دلیپ کمار اور پاکستان – جاوید چوہدری
ناظم جیوا کا تعلق کراچی سے تھا‘پاکستان میں 70 کی دہائی میں تھیلیسیمیا کا مرض بڑھنے لگا تو جیوا صاحب نے فاطمید فائونڈیشن کے نام سے این جی او بنائی اور تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے لیے خون جمع کرنا شروع کر دیا۔
فائونڈیشن آہستہ آہستہ پھیل گئی‘ یہ کاروبار کے سلسلے میں بھارت جاتے رہتے تھے‘ دلیپ کمار مرحوم کے ساتھ ان کا رابطہ تھا‘ یہ 1987 میں ممبئی میں دلیپ صاحب سے ملے اور انھیں پشاور میں فاطمید کے سینٹرکے افتتاح کی دعوت دے دی۔
دلیپ صاحب مان گئے اور یہ اپریل 1988 میں پہلی بار پاکستان تشریف لے آئے‘ میاں نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ میاں شریف اور نواز شریف دونوں دلیپ صاحب سے ملے اور یوں شریف فیملی کا دلیپ صاحب سے رابطہ استوار ہو گیا‘ دلیپ صاحب دوسری بار1992میں شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لیے پاکستان آئے‘ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے۔
حکومت نے دلیپ صاحب کو اسٹیٹ گیسٹ کا پروٹوکول بھی دیا اور ان کی بے انتہا خدمت بھی کی‘ شریف فیملی اور دلیپ صاحب کا تعلق اس دورے میں مزید گہرا ہو گیا‘ یہ دونوں ایک دوسرے کو فون بھی کرنے لگے اور کارڈز اور خط بھی بھجوانے لگے‘ یہ رابطہ 1998 میں دو ملکوں کے درمیان رابطہ بن گیا‘ بھارت نے 11 مئی 1998 اور پاکستان نے 28مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے اور یہ دونوں ملک ایٹمی طاقت بن گئے۔
میاں نواز شریف دھماکوں کے بعد لندن چلے گئے‘ دلیپ کمار ان سے ملاقات کے لیے لندن آئے‘ شریف فیملی نے انھیں اپنے گھر میں ڈنر کی دعوت دی‘ بیگم کلثوم نے اپنے ہاتھ سے کھانا بنایا اور دلیپ صاحب کو پیش کیا‘ دلیپ کمار کھانے کے بہت رسیا تھے‘ وہ بہت اچھا کھانا کھاتے تھے اور اسے خوب انجوائے کرتے تھے۔
دلیپ صاحب نے کھل کر کھانے کی تعریف کی اور اس کے بعد میاں نواز شریف سے کہا ’’مجھے حاشیہ آرائی نہیں آتی لہٰذا میں کھل کر بات کرتا ہوں‘ مجھے آپ کے پاس وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھجوایا ہے‘ انڈیا پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام ایشوز پر بات کرنا چاہتا ہے‘ واجپائی چاہتے ہیں ہم اپنے تمام اختلافات ختم کر کے نئے ملینیم میں داخل ہوں‘‘۔
میاں نواز شریف نے دلیپ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’ہم دونوں اب ایٹمی طاقت ہیں‘ ہم نے اگر اپنے اختلافات کا کوئی پیس فل سلوشن نہ نکالا تو برصغیر میں ایٹمی جنگ ہو جائے گی لہٰذا آپ ڈائیلاگ شروع کریں‘ ہماری طرف سے آپ کے لیے دروازے کھلے ہیں‘‘ دلیپ کمار خوشی کے ساتھ واپس روانہ ہو گئے۔
اٹل بہاری واجپائی نے1998 کی آخری سہ ماہی میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے لیے اپنے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا اور میاں نواز شریف نے نیاز اے نائیک کو نامزد کر دیا اور دونوں کے درمیان ڈائیلاگ شروع ہوئے‘ پاکستان نے اس دوران دلیپ کمار کو نشان امتیاز دینے کا اعلان کر دیا‘ دلیپ کمار نے واجپائی سے مشورہ کیا اور بھارتی وزیراعظم کی اجازت سے نشان امتیاز لینے کے لیے پاکستان آئے‘ یہ ان کا پاکستان کا تیسرا دورہ تھا۔
دلیپ کمار کی شروعات کے نتیجے میں اٹل بہاری واجپائی 20 فروری 1999 کو بس پر لاہور آئے‘ مینار پاکستان کے نیچے کھڑے ہو کر نظریہ پاکستان کی تائید کی اور خطے میں نئے تعلقات کی بنیاد رکھ دی لیکن بدقسمتی سے ڈائیلاگ شروع ہونے کے اڑھائی ماہ بعد کارگل کا واقعہ پیش آ گیا اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
کارگل وار کے اسٹارٹ میں وزیراعظم واجپائی نے میاں نواز شریف کو فون کیا اور ناراض لہجے میں کہا ’’میاں جی (واجپائی میاں نواز شریف کو ہمیشہ میاں جی کہتے تھے) میں کھلے دل کے ساتھ آپ کے پاس آیا تھا لیکن آپ نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا‘‘ میاں نواز شریف اس وقت تک کارگل کی صورت حال سے واقف نہیں تھے‘ یہ حیرت کا اظہار کرنے لگے‘ واجپائی نے اس کے بعد کہا ’’میرے پاس آپ کے ایک دوست بھی بیٹھے ہیں‘ آپ ان سے بھی بات کر لیجیے ’’اور چند سیکنڈ زبعد دوسری طرف سے دلیپ کمار کی آواز آئی اور انھوں نے کہا ’’میاں صاحب آپ لوگ جب بھی بھارت کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا کریں تو یہ ضرور سوچ لیا کریں یہاں 20 کروڑ مسلمان رہتے ہیں اور آپ کی غلطیوں کا خمیازہ یہ بے چارے ہندوستانی مسلمان بھگتتے ہیں‘‘۔
نواز شریف نے دلیپ کمار اور واجپائی کو یقین دلایا ’’میں کارگل آپریشن سے واقف نہیں ہوں‘ میں صورت حال معلوم کرکے آپ سے رابطہ کروںگا‘‘ واجپائی نے ان کی بات پر یقین کر لیا اور کہا ’’میرا بندہ لاہور میں آپ سے ملے گا اور آپ کو ایک ٹیپ دے گا‘ آپ وہ سن لیں‘ آپ بات سمجھ جائیں گے‘‘ فون کے دو دن بعد برجیش مشرا نے رائیونڈ میں میاں شریف سے ملاقات کی اور انھیں ایک ٹیپ دی‘ ٹیپ میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور چیف آف جنرل اسٹاف جنرل عزیز کی گفتگو تھی‘ جنرل مشرف نے چین سے فون کرکے پوچھا تھا ’’وزیراعظم کو ابھی کارگل کا پتا تو نہیں چلا‘‘بہرحال قصہ مختصر کارگل ہوا‘ 12 اکتوبر کو مارشل لاء لگا اور دلیپ کمار ڈپلومیسی ختم ہو گئی۔
یہ دلیپ کمار کی زندگی کا ایک خفیہ پہلو تھا‘میں چاہتا ہوں ان کے انتقال پر ان کی شخصیت کا یہ سفارتی پہلو بھی رجسٹرڈ ہو جائے‘ہم اب ان کی شخصیت کی طرف آتے ہیں‘ وہ حقیقتاً ایک نیچرل ایکٹر تھے‘ اسکرین اور ان کی عام زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا‘ میری لندن میں ان سے ایک ملاقات ہوئی تھی‘ میں نے اس ایک ملاقات میں انھیں انتہائی مہذب‘ ڈائون ٹو ارتھ‘ وضع دار اور دانشور پایا تھا‘ وہ چھ سات زبانیں جانتے تھے‘پشتو ان کی مادری زبان تھی‘ ہندکو وہ فرفر بولتے تھے‘ پنجابی زبان کو پنجابی لہجے میں بولتے تھے‘ انھیں لفظ چول اور مہاتڑ تک کا علم تھا‘ان کی اردو انتہائی شستہ اور رواں تھی جب کہ انگریزی وہ شیکسپیئر کے اسٹائل میں بول سکتے تھے۔
دلیپ صاحب بول چال کے دوران حیرت کا اظہار نہیں کرتے تھے‘ آپ انھیں کچھ بھی سنا دیں کچھ بھی بتا دیں وہ ہائے‘ اف یا ارے نہیں کہتے تھے‘ بڑی سے بڑی بات کو نارمل سمجھ کر سنتے تھے‘آپ انھیں کوئی بھی لطیفہ سنا دیں کیا اس لطیفے پر ہنسنا چاہیے یہ فیصلہ دلیپ صاحب کرتے تھے لطیفہ سنانے والا نہیں‘ ضد کے پکے تھے‘ مغل اعظم کی ریکارڈنگ کے دوران ہندوستان کے مشہور ڈائریکٹر اور مغل اعظم کے پروڈیوسر کے آصف ان کے گھر آنے جانے لگے‘ وہ دلیپ صاحب کے دوست بھی تھے‘ اس آمدورفت کے دوران کے آصف کا دلیپ صاحب کی سب سے چھوٹی بہن اختر کے ساتھ رابطہ ہو گیا اور اس نے گھر سے بھاگ کر کے آصف سے شادی کر لی۔
دلیپ صاحب کو بہن اخترسے بہت پیار تھا لیکن وہ اس کے بعد کبھی اپنی بہن سے نہیں ملے‘ مدھوبالا ہندی سینما کی خوبصورت ترین ہیروئن تھی‘ یہ دونوں ایک دوسرے کے عاشق بھی تھے‘ چھوٹی سی بات پر ناراضگی ہوئی اور دلیپ صاحب نے پھر کبھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا‘ وہ بے انتہا ذمے دار انسان بھی تھے‘ اپنے گیارہ بہن بھائیوں کی پرورش کی اور انھیں پوری زندگی سپورٹ بھی کرتے رہے‘ والد فروٹ کے بیوپاری تھے‘ یہ خودبھی فروٹ کا کاروبار کرتے رہے‘ عملی زندگی کا آغاز انڈین ائیرفورس کے میس میں سرونگ بوائے سے کیاتھا‘ پوری زندگی فروٹ کاٹنے اور سجانے کا شوق رہا‘ والد سخت مزاج تھے‘ وہ فلموں اور گانے بجانے کے خلاف تھے‘ یہ ان سے چھپ کر فلموں میں کام کرتے رہے۔
ایک دن والد نے اخبار میں ان کی تصویر دیکھ لی تو ٹھیک ٹھاک چھترول کر دی‘ راج کپور کے والد پرتھوی راج پشاور سے ان کے فیملی فرینڈ تھے‘ وہ آئے اور بڑی مشکل سے ان کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت لے کر دی‘ والد نے ایک دن دلیپ صاحب کی فلم دیکھی‘ نرگس فلم میں ہیروئن تھی‘ رات کو واپس آئے تو والد نے انھیں کہا‘تم مجھے نرگس کے گھر لے چلو‘ میں تمہاری اس کے ساتھ شادی کرانا چاہتا ہوں‘ دلیپ صاحب نے بڑی مشکل سے انھیں روکا‘ والد کو پشاوری کھانوں کی عادت تھی‘ یہ انھیں خود پشاوری ریستورانوں میں لے کر جاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے۔
والد آخر میں ان سے بہت خوش تھے‘ خاندان اور سائرہ بانو کے درمیان اختلافات تھے‘ سائرہ ان کے خاندان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھیں‘ دلیپ صاحب نے نیاگھر بنایا اور سائرہ بانو کے ساتھ اس میں شفٹ ہو گئے‘ آپ ان کی وضع داری دیکھیں‘ انھوں نے اپنی فیملی کو نئے گھر میں منتقل نہیں کیا تھا‘ یہ خود شفٹ ہوگئے تھے‘ واجپائی کے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھا‘ امریکا نے 2001 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ڈائیلاگ شروع کراناچاہا تو واجپائی نے دلیپ کمار سے مشورہ کیا۔
اپنا ایک خصوصی ایلچی جدہ میں میاں نواز شریف کے پاس بھجوایا اور پیغام دیا ’’ہمیں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ڈائیلاگ کی پیشکش آئی ہے‘ آپ اگر اجازت دیں تو ہم پراسیس شروع کر دیں‘‘ میاں نواز شریف کا جواب تھا ’’ ملکوں کے درمیان تعلقات شخصیات سے بالاتر ہوتے ہیں‘ آپ ضرور ڈائیلاگ شروع کریں‘‘ آپ دونوں کی وضع داری دیکھیں۔
دلیپ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اداکاری کی بے تحاشا صلاحیت سے نواز رکھا تھا‘میں نے کسی جگہ پڑھا تھا دلیپ صاحب دنیا کے ان چند اداکاروں میں شامل ہیں جو ایک ہی وقت میں اپنی ایک آنکھ کو رُلا سکتے ہیں اور دوسری آنکھ کو ہنسا سکتے ہیں‘ میں جس مہربان کے ساتھ ملاقات کے لیے ان کے پاس گیا تھا‘ انھوں نے اٹھتے اٹھتے دلیپ صاحب سے عرض کیا ’’خان صاحب یہ لڑکا آپکی آنکھوں کا جادو دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔
دلیپ صاحب کو یہ فرمائش بری لگی لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہمارا دل رکھنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے آدھے چہرے پر رکھااور ہماری طرف دیکھنے لگے‘ چند سیکنڈ بعد ان کی ننگی آنکھ میں آنسو تیرنے لگا‘وہ اس وقت دنیا کی اداس ترین آنکھ تھی‘ انھوں نے اس کے ساتھ ہی اپنا ہاتھ دوسری آنکھ سے اٹھا دیا‘ وہ آنکھ ہنس رہی تھی‘ ہمارا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔یہ تھے دلیپ کمار‘ دنیا کے ’’ون اینڈ اونلی‘‘ دلیپ کمار‘ دلیپ صاحب دنیا کے ان چند لوگوںمیں شامل تھے جن کے جانے کے بعد خلا بھی خود کو خالی محسوس کر رہا ہے اور یہ ہمیشہ کرتا رہے گا۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Dilip Kumar aur Pakistan By Javed Chaudhry