دل کو چھو لینے والی دردمندی سے دعاؤں کے معجزے تک – انصار عباسی
جس دن میرا کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آیا تھا، میں نے سب سے پہلے جنگ گروپ کے چند ماہ قبل قائم کردہ محدود واٹس ایپ گروپ پر یہ معلومات شیئر کی تھیں۔ لیکن سب سے پہلے مجھے جو جواب موصول ہوا وہ اس شخص کی طرف سے تھا جو اس محدود گروپ کا رکن نہیں تھا، لیکن یہ صورتحال میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھی اور میرے دل کو چھو گئی۔ ’’سلام، مجھے ابھی معلوم ہوا کہ آپ کورونا سے متاثر ہوئے ہیں، خدا آپ کی نگہبانی کریں گے اور آپ کی صحت بحال کریں گے۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ نجم سیٹھی۔‘‘ سیٹھی صاحب اور میری نظریاتی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن انہوں نے ہی سب سے پہلے مجھے دعائیں بھیجیں۔ بعد میں ایک اور حیران کن بات ہوئی۔ اس مرتبہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا پیغام آیا جو سوشل میڈیا پر نظریاتی معاملات کے حوالے سے مجھ سے لڑائی کا موقع بمشکل ہی چھوڑتے ہیں اور کبھی کبھار سخت بھی ہو جاتے ہیں۔ اپنے صوتی پیغام (وائس میسیج) میں فواد چوہدری نے مجھے دعا بھیجی اور خدا سے میری جلد صحتیابی کی دعا کی۔ اس کے بعد، پیغامات بھیجنے والے کئی ایسے لوگ تھے جو میرے نظریاتی مخالفین ہیں۔
یہ لوگ میری صحت اور خیریت معلوم کرتے رہے اور مجھے دعا بھیجتے رہے۔ یہ میرا یقین ہے کہ لاتعداد لوگوں بشمول میرے اہل خانہ، رشتہ داروں، جان پہچان کے لوگوں، جنگ گروپ کے ساتھیوں، صحافیوں، مذہبی علماء اور دیگر کی مسلسل دعائوں کی وجہ سے میرے لیے معجزاتی حالات پیدا ہوئے اور میں کورونا کے جان لیوا حملے کے بعد تیزی سے روبہ صحت ہونے لگا۔ لیکن جن لوگوں کو اکثر میں ’’دیسی لبرل‘‘ کہتا ہوں، ان کی دعائوں اور ان کی دردمندی نے میرا دل چھو لیا۔ صرف خدا جانتا ہے کہ میرے معاملے میں کس کی دعا کام کر گئی لیکن میں شکر گزار ان سب کا جنہوں نے میرے لیے دعا کی، جو میری صحت کیلئے پریشان رہے ان کا بھی۔ خدا تبارک و تعالیٰ ان سب کا بھلا کرے جنہوں نے مجھے اپنی دعائوں میں یاد رکھا۔ جنگ گروپ اور جیو کے ساتھ میرے پالیسی اختلافات کے حوالے سے سب ہی جانتے ہیں لیکن میرے تازہ ترین تجربات نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر اس بات کی تصدیق کی کہ جنگ گروپ کا کوئی ثانی نہیں۔ اور اس بات کا سہرا یقیناً میر شکیل الرحمٰن کو جاتا ہے۔ میری علالت کے دنوں میں، میری اہلیہ اور بیٹے کو مسلسل میر شکیل الرحمٰن اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے فون کالز اور پیغامات موصول ہوتے رہے اور وہ میری صحت اور خیریت دریافت کرتے رہے اور دعائیں دیتے رہے۔ کئی دن بعد جن میں میر شکیل الرحمٰن سے بات کر پایا تو وہ رو پڑے۔ بعد میں انہوں نے مجھے بتایا کہ جس وقت میں اسلام آباد میں بیمار تھا اس وقت ان کے اہل خانہ کے افراد پر بھی کورونا نے حملہ کیا تھا۔ میری علالت کے عرصہ کے دوران، میں نے دیکھا کہ سیاست دان اگر موقع پرست نہیں تو لاتعلق ضرور رہے۔
ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو جاننے کے باوجود صحت تک دریافت نہیں کرتے۔ یہ لوگ صرف میڈیا میں بیانات دینے کیلئے تو ایسا کر سکتے ہیں لیکن بصورت دیگر نہیں۔ تاہم، کچھ لوگ ہیں جو ہمیشہ آپ کیلئے موجود رہتے ہیں اور ایسے لوگوں میں چوہدری نثار بھی شامل ہیں۔ میں اُن تمام لوگوں کا یہاں نام شاید نہ لے پائوں جنہوں نے میری صحت اور خیریت دریافت کی لیکن میں ایسے ہی ایک حیران کن واقعے کا ذکر کروں گا جو ایک طرف خوشگوار بھی ہے تو دوسری طرف تکلیف دہ بھی۔ میری علالت کے ابتدائی دنوں میں جب میں بری حالت میں نہیں تھا، مجھے صدر عارف علوی کی فون کال موصول ہوئی، انہوں نے خیریت دریافت کی اور دعائیں دیں۔ شاید یہ 7؍ تاریخ بروز پیر کا دن تھا جب مجھے وزیراعظم آفس سے فون کال موصول ہوئی۔ مقصد مجھے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کیلئے مدعو کرنا تھا۔ میں نے کورونا کی وجہ سے معذرت کا اظہار کیا۔ جلد ہی مجھے وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا سے پیغام ملا جس میں کہا گیا کہ: ’’سلام، کل آپ کو وزیراعظم کے ساتھ شام چار بجے ملاقات کیلئے مدعو کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم آفس سے آپ کو فون کال موصول ہوگی جس میں بالکل ٹھیک وقت اور مقام بتایا جائے گا۔
یہ تقریباً پونے چار بجے ہوگا۔ سرکردہ مدیران، کالم نگار صاحبان اس ملاقات کا حصہ ہوں گے۔ شکریہ۔‘‘ میں نے جواباً بتایا کہ میں کورونا سے متاثر ہوں اسلئے آ نہیں پائوں گا۔ بس یہاں بات ختم ہوئی۔ نہ کوئی نیک نیتی کا پیغام، نہ دعا کا کوئی ایک لفظ۔ یہ واضح طور پر ایک عام سیاست دان کا رویہ تھا جو میرے لیے بحیثیت انسان مایوس کن تھا۔ ایسی کئی باتیں ہیں جن کا میں نے دورانِ علالت مشاہدہ کیا اور محسوس کیا، لوگوں کے رویے دیکھے لیکن ان میں سے ایک غیر معمولی رویہ ایک ایسے شخص کا تھا جس کی مجھے توقع نہیں تھی۔ سویلین بالادستی، آئین کی بالادستی، سیاسی معاملات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت، سیاسی جوڑ توڑ اور الیکشن میں ہیرا پھیری کے حوالے سے میری رائے سبھی جانتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں ہیرا پھیری کی گئی تاکہ پی ٹی آئی کو لایا جا سکے اور اس میں اسٹیبلشمنٹ نے اہم کردار ادا کیا۔ میری اس کھلی رائے کے باوجود مجھے آرمی چیف کی طرف سے کچھ دنوں میں دو مرتبہ پیغام موصول ہوا اور انہوں نے میری خیریت دریافت کی اور انہوں نے ملٹری اسپتال راولپنڈی میں میرا علاج کرانے کی پیشکش کی۔ چونکہ میں نجی اسپتال میں پہلے ہی روبہ صحت تھا اسلئے میں آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا۔ یہ غیر معمولی اور خوشگوار تجربہ رہا۔ قصہ مختصر، جو کچھ بھی میں نے اس تجربہ کے دوران سیکھا وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مشکل میں ہے، بیمار ہے یا سخت علیل ہے یا کوئی سنگین مسئلے میں الجھا ہے، اس کیلئے ہم کم از کم جو کام کر سکتے ہیں وہ اس کیلئے دعا کرنا ہے اور اس کی طرف دردمندی کا اظہار کرنا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Dil ko Cho laine wali dardmandi se duaon k Maujzay tak By Ansar Abbasi