دھواں – اوریا مقبول جان
پوری دنیا ایک ایسے دھوئیں سے خوفزدہ ہے جو زمین کو گھیر لے گا تو زندگی دن بہ دن معدوم ہوتی چلی جائے گی۔ کوئی ہے جو ان کو خوفزدہ انسانوں کو میرے اللہ کی طرف سے دی گئی چودہ سو سال پہلے کی وارننگ کی طرف متوجہ کرے،فرمایا ، ” لہذا اس دن کا انتظار کرو جب آسمان ایک واضح دھواں لے کر نمودار ہوگا۔ جو لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ایک دردناک سزا ہے” (الدخان 10،11)۔ یوں تو اس دھویں کے تذکرے اسی دن سے شروع ہوگئے تھے جب جدید دنیا کی سب سے بے رحم، ظالم اور انسان دشمن طاقت امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے تھے۔ انسانی تاریخ میں سکندر، چنگیز، اشوک اور ہلاکو جیسے ظالم آئے ،جن کی تلواریں لاکھوں انسانوں کی گردنوں پر چلیں لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی چند لمحوں میں اتنے انسانوں پر بیک وقت موت مسلط نہیں کی تھی۔ ظلم و وحشت کا یہ اعزاز پوری انسانی تاریخ میں صرف امریکہ کے سینے پر سجا ہوا ہے۔ آج سے پچھتر سال قبل 6 اگست 1945ء کو ہیروشیما پر گرنے والے بم نے ایک لاکھ انتیس ہزار اور تین دن بعد 9 اگست 1945ء کو ناگاساکی پر گرنے والے بم سے دو لاکھ چھبیس ہزار معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کو اذیت ناک موت سے ہمکنار کردیاتھا۔ لیکن آج بھی کسی دہشت گرد کا چہرہ اس امریکی پائلٹ، برطانوی وزیراعظم یا امریکی صدر جیسا نہیں دکھایاجاتا۔
یہ سب متعصب ترین سیکولر، لبرل اور جمہوری میڈیا کا کمال ہے جسکے نزدیک انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن امریکہ اور مغرب ہے۔ پچھتر سال پرانی یہ خوف کی چادر جو اس دنیا پر چھائی تھی گذشتہ ایک ماہ سے مزید گہری اور دبیز ہوتی جارہی ہے۔ جس دن سے عمران خان اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے آخری فقرہ یہ کہہ کر واپس پلٹا ہے کہ "یاد رکھو دو ایٹمی قوتیں جب ٹکراتی ہیں تو اثرات دور تک جا پہنچتے ہیں”، اس دن سے صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ سنجیدہ حلقوں کے ترجمان سائنسی رسالے بھی اس قیامت خیز دن کا منظر پیش کر رہے ہیں، جس دن اگر کسی اچانک تیزوتند حادثے کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ میں ایٹم بم استعمال ہوگیا تو پھر دنیا پر کیا بیتے گی۔ انسانوں کی اموات کا تذکرہ تو اب بے معنی سا ہو کر رہ گیا ہے، کہ مرنے والے تو پاکستان اور بھارت کے شہروں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر ان دونوں ملکوں نے اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کر لیے تو اسکے بعد باقی ماندہ اور بظاہر "پرامن” اور ظلم پر بدترین خاموشی اختیار کرنے والی دنیا پر کیا بیتے گی۔ او بی ٹون (OB Toon) کی مشہور تحقیق کے مطابق اگر دونوں ممالک اپنے پاس موجود تین سو ایٹم بموں میں سے صرف پچاس بم جو K.T 15 طاقت کے ہوں، ایک دوسرے کے شہروں پر چلا دیں تو چشم زدن میں ڈھائی کروڑ لوگ مر جائیں گے اور پانچ کروڑ ایسے زخمی اور بیمار ہوں گے کہ ازیت ناک موت کا انتظار کریں گے۔ اس وقت پوری دنیا کے ایٹمی قوت رکھنے والے ملکوں کے پاس 13,900 ایٹم بم ہیں جن میں سے پاکستان کے پاس 140 اور بھارت کے پاس 150 بم ہیں۔ جبکہ پاکستان نے چھوٹے سائز کے شاطرانہ (Tactical) بم بھی بنا لئے ہیں جو چوبیس ہیں۔ ماہرین کے نزدیک 2025ء تک دونوں ملکوں کے ایٹمی ذخیرے میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق دونوں کے پاس کل ملا کر پانچ سو ایٹم بم ہوں گے۔ پوری دنیا اب اس غم میں غلطاں نہیں ہے کہ دونوں ملک اگر آپس میں لڑیں گے تو ایک دوسرے کی کتنی تباہی وبربادی کریں گے، بلکہ انہیں یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اس ایٹمی جنگ کے بعد ہم پر کیا بیتے گی۔ دنیا نے اگر اس جنگ کو نہ روکا اور یہ ایک دن ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوگئی،
اور یاد رہے کہ یہ ایٹمی جنگ صرف ایک دن ہی چلے گی کیونکہ اس ایک دن سے زیادہ کوئی ایک دوسرے کو مہلت ہی نہیں دے گا۔ ان ایٹمی ہتھیاروں کے چلنے کے بعد فضا میں ایک پگھلا دینے والی گرمی پیدا ہوگی جس سے وہاں پر موجود ہر چیز آگ پکڑ لے گی۔ اس آگ کو وہاں موجود ہوا ایک گرم آندھی میں بدل دے گی اور یوں محسوس ہوگا جیسے ایک آگ کا طوفان ہوتا ہے۔ زمین کے ساتھ ساتھ یہ آگ کا طوفان بڑھیاور پھیلے گا اور اس سے فضا میں بہت بڑی تعداد میں دھواں داخل ہو جائے گا۔ یہ دھواں کوئی عام دھواں نہیں ہوگا بلکہ یہ اپنے اندر انتہائی زہریلی "سیاہ کاربن” لیے ہوگا۔ یہ وہ گیس ہے جو عموما ڈیزل انجن کے مخرج سے برآمد ہوتی ہے۔ یہ زہریلا مواد زمین سے ٹکرانے والے کرّہ اول (Troposhere) سے اس کے بالائی کرّوں (Spehers) میں داخل ہوگا جنہیں Stratosphere کہا جاتا ہے اور پھر چند ہفتوں کے اندر اندر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ زہریلا دھواں زمین کے اوپر موجود ہواؤں کے تمام حلقوں یا حصاروں میں آکر ٹھہر جائے گا اور وہاں آکر کم از کم پانچ سال تک ٹھہرا رہے گا۔ یوں لگے گا کہ جیسے پوری دنیا پر دھوئیں کی ایک چادر تن چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں سورج کی روشنی زمین پر آنا بند ہو جائے گی اور بس اتنی سی روشنی آئے گی جتنی گردوغبار کے دوران آتی ہے۔ اس ملگجی سی روشنی میں زمین کا درجہ حرارت پانچ ڈگری کم ہو جائے گا۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت سے لاکھوں سال پہلے ایک زمانہ اس پر آیا تھا ،برفانی "Ice Age” کا تھا۔ہم اس Ice Age میں داخل ہو جایئں گے ۔ جس میں زندگی محدود تھی۔ چونکہ زمین پر سورج کی تپش کم آئے گی، سمندر سے بخارات کم اٹھیں گے، بادل کم برسیں گے، اس کے نتیجے میں کم از کم تیس فیصد بارشیں کم ہوں گی۔ جب ایسا ہو گا تو پھر دریاؤں میں پانی کم آئے گا، زیر زمین پانی کے ذخائربھی کم ہوجائیں گے اور یوں فصلوں کے اگنے، پکنے کے لئے گرمی اور پانی دونوں میسر نہیں ہوں گے۔ کھیت پکی ہوئی فصلوں سے محروم ہوجائیں گے۔ دنیا پر قحط کے دس سال مسلط ہو جائیں گے۔
سورج کی گرمی سمندروں کو گرم رکھتی ہے جس سے آبی حیات میں زندگی رواں دواں ہوتی ہے۔ اس کا اثر وہاں بھی ہوگا اور مچھلیاں، جھینگے اور دیگر آبی مخلوق دم توڑ جائے گی۔ ایسا صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میں ہیروشیما اور ناگاساکی جتنے پچاس ایٹم بموں کے چلنے سے ہوگا۔ یہ دھواں دس سال تک چھایا رہے گا۔ اس سے اوزون کو جو نقصان پہنچے گا اور جس طرح سورج کی تابکاری شعاعیں سے نیچے آکر بیماریاں پھیلائی گئی ان کا عرصہ پچیس سال پر محیط ہوگا۔ ٹون کی تحقیق کے مطابق اگر امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کے پاس موجود آدھے ایٹم بم بھی چل گئے تو زمین پر ایک ایٹمی سرد موسم (Nuclear winter) چھا جائے گا۔ ایک دھواں جو زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔اسکے بعد وہ اذیت ناک رات شروع ہو جائے گی۔ ایسی ہی اذیت ناک رات کا ذکر رسول اکرمؐ نے کیا ہے جو قیامت سے پہلے چھا ئے گی۔ اللہ جب قرآن پاک میں اس دھویں کے ذکر کرتا ہے تو اسکے بعد فرماتا ہے ” یہ لوگ کہیں گے اے پروردگار ہم سے یہ عذاب دور کر دیجئے ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ ان کو نصیحت کہاں ہوتی ہے (الدخان 12,13)۔ ہر کوئی ایٹمی جنگ کے خوف سے لرزاں ہے لیکن کیا کوئی نصیحت پکڑ رہا ہے
Source: 92 news
Must Read Urdu column Dhuwan By Orya Maqbool Jan