دوستی سے دشمنی تک – جاوید چوہدری
میں نے علیم خان سے پوچھا ’’کیا آپ عثمان بزدار کو جانتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہم بالکل نہیں جانتے تھے‘ یہ جہانگیر ترین کے ذریعے پارٹی میں آئے تھے‘ یہ انھیں ذرا ذرا پہچانتے تھے ‘میں سرے سے ان سے واقف نہیں تھا‘ میں نیب کی پیشی کے بعد اسلام آباد آیا‘ بنی گالا گیا تو عمران خان نے میری اور جہانگیر ترین کی اس سے ملاقات کرائی۔
عثمان بزدار بشریٰ بی بی‘ فرح گوگی اور احسن جمیل گجر کا پروجیکٹ تھا اور اس کے لیے عمران خان کو باقاعدہ ٹریپ کیا گیا تھا‘ مجھے بزدار کے ساتھ پنجاب کا سینئر وزیر لگا دیا گیا اور پھر پنجاب میں حماقتوں کا سیلاب آ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلا‘‘ یہ بولے ’’بزدار صاحب نالائق بھی تھے اور کرپٹ بھی‘ یہ ایم پی اے بننے کے بعد پرویز الٰہی کے سیکریٹری محمد خان بھٹی کے پاس کمرہ لینے کے لیے گئے تھے اور اس نے انھیں صاف انکار کر دیا تھا لیکن یہ دو ہفتے بعد پنجاب کا سی ایم تھا۔
بزدار شروع میں ہر چیز کو حیرت سے دیکھتا تھا‘ سی ایم آفس کی چھت شیشے کی ہے اور یہ اوپن ایبل ہے‘ یہ اس کے نیچے کھڑا ہو کر اسے کبھی کھلواتا تھا اور کبھی بند کراتا تھا اور بچوں کی طرح خوش ہوتا تھا‘ یہ گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر دیر تک اللہ کی قدرت دیکھتا رہتا تھا‘ سرکاری میٹنگز میں بھی ہر چیز اس کے سر کے اوپر سے گزر جاتی تھی‘ ہماری بجٹ کی میٹنگ تھی‘ سیکریٹری خزانہ نے دو گھنٹے پریزنٹیشن دی۔
عثمان بزدار حیرت سے کبھی سلائیڈز کو دیکھتا تھا اور کبھی سیکریٹری خزانہ کو‘ میٹنگ کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا‘ خان صاحب اب کیا کریں؟ میں نے کہا ‘آپ اب ان کا شکریہ ادا کریں اور اٹھ جائیں‘ اس نے شکریہ ادا کیا اور اٹھ کر چلاگیا۔
ابتدائی دنوں میں نیس پاک(NESPAK) کی ٹیم پریزنٹیشن کے لیے آئی‘ وزیراعلیٰ نے پریزنٹیشن کے دوران انھیں روک کر پانی کی بوتل کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا آپ لوگوں کا چھتوں‘ دیواروں اور پلوں کے ساتھ کیا تعلق ہے‘ آپ تو پانی کی بوتلیں بیچتے تھے‘ پوری ٹیم حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگی‘ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
وزیراعلیٰ نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا‘ اچھا اچھا پھر نیسلے بلڈنگز بھی بناتی ہو گی‘ ہمارے وزیراعلیٰ کو نیسلے اور نیس پاک کا فرق معلوم نہیں تھا‘‘ میں نے کہا ’’یہ ان کی سادگی بھی تو ہو سکتی تھی‘‘ علیم خان ہنس کر بولے ’’ہاں اگر یہ شخص کرپٹ نہ ہوتاتو! اس نے پورے پنجاب کو لوٹ سیل پر لگا دیا تھا۔
ڈی سی اور ڈی پی او لگنے کاریٹ تین کروڑ روپے تھا‘ چار کروڑ روپے میں کمشنر اور آر پی او کی سیٹ بکتی تھی اور ان افسروں کو باقاعدہ بتایا جاتا تھا تمہارے پاس اتنے مہینے ہیں‘ تم نے ان میں اپنے پیسے پورے کرنے ہیں‘ لاہور کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر تک پیسے دے کر لگتے تھے‘ گوجرانوالہ کے ڈی سی نے تو یہ بات پبلکلی کہہ دی تھی۔
سی ایم کے دو پرنسپل آفیسر اور دو اسٹاف آفیسر وصولیاں کرتے تھے‘ عثمان بزدار کا پرنسپل سیکریٹری طاہر خورشید (ٹی کے)سرغنہ تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’اور یہ پیسے کہاں کہاں جاتے تھے؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ ساری کولیکشن فرح گوگی تک جاتی تھی اور اس کے بعد کہاںجاتی تھی یہ ہم نہیں جانتے تھے لیکن یہ طے تھا صوبہ عملاً فرح گوگی اور احسن جمیل چلاتے تھے اور ان کے پیچھے بشریٰ بی بی تھی‘ فرح گوگی اس قدر طاقتور تھی کہ اس نے میری رہائی کے بعد مجھے اپنے گھر بلایا‘ یہ ڈیفنس کے وائے بلاک میں رہتی تھی۔
اس نے مجھے کہا ہم آپ کو دوبارہ وزیر بنا رہے ہیں‘ آپ بتائیں آپ کو کون سی وزارت چاہیے اور پھر اس نے میرا باقاعدہ انٹرویو لیا اور اس انٹرویو کے بعد مجھے صوبائی وزارت خوراک ملی‘ پنجاب اور وفاق کے سیکریٹریوں کی تعیناتی سے پہلے عمران خان ان کی تصویریں بشریٰ بی بی کو بھجواتے تھے اور بشریٰ بی بی سیکریٹریوں کی شکل اور نام دیکھ کر تعیناتی کا فیصلہ کرتی تھی اور پھر وزیراعظم کا پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور چیف سیکریٹری پنجاب نوٹی فکیشن جاری کر تا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو یہ صورت حال بتائی تھی؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہاں میں نے مطلع کیا تھا۔
میں چھ ماہ بعد وزیراعظم کے پاس گیا‘ انھیں ساری صورت حال بتائی اور درخواست کی آپ مجھے وفاق میں لے آئیں‘ میں پنجاب میں کام نہیں کر سکتا‘ وزیراعظم نے میری بات سنی اور پھر مجھے 6 فروری 2019کو نیب نے گرفتار کر لیا اور میں سو دن اس کی حراست میں رہا‘ یہ وزیراعظم کو صورت حال بتانے کی سزا تھی۔‘‘
میں نے پوچھا ’’جیل میں آپ شہباز شریف کا واش روم استعمال کرتے رہے‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میاں شہباز شریف جانتے تھے یہ بار بار جیل آتے رہیں گے چناںچہ انھوں نے وہاں اپنے لیے ایک واش روم بنوایا تھا‘ اس کی ٹائلیں اور کموڈ شہباز شریف کے گھر سے آئی تھیں‘ میاں صاحب ابھی جیل نہیں آئے تھے چناں چہ مجھے ان کا واش روم استعمال کرنے کا موقع مل گیا‘ وہ بہرحال میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔
مجھے عمران خان سے سب سے بڑا گلہ بھی یہی ہے‘ یہ بے شک مجھے وزیراعلیٰ نہ بناتے‘ یہ مجھے وزارت بھی نہ دیتے‘ یہ ان کا اختیار تھا لیکن انھیں مجھے جیل میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا‘ میں اتنی خدمت اور وفاداری کے بعد یہ ڈیزرو نہیں کرتا تھا‘ میں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو کیا کیا گالی نہیں دی تھی لیکن ان لوگوں نے بھی میرے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا تھا مگر میں نے جس کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اس نے مجھے جیل میں ننگے فرش پر پھینک دیا۔
یہ ظلم ہے‘‘ علیم خان جذباتی ہو گئے‘ کمرے میں خاموشی چھا گئی‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ رہائی کے بعد خان صاحب سے ملے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’جی میں ملا اور ان کا کہنا تھا‘ ڈی جی آئی تمہارے خلاف ہیں ‘ میں نے ان سے کہا‘ خان صاحب میرا ڈی جی آئی سے کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔
آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو جواب مل جائے گا لیکن انھوں نے میرا کیس انھی کے کھاتے میں ڈال دیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کے دورمیں حکومت آخر کون چلا رہا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’بشریٰ بی بی‘ فرح گوگی‘ ایک بزنس مین اور جنرل فیض‘ ہماری ساری حکومت یہ تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’جنرل باجوہ کا کیا کنٹری بیوشن تھا؟‘‘ یہ فوراً بولے ’’جنرل باجوہ عمران خان کے سب سے بڑے محسن ہیں۔
یہ نہ ہوتے یا یہ مدد نہ کرتے تو عمران خان کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے لیکن آج یہ جو کچھ ان کے ساتھ کر رہے ہیں‘ وہ ناقابل یقین ہے‘‘ میں نے پوچھا عمران خان نے آپ کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے اسلام آباد طلب کیا تھا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’جی کیا تھا‘ جنرل باجوہ نے انھیں پرویزالٰہی اور میری چوائس دی تھی‘خان کا کہنا تھا‘ چوہدری پرویز الٰہی چور ہیں‘ یہ مونس الٰہی کے بھی سخت خلاف ہوتے تھے۔
ہم وزیراعظم کو مونس سے ملنے کے لیے کہا کرتے تھے‘یہ اسے گالیاں دیتے تھے‘ یہ بہرحال میرے نام پر راضی ہو گئے‘ گورنر سندھ عمران اسماعیل اور عامر کیانی لاہور آئے اور مجھے لے کر اسلام آباد آ گئے‘ میں دو دن بیٹھا رہا لیکن عمران خان مجھ سے نہیں ملے‘ مجھے آخر میں پیغام دیا گیا خان آپ سے نہیں ملنا چاہتے یوں میں خاموشی سے واپس آ گیا لیکن ساتھ ہی سوشل میڈیا پر میری کردار کشی شروع ہو گئی۔
مجھے میرے بیٹے نے موبائل پر میری پوسٹ دکھائی‘ میرے چہرے پر کالک ملی ہوئی تھی اور اوپر غدار علیم خان لکھا ہوا تھا‘ میں یہ برداشت نہیں کر سکا اور میں نے عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کر دی اور یوں ہمارا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’پارٹی کے باقی لوگوں کا آپ کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’پوری پارٹی ایک جیسی ہے‘ باتیں‘ باتیں اور باتیں‘ عملاً کچھ بھی نہیں‘ یہ سب لوگ بے مروت‘ بے وفا اور سنگ دل ہیں۔
کسی کی آنکھوں میں حیاء نہیں‘ میں آپ کو یاسمین راشد کی مثال دیتا ہوں‘ یاسمین راشداین اے 120کے ضمنی الیکشن میں کلثوم نواز کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھیں‘ پارٹی کی میٹنگ میں یاسمین راشد سے پوچھا گیا‘ الیکشن کے اخراجات کون کرے گا؟ میڈم کا جواب تھا میرے بھائی بیرون ملک سے پیسے بھجوا دیں گے اور میں الیکشن لڑ لوں گی‘ ہم مطمئن ہو گئے ‘الیکشن کا وقت قریب آ گیا مگر پیسے نہ آئے‘ پریشانی میں ایک اور میٹنگ ہوئی تو خان صاحب نے ہم سے کہہ دیا‘ آپ لوگ ہی بندوبست کر دیں۔
ہم اکٹھے ہوئے‘ جہانگیر ترین نے دو کروڑ روپے دیے‘ میں نے ایک کروڑ دیا‘ نذیر چوہان نے بھی کنٹری بیوٹ کیا اور 50 لاکھ روپے کا چیک جمشید چیمہ نے دیا مگر یہ چیک بعدازاں باؤنس ہو گیا‘ بہرحال ہم نے 6 کروڑ روپے جمع کیے اور میڈم یاسمین راشد کا الیکشن ہو گیا‘ میڈم نے اپنے الیکشن پر ایک روپیہ خرچ نہیں کیا لیکن انھوں نے آج تک جہانگیر ترین اور میرا شکریہ ادا نہیں کیا‘ جہانگیر ترین سے دو کروڑ روپے لے لیے لیکن یہ ترین کی فلاسفی کے خلاف ہیں‘یہ پارٹی اسی طرح چل رہی ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو سب سے زیادہ حیرت کس بات پر ہوئی؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میں روز حیران ہوتا تھا‘ عثمان بزدار کی انٹری تو کمال تھی۔
اس نے پورے ملک کے چھکے چھڑا دیے لیکن ایک اور بھی کمال تھا جس پر میں روزانہ حیران ہوتا تھا‘ ہم الیکشن سے پہلے پشاور جا رہے تھے‘ میں گاڑی چلا رہا تھا اور عمران خان ساتھ بیٹھے تھے‘ عمران خان نے موبائل دیکھتے دیکھتے کہا‘ علیم خان تم ایک لسٹ بناؤ‘ میں ان لوگوں کو وزیراعظم بنتے ہی پھانسی لگا دوں گا‘ میں نے کہا نام بتائیں۔
وہ نام لکھواتے چلے گئے یوں دس لوگوں کی لسٹ بن گئی لیکن جب ہماری حکومت بنی تو لسٹ کا پہلا نام عمران خان کا سب سے بڑا دوست تھا‘ یہ ہم سب کا سفارشی بھی تھا‘ باقی نو نام بھی خان کے دوست بن گئے اور ہم لسٹ بنانے والے دشمن ہو گئے‘ واہ کیا بات تھی ہمارے خان کی!۔‘‘
Source: Express News
Must Read Urdu column Dosti se Dushmani tak By Javed Chaudhry