ڈاکٹر اسلم بھی چلے گئے – جاوید چوہدری
’’مجھے اﷲ سے صرف دو سال چاہئیں‘ میں کم از کم اپنے بچوں کو ٹرینڈ کر لوں‘ میں گھر اور دفتر کا کوئی سسٹم بنا لوں‘‘۔
ڈاکٹر اسلم کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ میں نے چائے کا کپ پکڑادیا‘ دو گھونٹ بھرے‘ کپ میز پر رکھا اور روانہ ہو گئے‘میں گاڑی تک ان کے ساتھ آیا‘ ان کی چال میں ہلکی سے لڑکھڑاہٹ تھی‘ وزن بھی کم ہو رہا تھا اور ہاتھوں کی نسیں بھی ابھری ہوئی تھیں‘ میں نے تسلی دینے کی کوشش کی لیکن وہ کیوں کہ خود ڈاکٹر تھے‘ وہ اپنی میڈیکل کنڈیشن سے اچھی طرح واقف تھے‘ لندن نہیں جانا چاہتے تھے مگر بچوں کا پریشر تھا‘ اگلے دن روانہ ہونا تھا‘ آخری ملاقات کے لیے میرے پاس آئے تھے۔
وہ چلے گئے اور میں دیر تک آنکھیں صاف کرتا رہا‘ یہ ملاقات واقعی آخری ثابت ہوئی‘ آٹھ ماہ تک میرا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ ہوا‘ میں نے جان بوجھ کر خاندان سے بھی نہ پوچھا‘ میں انھیں دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا‘ ان کے بڑے بیٹے علی کا فون آ جاتا تھا یا وہ خود آ جاتا تھا تو میں اسے تسلی دے دیتا تھا مگر ہم دونوں جانتے تھے یہ تسلی محض تسلی ہے‘ یہ کھوکھلے لفظ ہیں‘ ان کھوکھلے لفظوں کے کشکول میں کچھ بھی نہیں‘ کل اچانک پیغام ملا ڈاکٹر اسلم انتقال کر گئے ہیں‘ میت کل اسلام آباد آئے گی اور فوراً جنازہ ادا کر دیا جائے گا‘مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اپنے جسم کا آدھا حصہ مر گیا ہو۔
ڈاکٹر اسلم سے میری پہلی ملاقات 1999 میں ہوئی‘ یہ آئی جی چوہدری احمد نسیم کے دوست تھے اور چوہدری صاحب ہی نے انھیں میرے پاس بھیجا تھا‘ یہ پہلی ملاقات دائمی دوستی میں تبدیل ہو گئی اور یہ میرے ہر دکھ اور سکھ کے ساتھی ہو گئے‘ سیلف میڈ تھے‘ والد اوکاڑہ کے قریب چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے کسان تھے‘ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے‘ بڑی مشکل سے تعلیم حاصل کی‘ ایم بی بی ایس کیا اور ایک چھوٹے سے مرغی خانے میں ملازمت کر لی‘ دس بائی دس کا کمرہ تھا‘ اس میں سیمنٹ کی بوریاں بھی تھیں۔
مرغیوں کی خوراک بھی تھی اور ڈاکٹر اسلم کی چارپائی بھی‘ یہ بہت معمولی تنخواہ پرکام کرتے تھے‘ مالک کو گھاٹا پڑ گیا اور اس نے مرغی خانہ بند کر دیا یوں ڈاکٹر صاحب بے روزگار ہو گئے لیکن انھیں مستقل روزگار کا آئیڈیا مل گیا‘ بیس ہزار روپے سے چھوٹا سا مرغی خانہ کھولا‘ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ پکڑا اور یہ پاکستان کے پولٹری ٹائی کون بن گئے‘ آپ پاکستان کے کسی بھی کونے میں انڈہ کھا رہے ہیں یا مرغی اس کا تعلق بالآخر ڈاکٹر اسلم کی کمپنی سے ہی ہو گا‘ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کمائے‘ کمپنی میں اس وقت بھی چھ ہزارملازم ہیں۔
قدرت نے انھیں پبلک ریلیشنز کی صلاحیت دے رکھی تھی‘ یہ جس سے ملتے تھے وہ ان سے جڑ جاتا تھا‘ فوج سے لے کر بیوروکریسی‘ بیوروکریسی سے عدلیہ اور عدلیہ سے لے کر سیاست دانوں تک ان کے تعلقات کا سلسلہ بہت وسیع تھا‘ لوگوں کے لیے مار بھی کھاتے تھے چناں چہ لوگ بھی ان کے لیے ہر قسم کی قربانی دیتے تھے‘ میری ہر ہفتے ان سے ملاقات ہوتی تھی‘ یہ میرے پاس آتے تھے اور ہم سردیوں کا سارا دن دھوپ میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے‘گرمیوں میں ہم درختوں کے نیچے بیٹھے رہتے تھے۔
ان کی جیب میں ہر قسم کی خبر ہوتی تھی‘ جنرل راحیل شریف ‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اور اُدھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سب کے دروازے ان کے لیے کھل جاتے تھے چناں چہ یہ سیاست کے اندر کے حالات جانتے تھے‘ خدا ترس تھے‘ درجنوں خاندانوں کے وظیفے لگا رکھے تھے‘ گاؤں میں شان دار اسکول بھی چلا رہے تھے اور سیکڑوں غریب اور یتیم بچیوں کی شادیاں بھی کراتے تھے‘ یہ بار بار کہتے تھے ’’یار جاوید پتا نہیں کس کی دعا ہے اﷲ نے اتنا دے دیا‘ میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘ مجھ پر جب بھی مشکل وقت آیا یہ آدھی رات کو بھی اٹھ کر آ گئے اور پھر جب تک وہ مسئلہ حل نہیں ہوا یہ کندھے کے ساتھ کندھا جوڑ کر بیٹھے رہے‘ یہ ہمیشہ کہتے تھے انسان کو اثرورسوخ اور پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ انسان کو انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ ہر اس شخص کو اپنا دوست سمجھتے تھے جو مصیبت میں ان کے ساتھ کھڑا ہو جاتا تھا اور یہ خود بھی دوستوں کے ساتھ کندھا جوڑ لیتے تھے اور پھر کسی نقصان کی پروا نہیں کرتے تھے‘ اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے‘ شادی لیٹ ہوئی تھی لہٰذا بچے ابھی چھوٹے تھے‘ بڑا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا‘ بچوں کے معاملے میں میری فلاسفی سے اتفاق نہیں کرتے تھے‘ میں ان سے کہتا تھا آپ کے بچوں نے نوکری نہیں کرنی‘ یہ جلد یا بدیر آپ کا کاروبار سنبھالیں گے لہٰذا آپ ان کا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں وقت ضایع نہ کریں۔
انھیں ٹرینڈ کریں اورجلد سے جلد انھیں کام پر لگائیں لیکن یہ نہیں مانتے تھے‘ یہ پہلے پڑھائی اور پھر کام کے قائل تھے‘ مجھے بھی روکتے رہتے تھے’’ تم پہلے بچوں کو پڑھنے دو‘ ان پر ذمے داریاں نہ لادو‘‘ میں انکار کر دیتا تھا لہٰذا یہ میرے دونوں بیٹوں کو بٹھا کر ’’گمراہ‘‘ کرنا شروع کر دیتے تھے‘ بچے کام چھوڑ کر یونیورسٹیوںمیں بھاگ جاتے تھے اور میں انھیں پکڑ کر واپس کام پر لے آتا تھا‘ یہ آہستہ آہستہ میری بات سے اتفاق کر گئے اور اپنے بڑے بیٹے علی کو میرے پاس لے آئے۔
بیٹا لندن میں پڑھنا چاہ رہا تھا‘ میں نے علی کو سمجھانا شروع کیا لیکن علی ضد کا پکا تھا‘ اس نے کہا ’’میں بس دو سال میں واپس آ جاؤں گا‘‘ یہ سلسلہ چل رہا تھا‘ اس دوران ایک دن ان کا فون آیا‘ بتایا میرے پیٹ میں چند دن سے درد ہو رہا ہے‘ تم معدے کے کسی اچھے ڈاکٹر سے واقف ہو‘ میں نے شفاء اسپتال میں ان کی معدے کے ڈاکٹر سے ملاقات طے کرا دی‘ یہ گئے اور ڈاکٹر نے انھیں کینسر اسپیشلسٹ کی طرف بھجوا دیا‘ وہ دن خوف ناک تھا‘ ڈاکٹر اسلم چوتھی اسٹیج کے کینسر مریض نکل آئے تھے‘ یہ فوراً لندن چلے گئے‘ علاج شروع ہو گیا‘ دو ماہ وہاں رہ کر واپس آ گئے‘ طبیعت تھوڑی سی بحال تھی لیکن خدشات باقی تھے‘ یہ ان خدشات کے ساتھ ایک دن میرے پاس آئے اور ہم آدھا دن اسٹڈی میں بیٹھے رہے‘ یہ اپنی بیماری کا ذکر نہیں کر رہے تھے۔
میں بھی ان سے طبیعت کے بارے میں نہیں پوچھ رہا تھا‘ چائے کا کپ مانگا اور صرف اتنا کہا ’’میں نے زندگی کو مستقل سمجھ لیا تھا‘ میں سیکڑوں لوگوں کے جنازوں میں گیا‘ درجنوں کو اپنے ہاتھ سے دفن کیا مگر مجھے اپنی موت کا یقین نہیں تھا‘ میں نے نوے سال تک پلاننگ کر رکھی تھی‘ میں نے سوچا تھا میرے پوتے اور نواسے بھی میرے ساتھ کام کریں گے لیکن اب‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ ڈاکٹر اسلم کے ہاتھ میں چائے کا کپ کانپ رہا تھا‘ میں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا ڈاکٹر اسلم بھی بیمار ہو سکتے ہیں‘ یہ کم کھانا کھاتے تھے‘ واک بھی کرتے تھے‘ مطمئن بھی رہتے تھے‘ خدا ترس بھی تھے اور ان کی صحت بھی آئیڈیل تھی‘ عمر 68سال تھی لیکن یہ عمر سے دس سال چھوٹے لگتے تھے‘ کتابیں بھی پڑھتے تھے اور تصوف میں بھی دل چسپی تھی‘ سرفراز شاہ صاحب کے ارادت مند تھے لیکن پھر اچانک پیٹ میں ہلکا سا درد ہوا اور زندگی کا پورا دھارا بدل گیا‘ ڈاکٹر صاحب نے آنکھیں صاف کیں اور کہا ’’یار جاوید اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کا خیال رکھنا‘‘ اور آنسو سنبھالتے سنبھالتے اٹھ گئے۔
وہ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات تھی‘ ٹیلی فون پر ایک بار بات ہوئی تو میں نے ملاقات کا کہا‘ یہ نحیف سی آواز میں بولے ’’مجھے نہ ملو تم اداس ہو جاؤ گے‘‘ میں نے بھی زور نہ دیا‘ وہ بری حالت میں تھے‘ وہ نہیں چاہتے تھے دوست انھیں اس حالت میں دیکھیں تاہم حنیف عباسی زبردستی ان کے پاس پہنچ گئے۔
یہ بھی ملاقات کے بعد پچھتاتے رہے‘ ان کا کہنا تھا وہ واقعی بہت بری حالت میں تھے‘ سوکھ کر کانٹا ہو چکے تھے‘ چہرہ جھریوں سے بھر چکا تھا اور کیموتھراپی کی وجہ سے پورے جسم کے بال اڑ چکے تھے‘ حنیف عباسی جتنی دیر ان کے پاس بیٹھے رہے وہ ان سے یہ بھی کہتے رہے آپ اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں یہ مجھے دو سال کی مہلت دے دے‘ میں اپنے چند ادھورے کام مکمل کرنا چاہتا ہوں‘ حنیف عباسی بھی دعا کرتے رہے اور ان کے سیکڑوں ہزاروں دوست بھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ بستر سے نیچے قدم نہیں رکھنے دیا‘ یہ بستر پر لیٹے لیٹے رخصت ہو گئے‘ میں جنازے کی لائن میں کھڑا تھا‘ امام صاحب کی طرف سے اعلان ہوا تمام حضرات صفیں سیدھی کر لیں‘ مجید صاحب نے لائن کو دائیں بائیں دونوں سائیڈوں سے دیکھا اور مجھے سیدھا کر دیا۔
نماز شروع ہوئی تو مجھے ڈاکٹر اسلم کی ایک حسرت یاد آ گئی‘ یہ بھی میرے ساتھ پوری دنیا دیکھنا چاہتے تھے‘ ان کی خواہش تھی‘ یہ چھوٹا سا جہاز خریدیں اور ہم دونوں لاطینی امریکا سے دنیا دیکھنا شروع کریں لیکن افسوس یہ خواہش بھی ان کی دوسری خواہشوں کی طرح مٹی میں مل گئی‘ یہ جہاز خریدنے کے قابل تھے لیکن اﷲ نے انھیں یہ مہلت نہیں دی‘ قدرت ہم سے کس وقت اور کہاں مہلت چھین لے‘ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا‘ہمیں بہرحال ماننا ہوگا اﷲ تعالیٰ کی مشیت کو انسان کی نیکی قائل کر سکتی ہے۔
بہادری‘ جوانی اور نہ ہی دولت‘ قدرت جب رسی کھینچتی ہے تو پھر اسے ڈھیل نہیں ملتی اور میرا دوست اور میرے دکھ سکھ کا ساتھی ڈاکٹر اسلم قدرت کی اس طاقت کی تازہ ترین مثال تھا‘ وہ ہمارے سامنے لیٹا تھا اور ہم قطار میں کھڑے ہو کر اس کا جنازہ پڑھ رہے تھے‘ ہم کب اس کی جگہ جا لیٹیں گے ہم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا تھا حتیٰ کہ امام صاحب بھی نہیں‘ زندگی اس کے دائیں بائیں دھڑک رہی تھی لیکن وہ زندگی کی صف سے بہت دور’’میں نے زندگی میں کیا پایا‘ کیا کھویا‘‘ کا حساب کر رہا تھا‘ وہ جمع تفریق کے دائرے سے باہر نکل کر دائرے کی حماقتیں گن رہا تھا۔
Must Read Urdu column Dr Aslam bhi Chalay gay by Javed Chaudhry