کانگو
انساں کی آنکھوں سے گرتے ہوں جہاں آنسو
اے شامِ ستم ہر جا توڑیں گے ترا جادو
دیکھا نہیں جاتا اب مظلوم کا یہ عالم
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سر خم
جوش ملیح آبادی نے ’’اے جوانانِ کشمیر‘‘ کے نام سے اپنی طویل نظم میں لکھا ؎
اے جنتِ کشمیر کے بیدار جوانو!
اے ہمتِ مردانہ کے ذی روح نشانو!
سو بات کی یہ بات ہے اس بات کو مانو
جینے کا جو ارمان ہے تو موت کی ٹھانو
بے غرق ہوئے کوئی اُبھرتا ہی نہیں ہے
جو قوم پہ مرتا ہے وہ مرتا ہی نہیں ہے
جوش کے یہ اشعار پڑھ کر اُن جوانوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کو زندہ رکھنے کیلئے موت کو گلے لگایا۔ احمد فراز نے بھی کشمیر کی تحریک آزادی کی کھل کر حمایت کی۔ ’’صدائے فرزند کشمیر‘‘ کے نام سے اپنی غزل میں فرمایا؎
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں نور ہے
میرے بازوؤں پہ نگاہ کر جو غرور تھا وہ غرور ہے
احمد ندیم قاسمی نے کشمیر پر بہت سی نظمیں کہیں۔ ’’کشمیر‘‘ کے نام سے ایک نظم میں کہا؎
ہر گل کی جبیں پُرشکن ہے
کشمیر لٹا ہوا چمن ہے
پھولوں نے چھپا رکھا ہے ورنہ
زخموں سے اٹا ہوا بدن ہے
کشمیر کے بارے میں پاکستان کے معروف شعراء نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ پاکستانی عوام کے دلوں کی ترجمانی ہے۔ ان شعراء کے کلام کو ایک کتاب میں اکٹھا کر دیا جائے تو آپ کو پاکستان کے رائٹ اور لیفٹ اور سینٹر کی سوچ والوں کا کشمیریوں کے حق میں اتفاق رائے نظر آئے گا۔ بھارتی حکومت کو نہیں بلکہ عالمی برادری کو یہ بتانا ضروری ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کے پیچھے کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ علامہ اقبال سے لے کر حبیب جالب اور احمد فراز سے لے کر جوش ملیح آبادی تک بڑے بڑے شاعروں کی شاعری ہے، اگر کشمیر کے حریت پسند دہشت گرد ہیں تو پھر یہ تمام شاعر بھی دہشت گرد ہیں۔
Source: Jung News
Read Urdu column Dehshatgard shayar By Hamid Mir