دو ٹو ک۔۔۔۔۔۔! – علی معین نوازش
ملکی معیشت کے حوالے سے ایک پاکستانی نژاد امریکی نےمجھے عجیب سا جواب دیا۔ کہنے لگے ایک باپ بیٹا سڑک پر سے گزر رہے تھے کہ پاس سے ایک جنازہ گزرا، معصوم بیٹے نے باپ سے پوچھا ابا جان یہ کیا ہے اور لوگوںنے یہ چارپائی پر کس کو اٹھا رکھا ہے۔ باپ نے کہا بیٹا ایک شخص فوت ہو گیا اور اسکو دفن کرنے جا رہے ہیں۔بیٹے نے پھر سوال کیا کہ اسکو کہاں دفن کریں گے اور دفن کر نا کیا ہو تا ہے۔ باپ نے بیٹے کو سمجھانے اور اس کے مزید سوالات سے بچنے کیلئے کہا بیٹا یہ شخص اب ایسی جگہ جا رہا ہے جہاں نہ پلنگ ہوگا، نہ ٹی وی اور نہ فرج ہوگا، نہ بجلی ہوگی اور نہ پانی ہوگا۔ توبیٹےنے معصومیت اور حیرانگی
سے کہا ابا جان کیا اس فوت ہونےوالے شخص کو ہمارے گھر لے جایا جا رہا ہے۔ باپ اپنی ہی بتائی بات پر لاجواب ہو گیا کیونکہ اسکے گھر غربت کی وجہ سے واقعی ان ساری اشیاء کی کمی تھی۔ یہ تو شاید ایک لطیفہ تھا۔ لیکن پاکستانی نژاد امریکی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے کہ نہ بجلی ہے نہ پانی ہے اِس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر نیا بچہ ایک لاکھ70 ہزار روپے کا قرض دار ہے، آئے روز خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں گراوٹ کی وجہ سے پاکستان ہر روز مٹی کے ایک ایسے تودے کے نیچے آرہا ہے کہ پہلے جتنی مٹی ہٹا کر سطح کو صاف کرنے کی کوشش کی جاتی ، اس سے
کہیں زیادہ مٹی ایک جھٹکےسے آکر پھر پہاڑ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ قرضوں میں جکڑے اور پانی کی بوند بوند کو ترسنے والے عوام کے رہنمائوں نے ان پر کیسا ’’احسان‘‘ کیا ہے کہ صرف ایک صوبے میں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کےلیے چار ارب سے زائد قومی خزانے سے رقم ضائع کر دی۔ لیکن عوام بیچاری کو پینے کا صاف پانی کیا ملتا کلی کرنے کےلیے ایک گھونٹ پانی نہ ملا۔ میں نے پاکستانی نژاد امریکی شہری سے کہا کہ جو باتیں آپ کر رہے ہیں وہ تو ہم روز پڑھتے اور سنتے ہیں۔ مجھے تو آپ کا ایک ماہر انہ تجزیہ چاہیے تھا۔ وہ صاحب ذرا گرج کر بولے کہ جو چیز سامنے دیوار پر لکھی ہو اس پر ضروری نہیں کہ
دیوارکے پیچھے جھانک کر اسکی تصدیق کی جائے۔ کیونکہ سامنے نظر آرہا ہے کہ دیوار کی ایک ایک اینٹ کے پیچھے بدعنوانی اور ہر برا طرز حکمرانی نظر آئے گا۔ لیکن مزے کی بات ہے کہ کسی کے طرز عمل سے پشیمانی یا پریشانی نظر نہیں آرہی کہ اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہوا ہے اور کیا کیا ہو رہا ہے۔ جتنا واویلا سیاسی پارٹیوںکے ٹکٹ نہ ملنے پر کیا جا رہا ہے، جتنا احتجاج اپنی ذات کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کیا جا رہ اہے اگر ایسی ہی گریہ زاری اور احتجاج ہم ملک اور عوام کے ساتھ زیادتی پر کرتے تو شاید حالات مختلف ہوتے۔ امریکا میں اپنی فرم چلانے والے یہ صاحب کہنے لگے کہ سب کو معلوم ہے کہ ترکی کی ایک
پاور کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے پر اس کمپنی نے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیو ٹس (ICSID) میں کیس کیا تو آئی سی ایس آئی ڈی نے پاکستان کے خلاف تقریباً ایک ارب ڈالرز کی خطیر رقم کی ادائیگی کا فیصلہ دیا ہے۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ پہلے سے معلوم تھا کہ پاکستان کے خلاف فیصلہ آئے گا اور اتنی بڑی رقم ادا کرنا پڑے گی لیکن حکومتی سطح پر کسی نے اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش نہیں کی
اور نہ ہی حکومت پاکستان اور ترک کمپنی کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے میں بے قاعدگیوں کا کھوج لگا کر اسکے ثبوت دیے گئے۔ اب نگراں حکومت الیکشن کےلیے غیر جانبدارانہ اور سازگار ماحول برقرار رکھے یا اس قسم کی آفتوں کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنائے اور ابھی ایسا ہی فیصلہ ریکوڈک کے حوالے بھی منہ کھولے کھڑا ہے اگر ان پر عملدرآمد کرنا پڑ گیا تویک نہ شد کئی شد والا معاملہ ہوگا۔ البتہ 84 ارب روپے کے وہ قرضے جو معا ف کروا لیے گئے تھے ان کی واپسی کےلیے چیف جسٹس کے اقدامات ایک ایسی شروعات ہیں جو بے ایمان لوگوںکےلیے ایک تازیانہ ہوگا۔ اور اسکے بہت اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اور اگر آپ میرا دو ٹوک تجز یہ سننا چاہتے ہیں تو سن لیں کہ پا نی اور مہنگا ئی قو م کی چیخیں نکا ل دے گی۔
Must Read Urdu column Parchii By Ali moeen nawazish
Source: Jang