ڈاکٹر سعید اختر کی کہانی (دوسرا حصہ) -جاوید چودھری
ہم ’’کڈنی فیلیئر‘‘ میں دنیا میںآٹھویںنمبر پر آتے ہیں‘کیوں؟ وجوہات آلودہ پانی‘ کم پانی پینا‘ تلی ہوئی اشیاء کا اندھا دھند استعمال‘ ورزش نہ کرنا‘ موٹاپا اور حکیموں کے خوفناک نسخے ہیں چنانچہ ڈاکٹر سعید اختر کے لیے چار بیڈ کم پڑ گئے‘ یہ ایک بار پھر شفاء انٹرنیشنل کے بورڈ کے سامنے پیش ہوئے اور ’’کاسٹ پرائس‘‘ پر مزید دس بیڈ مانگ لیے‘ اسپتال میں گنجائش نہیں تھی لہٰذا ڈاکٹر ظہیر مرحوم نے انکار کر دیا‘ یہ انکار ڈاکٹر سعید اختر کی کہانی میں اہم موڑ ثابت ہوا۔
ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں پانچ سو بیڈز کا پہلا کڈنی اینڈ ٹرانسپلانٹ چیریٹی اسپتال بننے کا فیصلہ کر لیا‘ دوستوں کو اکٹھا کیا اور مشورہ مانگا‘ ڈاکٹر رفیق آرائیں پہلا شخص تھا جس نے بھرپور مدد کا اعلان کیا‘ فیصلہ ہوا یہ لوگ مخیر حضرات کے پاس جائیں گے‘ اسلام آباد کے مضافات میں زمین خریدیں گے اور پھر اسپتال تعمیر کریں گے۔
یہ لوگ فنڈز جمع کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے‘ ڈاکٹر صاحب ڈونیشن کے لیے دوبئی کے شہزادے ناصر لوطا سے بھی ملے‘ شہزادے نے ان سے پوچھا’’ حکومت اسپتال کے معاملے میں آپ کی کیا مدد کر رہی ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ’’ہم یہ منصوبہ حکومت کے بغیر مکمل کرنا چاہتے ہیں‘‘ شہزادے نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ بہت بڑا منصوبہ ہے‘ آپ اسے صرف ڈونیشن سے مکمل نہیں کر سکیں گے‘‘ شہزادے نے شوکت خانم اسپتال کی مثال دی‘ اس کا کہنا تھا عمران خان جیسے اسٹار کے اسپتال کے لیے بھی زمین حکومت نے دی تھی‘ آپ زیادہ نہ کریں‘ آپ حکومت سے زمین لے لیں‘میں آپ کو اسپتال کے لیے ڈونیشن دے دوں گا۔
یہ لوگ واپس آئے اور زمین کے لیے حکومت کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا‘ صدر آصف علی زرداری سے ملے‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی اور یہ میاں نواز شریف کے پاس بھی گئے لیکن کسی نے زمین کی حامی نہ بھری یہاں تک کہ ڈاکٹر سعید اختر مایوس ہو گئے‘ یہ مایوسی میں عمرے کے لیے گئے‘ حرم پاک میں انھیں ایک بزرگ ملے‘ ڈاکٹر صاحب نے بزرگ کو اپنی داستان سنائی‘ انھوں نے سن کر فرمایا ’’حدیث پاک ہے‘ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘ پاکستان کے غریب اور بے بس مریض اللہ تعالیٰ کی فیملی ہیں‘ آپ اللہ کے کنبے کی مدد کررہے ہیں چنانچہ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا‘ آپ اپنا سفر جاری رکھیں‘ قدرت بے شمار راستے نکالے گی‘‘ یہ بات سیدھی ڈاکٹر صاحب کے دل پر لگی‘ یہ واپس آئے اور دوبارہ جت گئے‘ یہ پانچ سو بیڈز کے اسپتال کے لیے مفت زمین چاہتے تھے اور اتنی زمین صرف حکومت دے سکتی تھی‘ 2013ء میں میاں نواز شریف کی حکومت آ گئی‘ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ تھاما‘ ایک مخیر صاحب آئے اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ان کی ملاقات طے کرا دی۔
وزیراعلیٰ نے انھیں پانچ منٹ دیے‘ وزیراعلیٰ نے ان کے منصوبے میں کسی قسم کی دلچسپی نہ لی‘ ڈاکٹر صاحب بولتے رہے اور شہباز شریف خلاء میں گھورتے رہے‘ اللہ تعالیٰ نے اچانک ڈاکٹر صاحب کی زبان کنٹرول میں لی اور ان کے منہ سے نکل گیا‘ پاکستان میں بے شمار اسپتال ہیں‘ میں یہاں اسپتال نہیں بلکہ ایم ڈی اینڈرسن اور میموریل سلون کیٹرنگ جیسے انسٹی ٹیوٹ بنانا چاہتا ہوں‘ یہ سننے کی دیر تھی وزیراعلیٰ پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہو گئے‘ میاں شہباز شریف نے اس کے بعد نہ صرف ان کی بات غور سے سنی بلکہ اگلے ہفتے تفصیلی پریذنٹیشن کے لیے وقت بھی دے دیا‘ وزیراعلیٰ سے اگلی ملاقات وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہوئی‘ ڈاکٹر صاحب نے پریذنٹیشن دی اور وزیراعلیٰ سے درخواست کی آپ ہمیں صرف زمین دے دیں‘ ہم دس سال میں اسپتال بنالیں گے۔
وزیراعلیٰ نے آخر میں ان سے پوچھا ’’ہم اگر زمین کے ساتھ ساتھ پوری رقم بھی دے دیں تو یہ انسٹی ٹیوٹ کتنے عرصے میں مکمل ہو جائے گا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا‘ یہ دو سے تین سال میں بن جائے گا‘ وزیراعلیٰ نے خوش ہو کر کہا‘ اوکے ڈن‘ ہم آپ کو سب کچھ دیں گے‘ آپ بسم اللہ کریں لیکن آپ کڈنی کے ساتھ ساتھ لیورٹرانسپلانٹ کو بھی منصوبے میں شامل کریں گے‘ہمارے سیکڑوں مریض لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے بھارت جاتے ہیں‘ حکومت ان پر ہر سال تین چار ارب روپے خرچ کرتی ہے‘ ہم اگر یہ پیسے ہی بچا لیں تو کمال ہو جائے گا‘ وزیراعلیٰ کی شرط کے جواب میں ڈاکٹر سعید اختر نے دو شرطیں پیش کیں‘ ان کا کہنا تھا ہم کسی شخص کو سفارش پر ملازم نہیںرکھیں گے‘ دوسرا ہم لوگ کنسٹرکشن کا کام نہیں جانتے‘ اسپتال حکومت تعمیر کرا کر دے گی‘ ہم صرف اسے چلائیں گے۔وزیراعلیٰ نے یہ دونوں شرطین مان لیں یوں لاہور میں کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ پر کام شروع ہو گیا۔
2014ء کا دھرنا شروع ہو گیا‘ ملک کے دوسرے منصوبوں کی طرح یہ پراجیکٹ بھی رک گیا‘ حکومت 2015ء میں دوبارہ ایکٹو ہوئی‘ ڈاکٹر سعید اختر لاہور شفٹ ہوئے اورکڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ پر کام شروع کر دیا‘ یہ منصوبہ تین سال سے جاری ہے‘ اسپتال کی تعمیر کا کام انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب نے کرایا‘ ٹینڈر بھی اسی نے دیے‘ ٹھیکہ بھی اسی نے منظور کیا‘ تعمیر کے کام کی نگرانی بھی اسی نے کی اور تمام مشینیں اور آلات بھی اسی نے خریدے‘ ڈاکٹر صاحب اس دوران مفت کام کرتے رہے‘ یہ اپنے نان نفقے کے لیے مہینے میں چند دن شفاء انٹرنیشنل میں پریکٹس کرتے تھے یا پھر امریکا چلے جاتے تھے۔
ڈاکٹر سعید نے پی کے ایل آئی کے لیے برطانیہ اور امریکا سے 70 ڈاکٹر بھی بھرتی کر لیے‘ 20 ڈاکٹروں نے جوائن کر لیا جب کہ 50 نے رضامندی دے دی لیکن پھر 29 اپریل 2018ء کوسوموٹو نوٹس ہو گیا‘ سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی اور عدالت میں دو نقطے زیر بحث آئے‘ پہلا نقطہ ڈاکٹر سعید اختر اور ساتھی ڈاکٹروں کی بھاری تنخواہیں تھا‘ دوسرا نقطہ عمارت کی کاسٹ تھا‘سوموٹو نوٹس کے بعد ڈاکٹر سعید اختر کی ذلت کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ ہم کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے یہاں چند سوال اٹھائیں گے‘پہلا سوال‘ یہ تمام ڈاکٹرز دنیا کے ماہر ترین ڈاکٹرزہیں‘ یہ برطانیہ اور امریکا میں ایک دن میں پاکستان میں اپنی ماہانہ تنخواہ کے برابر رقم کماتے ہیں‘ یہ اپنی فائیو اسٹار لائف چھوڑ کر ملک میں واپس آ رہے ہیں‘ ان کے بچے سہولتوں کے عادی ہیں‘ ان کا کم سے کم خرچ دس سے پندرہ لاکھ روپے ہے۔
ہم اگرانھیں ضرورت کے مطابق تنخواہ نہیں دیتے تو یہ یہاں کیوں آئیں گے اور یہ اگر آ بھی گئے تو کب تک یہاں ٹک سکیں گے؟دوسرا سوال‘ ہمارے ملک سے ہر سال سیکڑوںمریض ’’لیور ٹرانسپلانٹ‘‘ کے لیے یورپ اور بھارت جاتے ہیں‘ ہر مریض پر50لاکھ سے کروڑ روپے خرچ آتا ہے‘ یہ ڈاکٹرز اگر پاکستان میں یورپ لیول کا ٹرانسپلانٹ سسٹم بنا دیتے ہیں تو علاج کی کاسٹ بھی کم ہو جائے گی اور مریضوں کو بھی فائدہ ہوگا‘کیا یہ برا ہے؟ تیسرا سوال‘ یہ ڈاکٹر صرف ڈاکٹر نہیں ہیں یہ دنیا کی نامور یونیورسٹیوں کے پروفیسر ہیں‘ آپ تصور کیجیے یہ ملک میں ہر سال کتنے نئے سرجن پیدا کریں گے اور یہ سرجن کتنے لوگوں کا علاج کریں گے۔
ہم اگر ٹریننگ کے لیے ایک سرجن کو امریکا بھجواتے ہیں تو اس پر کم از کم دواڑھائی لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں‘ یہ لوگ اگر50 سرجن بھی ٹرینڈ کر دیں تو ملک کو کتنا فائدہ ہو گا‘ کیا یہ غلط ہے؟چوتھا سوال‘ پیچھے رہ گئی عمارت کی کاسٹ ‘ سوال یہ ہے‘ کیا ملک میں اس سے پہلے اس لیول کا انسٹی ٹیوٹ بنا تھا؟ اگر نہیں بنا تو ہم کاسٹ کا اندازہ کیسے کر سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کے لیے مناسب ہو گا یہ یورپ اور امریکا سے اس لیول کے انسٹی ٹیوٹس کی کاسٹ منگوائیں‘ تقابل کریں اور پھر فیصلہ کریںاور پانچواں سوال‘ یہ ادارہ ابھی پوری طرح فنکشنل نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود یہاں کامیاب ٹرانسپلانٹ ہو رہے ہیں‘ کیا یہ پاکستان جیسے ملک میں کمال نہیں‘ آپ ایک سال بعد دیکھئے گا یہ ادارہ کتنے لوگوں کی زندگی بدل دے گا؟ کیا یہ بھی برا ہوگا؟۔
ڈاکٹر سعید اختر حقیقتاً ایک بڑے انسان ہیں‘ یہ اگر پیسہ کمانا چاہتے تودنیا میں امریکا سے بہتر کوئی ملک نہیں تھا‘ یہ وہاں روزانہ اتنے پیسے کماتے تھے جتنے یہ ذلت کے ساتھ یہاں مہینے میں وصول کریں گے‘ یہ امریکا میں دو جہازوں کے مالک تھے‘ اپنا گھر تھا‘ تحفظ اور عزت کا احساس بھی تھا‘ پولیس ہو یا عدالت پروفیسر کی حیثیت سے یہ ان کا احترام کرتی تھی لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گئے‘کیا برا کیا؟ یہ 2000ء سے نادار مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں‘ ادویات تک جیب سے دے رہے ہیں‘ کیا برا کیا؟ کیا ڈاکٹر سعید اختر یہ تمام کام بارہ لاکھ روپے تنخواہ لینے کے لیے کر رہے تھے یا پھر عدالتوں میں دھکے کھانے کے لیے! ڈاکٹر صاحب حکومت سے صرف زمین لینا چاہتے تھے‘ یہ حکومت تھی جس نے انھیں اس پھڈے میں ڈال دیا‘ یہ تین سال لاہور میںرہ کر معاوضے کے بغیر کام کرتے رہے‘ کیوں؟ڈاکٹر سعید اختر انتہائی پڑھے لکھے شخص ہیں‘ یہ 28 سال پڑھتے رہے‘ دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں کام کیا‘ سیکڑوں سرجریز کیں۔
درجنوں ایوارڈز حاصل کیے اور ہزاروں لوگوں کی دعائیں لیں لیکن آخر میں کیا ہوا؟ ہم نے انھیں عدالتوں کی سیڑھیوں پر ذلیل کردیا‘ ہم نے ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا اور ہم نے ان سے اس عمارت کا حساب مانگنا شروع کر دیا جوپنجاب حکومت نے بنائی تھی ‘کیا یہ زیادتی نہیں‘ کیا یہ علم‘ نیک نیتی اور خدمت کی توہین نہیں؟ میری چیف جسٹس محترم ثاقب نثار سے درخواست ہے ملک میں احتساب اور انصاف ضرور ہونا چاہیے لیکن ڈاکٹر سعید اختر جیسی پڑھی لکھی اور بین الاقوامی شخصیات کا احترام بھی ہونا چاہیے‘ہم پڑھے لکھے لوگوں کی عزت نہ کر کے علم کی توہین کر رہے ہیں۔
یہ شخص اللہ کے کنبے (مخلوق) کی خدمت کے لیے یہاں آیا تھا ‘ ہم اس کی بے عزتی کر کے اللہ کو ناراض کر رہے ہیں‘ اللہ اپنے کنبے کی خدمت کرنے والوں پر خوش ہوتا ہے تو یہ اپنے کنبے کے خادموں کی توہین پر ناراض بھی ہو جاتا ہے اور انسان خواہ کتنا ہی مضبوط اور کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ یہ اللہ کی ناراضی کے سامنے تنکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتاچنانچہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ اور پھر ڈاکٹر سعید اختر سے معافی مانگنی چاہیے‘ ہم نے ان کے ساتھ واقعی زیادتی کی۔
Source
Must Read urdu column Dr Saeed Akhtar ki Kahani Part 2 by Javed Chaudhry