ڈاکٹر ثانیہ کی محنت اور شجر امید – سیّد طلعت حسین
اگر خدا نخواستہ حالات بہت بگڑے تو ٹائیگر فورس کے ساتھ ڈاکٹر ثانیہ کی قیادت میں برقع پوش نشتر فورس کو میدان میں اتار دیں گے۔ ایک کرونا کو شکست دے گی اور دوسری غربت کو۔ حالات بھی قابو میں رہیں گے اور عوام شجر سے پیوستہ۔
حضرت علامہ اقبال نے 1924 میں شجر سے پیوستہ رہنے اور امید بہار رکھنے کی جو ہدایت کی تھی، تقریباً سو سال بعد بھی ہم عوام اس پر کاربند ہیں۔ شاعر مشرق سے عقیدت کا اظہار بھی ہے اور انتظار بھی کہ کب نرگس کی بےنوری ختم ہو اور ہمارا آفتاب پرشکوہ آسمان پر اپنی تابناک رعنایاں بکھیرے۔
یقیناً اس دوران ہمارے ساتھ کچھ ہاتھ بھی ہوئے۔ ڈبل شاہ جیسے کرداروں نے ہماری معصومیت اور اعتبار کو کئی مرتبہ ٹھیس بھی پہنچائی ہے لیکن کیوں کہ ہم مرد حق و عزم ہیں (اس میں خواتین بھی شامل ہیں) لہذا ہر ٹھوکر کے بعد ہم دوبارہ سے کھڑے ہوگئے۔ قسمت سے رابطہ استوار کیا اور اس طرح آنکھوں میں امید کے چراغ پھر سے روشن کر لیے۔ ہماری زندگی سادہ اور آسان ہے۔
آزادی سے لے کر اب تک سرکار کی طرف سے جاری کیے ہماری زندگی بس ایک جملے کے گرد گھومتی رہتی ہے: ’کام تیزی سے جاری ہے۔‘ اس جملے کو سنتے ہی کوفت دور ہو جاتی ہے اور ناامیدی کا بوجھل پن پیناڈول ایکسٹرا لینے کے بعد سر کے درد کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔ اس فقرے کی تاثیر ابھی بھی وہی ہے جو پچھلے 72 سال میں دیکھی گئی۔ عوام کو اس سے زیادہ تسلی کسی اور ذریعے سے نہیں ہوتی۔ اب تو حال یہ ہے کہ اگر یہ جملہ سننے کو نہ ملے تو دل پر وسوسے حملہ آور ہونے لگتے ہیں۔
اس لیے یہ سن کر کان ٹھنڈے ہوئے کہ اب غریب کو سہارا دینے کا کام اور کرونا (کورونا) وائرس سے لڑائی ان دنوں تیزی سے جاری ہے۔ یہ جان کر ڈھارس بندھی کہ سات، آٹھ کروڑ غربا جو اسد عمر کے مطابق مزید غریب ہوں گے اب ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی شکل میں ایک نئے مسیحا کو پا چکے ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحبہ متمول و مطمئن گھرانے سے ہونے کے باوجود آج کل جان ہتھیلی پر رکھ کر غربا کی امداد کرنے کے عمل میں احساس پروگرام کے ہر پہلو کو کارگر بنا رہی ہیں۔ وہ لاچار خواتین کے ساتھ محو گفتگو ہوں یا وزیراعظم عمران خان کے شانہ بشانہ سرکاری عہدیداروں کو بریفنگ دے رہی ہوں، ڈاکٹر ثانیہ نشتر ہمہ وقت متحرک ہیں۔ کیمرہ ہر جگہ ان کا پیچھا کرتا ہے۔
اس ننھی سی جان نے تو خلیفہ ہارون رشید (جو کالم نگار نہیں تھے) اور ان جیسے دوسرے قدآور حکمرانوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے سفید برقع اوڑھے اپنی تصاویر جاری کیں اور عوام کو بتایا کہ وہ کیا پاپڑ بیل رہی ہیں۔ غربا کو رقوم کی تقسیم کے تمام عمل کی شفافیت کو جانچنے کے لیے بھیس بدل کر اور کبھی مکمل طور چھپ کر کام کرنا کوئی آسان بات ہے؟ اور پھر مکمل اور آدھے برقع میں تصویر خفیہ ہونے کے باوجود کھینچ لی جائے؟ بہت محنت طلب ہے۔
ہم ڈاکٹر صاحبہ کو اس سے پہلے جنرل مشرف کے دور میں ان کے ایک مضبوط ستون کے طور پر دیکھ چکے ہیں۔ ان کا اگلا انداز بظاہر غیرجانبدار عبوری حکومت میں وزیر کا تھا، جس کے بعد اب ان کا سیاسی رنگ عمران خان حکومت میں مزید نکھار کے ساتھ واضح ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنا سیاسی بھیس نہیں بدلا۔ صرف قائد تبدیل ہوا ہے اور قائد تو ویسے بھی آنی جانی شے ہے۔
اب آپ خود ہی بتائیں کہ جب ہمارے پاس ڈاکٹر صاحبہ جیسی مجاہدہ موجود ہوں تو بڑھتی ہوئی غربت کے بارے میں پریشانی کی کوئی وجہ بنتی ہے؟ بالکل نہیں۔ ایسے ہی جری دل کردار ہمیں 2، 3 سال کے بعد پرامید ہونے پر مائل کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے ہونے والا ہر کام تیزی سے جاری رہتا ہے۔ ہاں اختتام میں دیر سویر ہو جاتی ہے۔ اب ہم کوئی ڈنمارک یا ناروے تو ہیں نہیں جہاں پر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق سوئٹزرلینڈ کی گھڑی کی طرح عین وقت پر مکمل ہو۔ تیسری دنیا کا ملک ہے۔ ایسا کبھی کبھار ویسا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح جنرل عاصم باجوہ بھی مشعل امید کو جلائے ہوئے ہیں۔ اطلاعات و نشریات کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے چین کے ساتھ نیم مردہ سی پیک منصوبے کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ وہ ہمیں امید دلا رہے ہیں کہ چین کے ساتھ معاشی طور پر اس جوڑ کی وجہ سے ہمارے یہاں دودھ اور شہد کی نہریں کھدنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہر جگہ کام تیزی سے جاری ہے۔ کہیں انہتر فیصد، کہیں بہتر فیصد۔ کہیں بیلچہ چل رہا ہے، کہیں روڈ رولر۔ کہیں جوانوں کے لیے نوکریاں پک رہی ہیں اور کہیں مقامی کاروباری حلقوں کے لیے رال ٹپکانے والے تھال سج رہے ہیں۔
جنرل صاحب ماہر امید ہیں۔ خوش گمانی اور آس پیدا کرنا ان کا خاصہ ہے۔ ایسی گفتگو فرماتے ہیں کہ شام سحر اور دھوپ چھاؤں بن جاتی ہے۔ جب ان کے پاس ڈی جی آئی ایس پی آر کا عہدہ تھا تو آپریشن ضرب عضب پر غضب کی معلومات فراہم کیا کرتے تھے۔ وزیرستان کے چند اضلاع میں ہونے والے اس طویل عسکری آپریشن سے متعلق ان کے بیانیے سے دوسری جنگ عظیم کے معرکوں کا گماں ہوتا تھا۔
ہر آپریشن میں درجنوں دہشت گردوں کا صفایا اور پھر سینکڑوں کارروائیوں کے بعد ہزاروں کی تعداد میں جہنم واصل کیے گئے دشمنان ملک کے اعداد ایک وقت میں اتنے بڑھ گئے تھے کہ ان کا شمار کرنے کے لیے صحافیوں نے باقاعدہ کیلکولیٹر کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ مگر پھر بھی کامیابی کی رفتار کے مطابق رپورٹنگ نہ ہونے کی کسک باقی رہ جاتی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں ہلاک شدہ طالبان کی لاشیں بہرحال آج بھی ایک پہیلی ہیں۔ نہ جانے مارے جانے والے کہاں غائب ہو جاتے تھے؟
ضرب عضب سے متعلق جسم کو گرمانے والے طویل بیانیے کا ایک پہلو وزیرستان کو جنت بنانے کا خواب بھی تھا جس کو ہر روز حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ کبھی اس تباہ شدہ خطے سے شہد کی ایکسپورٹ کے پلان بنتے تھے، کبھی قیمتی دھاتوں کے کاروبار سے متعلق بریفنگ دی جاتی تھی، کبھی وزیرستان اور پرانے فاٹا کے دوسرے علاقے اس خطے کی تجارت کا مرکز بنا دیے جاتے تھے اور کبھی بین الاقوامی سیر و تفریح کا ایسا اڈہ کہ پیرس بھی حسد کرنے لگے۔
کچھ ایسے سنہرے خیال بلوچستان کے بارے میں بھی پیدا کیے گئے۔ یہاں سے کوئلہ، سونا، تیل اور نہ جانے کیا کیا نکل کر دنیا بھر میں پھیلنے کی امید افزا خبروں کا نہ تھمنے والا سیلاب تھا اور پھر ہر دوسرے ماہ وزیرستان اور بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں حتمی امن قائم کروایا جاتا تھا۔ ہر ہفتے ایک نیا دور شروع ہوتا تھا۔
اب ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم بطور قوم مشکل ترین مراحل میں ہمت کیوں نہیں ہارتے۔ ہمارے سامنے جب ایسے حسین امکانات اور ان پر تیزی سے ہونے والا کام بار بار رکھا جاتا ہے تو ٹوٹا ہوا دل جڑ جاتا ہے، امنگیں جاگ اٹھتی ہیں۔ زندگی کی رمق واپس آنے کے بعد دوڑنے بلکہ بھاگنے لگتی ہے۔
اب کرونا کے بدترین حملے کے بیچ لاک ڈاؤن کو عملاً ختم کر کے ہمیں یہ امید دلوائی گئی ہے کہ اللہ کے خاص فضل سے اس سے ہمیں وہ نقصان نہیں ہو گا جو دوسرے ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ کچھ خدشہ ہے کہ حالات بےقابو ہو سکتے ہیں بالخصوص جب دنیا کے اہم ادارے ہمارے حوصلوں کو شکست دینے کے لیے خوامخواہ سائنسی اور طبی حقائق پر مبنی انتباہ جاری کر رہے ہیں۔
اس چھوٹے پن کا کوئی علاج نہیں۔ دنیا کو تو ہماری مثال دینی چاہیے۔ پہلے ہم نے ایک ایسا لاک ڈاؤن ایجاد کیا جو حاضر بھی تھا اور غائب بھی۔ پھر اس میں نرمی کی باوجود اس کے کہ کبھی سختی ہوئی ہی نہیں۔ پھر ہم نے اس نہ نظر آنے والے لاک ڈاؤن جو سختی کے بغیر نرم ہو چکا تھا کو ختم بھی کر دیا مگر اس وعدے کے ساتھ کہ ہم اس کو دوبارہ بھی لگا سکتے ہیں۔
ویسے بھی کرونا ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ مرنے والے ہمارے اپنے شہری ہیں۔ کسی کو کیا کہ کتنے مرے ہیں؟ بس اتنے ہی ہیں جتنے ہم مان رہے ہیں۔ ضرورت پڑی تو ردو بدل کر دیں گے۔ بہت مسئلہ ہوا تو ٹیسٹ اور کم کر کے شرح انفیکشنز کم ترین سطح پر لے آئیں گے۔ اگر ہم اپنے روپے کی قدر میں اس قدر کمی کر سکتے ہیں تو شرح انفیکشنز و اموات کا کیا مسئلہ ہے؟
اگر خدا نخواستہ حالات بہت بگڑے تو ٹائیگر فورس کے ساتھ ڈاکٹر ثانیہ کی قیادت میں برقع پوش نشتر فورس کو میدان میں اتار دیں گے۔ ایک کرونا کو شکست دے گی اور دوسری غربت کو۔ حالات بھی قابو میں رہیں گے اور عوام شجر سے پیوستہ۔ اس طرح پاکستان پھلتا پھولتا رہے گا ان تمام شجور کی ٹھنڈی چھاؤں میں جن کو 2018 میں قومی شجرکاری کی مہم کے تحت زمین میں گاڑ کر موجودہ جنگل بنایا گیا تھا۔
Must Read Urdu column Dr Sania ki Mehnat aur shahjar e umeed By Talat Hussain
Source: Independent URDU