ڈراپ سین؟ – حسن نثار

hassan-nisar

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دعائوں اور دوائوں میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے لیکن یادداشت میں بھی کچھ کمی ہو جاتی ہے اس لئے ڈھنگ سے یاد نہیں کہ کتنے دن پہلے لکھا تھا ’’اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ پرندہ اکیلا پرواز کرتا ہے یا پنجرے سمیت‘‘۔ جیو کے ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں بھی عرض کیا تھا کہ کاروباری لوگ سقراط اور سپارٹکس کیا، بھٹو بھی نہیں ہوتے لیکن اپنا اپنا ’’جدہ‘‘ ضرور رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ میں پیش گوئیوں وغیرہ کا کریڈٹ ہرگز نہیں لے رہا کیونکہ ہر نتھو پھتو جان چکا تھا کہ احتساب کا کون سا باب لکھا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کا مسئلہ بھی ضرور ہو گا لیکن اس سارے جگاڑ میں عوام کے پلیٹ لیٹس خوامخواہ تہس نہس، اوپر نیچے ہوتے رہے لیکن خیر ہے کیونکہ سوہنی دھرتی پر اقتصادیات سے اخلاقیات تک، جمالیات سے لے کر ماحولیات تک کون سی شے کے پلیٹ لیٹس مستحکم ہیں۔

آج 9نومبر 2019ء کی صبح یہ کالم لکھنے بیٹھا تو چاندی جیسی صبح پر سونے جیسی رفیع آواز اوورلیپ کر رہی ہے ’’چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ‘‘ مثالیت پسندی کو گولی ماریں، عملیت پسندی، حقیقت پسندی ہی زندگی کا اصل راز ہے۔

ٹیپو سلطان کے شیر کی ایک روزہ زندگی محاورے میں ہی اچھی لگتی ہے، عملی زندگی میں تو گیدڑ کی سو سالہ زندگی پر رشک آتا ہے۔ ’’یار زندہ صحبت باقی‘‘ میں بھی زندگی اولین اکلوتی شرط ہے۔جان ہے تو جہان ہے۔

دکان ہے تو سامان ہے یا سامان ہے تو دکان ہے۔پاکستان ہے تو پھر ’’امکان‘‘ ہے۔اللّٰہ عقل سلیم سے نوازے ہمارے دوست اسلم گورداسپوری کو جس نے لوگوں کے بچے بگاڑنے کا لائف لانگ ٹھیکہ لے رکھا ہے ورنہ ایسا خودکشیانہ شعر…. توبہ توبہزندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کیلئےعہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیںہر قیمت پر گزارہ اور ہر بات گوارہ دراصل اک خاص مائنڈ سیٹ ہے جس میں سوائے DNA کے کسی کا کوئی قصور نہیں۔

آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ ’’مجھے ہر قیمت پر فلاں شے چاہئے۔‘‘ دھج سے مقتل میں جا کر اس کی شان سلامت رکھنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ زندگی جیسی انمول شے کی بھی ایک قیمت ہے جس سے زیادہ مانگنے والے کو ہر وہ شخص دھتکار دیتا ہے جو جان کو فیض احمد فیض کی طرح ’’آنی جانی‘‘ شے سمجھتا ہو۔جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہےیہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیںلیکن تصویر کا اک دوسرا رخ بھی تو ہے۔

’’جس دھج سے کوئی لندن کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘میرا ذاتی ووٹ اس دوسرے سکول آف تھاٹ کیلئے ہے اور اس بات کی بھی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ میرے اس ووٹ کو عزت ملتی ہے یا بے عزتی لیکن اس بات پر تھوڑی سی حیرت ضرور ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ والے سوال کا جواب لئے بغیر ہی پی آئی اے سے نکل لئے لیکن پھر وہی بات کہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ اس پر مجھے بچپن میں پڑھی اک حکایت یاد آ گئی تو وہ بھی شیئر کرتا چلوں۔

حضرت سلیمانؑ کے پاس ان کا کوئی مہمان بیٹھا راز و نیاز میں مصروف تھا کہ اک وزیر حاضر ہوا۔ حضرت سلیمانؑ نے اشارے سے قریب بیٹھنے کا حکم دیا تو مہمان وزیر کی طرف دیکھ کر حیرت زدہ سا ہو گیا۔ بظاہر وہ حضرت سلیمانؑ سے محو کلام رہا لیکن کن اکھیوں سے مسلسل وزیر کو تکتا بلکہ گھورتا رہا۔

ملاقات ختم ہوئی، مہمان رخصت ہوا تو وزیر نے حضرت سلیمانؑ سے پوچھا ’’آقا! یہ کون صاحب تھے؟‘‘ فرمایا ’’انسانی شکل میں ملک الموت تھے‘‘ وزیر نے کانپتے ہوئے کہا ’’حضور! آپ نے غور فرمایا مجھے مسلسل کیسی نظروں سے تکے جا رہے تھے اس لئے کرم فرمایئے اور ہزاروں میل دور مجھے فلاں جزیرے پر بھجوا دیجئے‘‘ حضرت سلیمانؑ نے مان رکھتے ہوئے چشم زدن میں اس دور افتادہ جزیرہ پر بھجوا دیا۔

وہاں پہنچے ہی تھے کہ کچھ دیر بعد ملک الموت سے سامنا ہوا تو انہوں نے کہا ’’میں تو کل تجھے دربار سلیمانی میں دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ میں نے تو آج اس جزیرہ سے تجھے اپنے ساتھ لے جانا تھا اور اتنا فاصلہ تو تم سالوں میں بھی طے نہیں کر سکتے لیکن دیکھ لو تمہیں کس طرح یہاں پہنچا دیا گیا۔‘‘تاریخ انسانی میں حقیقی ہیروز صرف وہی ہیں جو زندگی موت سے ماورا رہے اور کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کر دیا۔

پھر وہی یادداشت کا مسئلہ کہ بالکل یاد نہیں آ رہا، ہالی وڈ کی کس فلم کا مکالمہ ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا’’کسی بزدل کی بیوی ہونے سے کسی بہادر کی بیوہ ہونا بدرجہا بہتر ہے‘‘۔بارکلے نے بھی کیا بات کی ہے کہ”THE AWFUL IMPORTANCE OF THIS LIFE IS THAT IT DETEMINES ETERNITY.”یہ موت سے ماورا زندگی کی طرف اشارہ ہے اور خوب ہے۔

زندگی میں کوئی ایسا کام جس کی زندگی تمہاری ذاتی زندگی سے ہزاروں گنا لمبی ہے مثلاً ایڈیسن کی دی ہوئی بجلی۔اور اب ذرا ہلکی پھلکی موسیقی۔ WOODY ALLENنے اپنے مسخرے پن میں موت کے بارے اک ناقابل فراموش جملہ بولا تھا جس کا اناڑیانہ سا ترجمہ کچھ یوں ہو گا’’میں نہ موت کی پروا کرتا ہوں نہ اس سے ڈرتا ہوں بس اتنی سی بات ہے کہ جب جہاں یہ منحوس موجود ہو تب اس وقت مجھے وہاں ہرگز نہیں ہونا چاہئے‘‘۔

POGOنے کہا”I HATE DEATH, IN FACT, I COULD LIVE FOREVER WITHOUT IT.”میرا اپنا اک جملہ ہے’’وجہ مرگ اور جگہ مرگ بھی اک تعارف ہے‘‘بات کہاں سے چلی تھی کہاں آ پہنچی۔ خلاصہ صرف یہی ہے کہ ’’بھائی جان!جان ہے تو جہان ہے‘‘ لیکن جس پلان کی افواہ، بدبو یا خوشبو پھیل رہی ہے، وہ ’’فول پروف‘‘ نہیں اور ہر بار ’’فلوک‘‘ لگنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں اور’’ علاج‘‘ کے دوران اگر عمران خان یا یوں کہہ لیجئے کہ PTI ملک کو پٹڑی پر چڑھانے میں روز روشن کی طرح کامیاب ہو گئی تو ’’ابن فلاں‘‘ اور ’’بنت فلاں‘‘ قسم کے خوابوں کا کیا ہو گا؟

مطلب یہ کہ پورے ڈرامے نہیں….یہ صرف ایک ایکٹ کا ڈراپ سین ہے۔چل اڑ جارے پنچھیاور ہماری دعا ہے کہ آپ پھر ’’جدہ‘‘ سے واپس آئیں، چوتھی بار بھی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں پھر وہی ’’مزید حماقتیں‘‘ دہرائیں، دہراتے چلے جائیں، چلے جائیں اور ایک بار پھر ’’بے نظیر‘‘ تخت پر جلوہ افروز نظر آئیں اور پھر کوئی ’’بلاول‘‘ علیٰ ہذاالقیاس۔’’منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے‘‘

Source: Jung News

Read Urdu column Drop scene by hassan nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.