دعا – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

میرے پائوں زمین پر گڑھ کر رہ گئے‘ میں آگے بڑھناچاہتا تھا لیکن مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے جسم سے ساری توانائی نکل گئی اور میں نے زبردستی ایک قدم بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی تومیں جلے‘ سڑے اور سوکھے درخت کی طرح زمین پر آ گروں گا‘ میں چپ چاپ‘ خاموشی سے ان کے پاس بیٹھ گیا۔

ان کی نظریں وہاں گڑھی تھیں جہاں زمین اور آسمان کے کنارے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور سورج بنقشی رنگ کی لکیر بن کر افق پر بکھر جاتا ہے اور انسان اس لکیر کو آہستہ آہستہ اندھیرے کی چادر میں دفن ہوتا ہوا دیکھتا ہے‘ ان کی نظریں افق پرتھیں‘ ہاتھ دعا کے لیے اٹھے تھے اور ہونٹ ساکت تھے‘ ان کے چہرے کی ہر سلوٹ اس وقت ایک التجا‘ ایک پکار اور ایک چیخ دکھائی دے رہی تھی‘ میں نے آج تک ہزاروں لاکھوں چہرے دیکھے ہیں لیکن یہ میری زندگی کا پہلا ایسا چہرہ تھا جو ٹھوڑی سے لے کر ماتھے کی آخری سرحد تک ایک دعا‘ ایک التجا محسوس ہوتا تھا۔

اس چہرے پر لکھا تھا یہ چہرہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اسے مایوس نہیں لوٹاتی‘ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن وہ میرے وجود سے لا تعلق چپ چاپ افق پر نظریں جمائے بیٹھے رہے ۔ہم سب ابلاغ کے لیے زبان کے محتاج ہیں‘ ہمیں پانی مانگنے سے لے کر ماں کی موت کے دکھ تک اپنے ہر جذبے‘ اپنے ہر احساس اور اپنی ہر ضرورت کے لیے کوئی نہ کوئی زبان چاہیے۔

مردوں کے کان پوری زندگی ایسی عورتوں کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں جو انھیں یہ بتا سکیں ’’میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی‘‘ اور عورتیں ہر دو منٹ اور اکتیس سیکنڈ بعد اپنے مردوں کی طرف اس حسرت سے دیکھتی ہیں کہ یہ انھیں ایک بار پھر یقین دلائے ’’میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تم سے محبت کرتا ہوں‘‘ اور اگر مرد ہر دو منٹ اور اکتیس سیکنڈ بعد انھیں یہ بتا بھی دے تو ان کی تسلی نہیں ہوتی اور یہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‘ ہونٹوں کو گول بنا کر اور آواز کو لچکا مٹکا کر پوچھتی ہیں ’’کتنی‘ تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے‘‘۔

یہ جذبے شاید ہیں ہی ایسے! اللہ تعالیٰ نے آزادی‘ محبت اور نفرت کو پیاس کی کوکھ سے پیدا کیا ہے شاید اسی لیے آزادی‘ محبت اور نفرت کتنی ہی زیادہ ہو جائے انسان کی تسلی نہیں ہوتی‘ یہ مزید آزادی‘ یہ مزید محبت اور یہ مزید نفرت کرنا چاہتا ہے۔

ہم سب لفظوں کے محتاج ہیں‘ ہمیں انسانوں سے مخاطب ہونے کے لیے لفظ چاہیے ہوتے ہیں لیکن دنیا میں ایک ایسی زبان بھی ہے جو لفظوں کی محتاجی سے آزاد ہے‘ جس میں اشارے‘ گرائمر‘ فقرے اور محاورے نہیں ہیں اور جس میں کوئی آواز نہیں ہوتی‘ ہم اس زبان کو آفاقی زبان کہہ سکتے ہیں‘ یہ زبان دنیا کا ہر جان دار بولتا بھی ہے اور سمجھتا بھی اور جان داروں کو یہ زبان سیکھنے کے لیے کسی سولائزیشن‘ کسی سماج‘ کسی اسکول یا کسی یونیورسٹی کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ جونہی پہلی سانس لیتے ہیں یہ زبان خود بخود ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے اور آخری سانس تک ان کا ساتھ دیتی ہے‘ یہ زبان بنیادی طور پر اللہ کی زبان ہے۔

اللہ تعالیٰ اس زبان سے اپنی مخلوق سے مخاطب ہوتا ہے اور مخلوق بھی اسی زبان کے ذریعے اللہ تعالیٰ تک اپنی درخواستیں پہنچاتی ہے‘ آپ نے کبھی غور کیا آپ جانوروں کو دیکھ کر ان کے مسائل‘ ان کی تکلیفوں کا اندازہ کیسے کر لیتے ہیں‘ آپ کو کیسے معلوم ہوتا ہے کون سا کوا پیاسا ہے اور کس چیل کو بوٹی چاہیے اور گلی کے کتے کو بخار ہے اور بلی کو سردی لگ رہی ہے‘ آپ نے کبھی غور کیا آپ کیڑے مکوڑوں کو دیکھ کر ان کے دکھوں اور ان کی خواہشوں کا اندازا لگالیتے ہیں اور آپ جنگلوں سے گزرتے ہوئے پودوں‘ درختوں اور بِیلوں کو دیکھ کر ان کی کیفیات جانچ سکتے ہیں۔

آپ کو یہ جاننے میں چند سیکنڈ لگتے ہیں کہ جنگل کا کون سا پودہ خوش حال ہے‘ کون ساصحت مند اور کون سا دکھی ہے۔ آپ کبھی دوسرے جان داروں کو اس نظر سے دیکھ کر دیکھیے‘ آپ کو ہر جان دار کچھ نہ کچھ کہتا دکھائی دے گا اور آپ اس کی زبان بھی سمجھ رہے ہوں گے اور جان داروں کے درمیان یہ رابطہ وہ آفاقی زبان ہے جو اللہ تعالیٰ کی زبان ہے اور اللہ تعالیٰ اس زبان کے ذریعے اپنی مخلوق سے مخاطب بھی ہوتاہے اور ہم جان دار اس کے ذریعے اسے اپنے دکھ بھی بتاتے رہتے ہیں۔

وہ اور ان کا چہرہ آفاقی زبان سے بہت کچھ کہہ رہا تھا اور اس زبان نے میرے قدم جکڑ لیے‘ میں ان کے پاس بیٹھ گیا‘ مجھے محسوس ہوا وہ اس آفاقی زبان کے پروفیسر ہیں اور اس وقت اس زبان کے ذریعے کائنات کی خفیہ طاقتوں کے ساتھ ان کا رابطہ قائم ہے‘ وہ بڑی دیر تک ہاتھ پھیلا کر افق کی مدہم ہوتی سرخ لکیر پر نظریں جمائے بیٹھے رہے اور میں چپ چاپ انھیں دیکھتا رہا‘ افق کی لکیر اندھیرے میں تحلیل ہو گئی تو انھوں نے جھرجھری لی‘ چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

میری طرف مڑے اور مسکرا کر بولے ’’ہم سب اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) صرف عربی زبان سمجھتا ہے چنانچہ ہم زیادہ سے زیادہ عربی دعائیں رٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب اس کوشش میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو اپنے عربی لہجے‘ الفاظ کے ذخیرے اور بھاری بھر کم آواز سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ہم گویوں کی طرح گا کر دعائیں کرتے ہیں یا پھر فقیروں کی طرح گڑ گڑا کر مانگتے ہیں اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں فرشتوں کے پاس سعودی عرب کی شہریت نہیں اور انھوں نے کسی جامعہ سے شریعت کا کورس بھی نہیں کیا اور دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے جرثومے سے لے کر ہاتھی جتنے بڑے جانور بھی عربی نہیں سمجھتے اور کسی پودے‘ کسی درخت اور کسی بِیل کو عربی نہیں آتی لیکن اس کے باوجود یہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ سے شکایت بھی کرتی ہیں اور دعا بھی‘‘۔

میں یہی بات معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس بیٹھا تھا اور وہ منہ کھولے بغیر میری بات سمجھ گئے تھے‘ وہ بولے ’’اللہ تعالیٰ نے جب روحیں پیدا کی تھیں تو اس نے انھیں وہ آفاقی زبان بھی ودیعت فرما دی تھی جس کے ذریعے جان دار بغیر کچھ بولے‘ بغیر کچھ کہے ایک دوسرے سے بھی رابطہ کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی اور یہ وہ زبان ہے جس کی مدد سے مائیکرو اسکوپک جرثومے بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کر سکتے ہیں‘‘۔

وہ رکے اور نرم آواز میں بولے ’’دنیا میں کسی نے کبھی کسی نبی کو اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے نہیں دیکھا تھا‘ کوئی نبی عبرانی‘ عربی یا فارسی میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب نہیں ہوتا تھا‘ یہ سب اس آفاقی زبان میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ انھیں اس زبان میں جواب دیتا تھا اور دنیا کے تمام ولی‘ قطب اور ابدال بھی اسی زبان کے ماہر ہوتے ہیں‘ یہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور لوگوں کی روحیں آفاقی زبان کے ذریعے اپنے اپنے جسموں کی ساری کیفیات انھیں بتا دیتی ہیں اور یوں یہ لوگ ان لوگوں کے ماضی‘ حال اور مستقبل سے واقف ہو جاتے ہیں اور رہ گئی دعا تو ۔۔۔‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور نرم آواز میں بولے ’’انسان جب تک اس آفاقی زبان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا‘‘۔

میں نے بے تاب ہو کر ان سے پوچھا ’’لیکن یہ زبان ہوتی کیسی ہے؟ ہم اسے سمجھ یا سیکھ کیسے سکتے ہیں‘‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’یہ وہ زبان ہوتی ہے جس میں چیونٹی حضرت سلیمان ؑ سے مخاطب ہوتی ہے اور حضرت سلیمان ؑ اس کا شکوہ سن کر اپنے لشکر کا رخ بدل دیتے ہیں‘ یہ وہ زبان ہوتی ہے جس کے ذریعے مینڈک اللہ تعالیٰ سے خشک سالی کا شکوہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا سن کر آسمانوں کے شاور کھول دیتا ہے‘ یہ وہ زبان ہوتی ہے جس کے ذریعے پتھر کے کیڑے اللہ سے رزق مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے پتھر کے پیٹ کو نرم کر دیتا ہے اور یہ وہ زبان ہوتی ہے جس کے ذریعے ریشم کے کیڑے اللہ تعالیٰ سے تخلیق کی توفیق مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ریشم کی فیکٹری بنا دیتا ہے‘‘۔

میں ان کی باتوں کی بارش میں بھیگتا چلا گیا‘ وہ بولے ’’ہم سب بھی اس زبان کے ماہر ہوتے ہیں لیکن ہم اپنی اپنی زبانوں‘ اپنے اپنے لفظوں اور اپنے اپنے فقروں کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں‘ ہم اس آفاقی زبان کو مترنم دعائوں میں دفن کر دیتے ہیں چنانچہ ہم پوری زندگی اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہتے ہیں لیکن قدرت کی طرف سے قبولیت کا پیغام نہیں آتا‘ کیوں نہیں آتا؟ اس لیے نہیں آتا کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا رب (نعوذ باللہ) لفظوں کا محتاج ہے اور ہم جب تک ماہر وکیل کی طرح اپنا مقدمہ اس کی عدالت میں پیش نہیں کریں گے وہ اس وقت تک ہماری طرف توجہ نہیں دے گا‘ ہم کتنے بے وقوف ہیں؟

ہم سے وہ مینڈک ہزار درجے بہتر ہیں جن کی دعا سن کر اللہ تعالیٰ بارش برسا دیتا ہے اور گندم کے وہ بیج لاکھ درجے اچھے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ مٹی میں نمی دے کر زندہ ہونے کا فخر عنایت کرتا ہے‘‘ وہ رکے اور نرم آواز میں بولے ’’آئو میں تمہیں دعا کرنے‘ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونے اور اس پوری کائنات کو آفاقی زبان میں گفتگو کرتے دکھاتا ہوں‘‘ ۔

انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا‘ مجھے دو زانو ہو کر بیٹھنے کا حکم دیا اور فرمایا ’’اپنے آپ کو چند لمحوں کے لیے لفظوں سے خالی کر لو‘ تمہارے ذہن‘ تمہارے دل میں کوئی لفظ نہیں آنا چاہیے‘ نظریں افق پر جمائو اور اپنے دھیان کو اپنے دل پر فوکس کر لو‘ تمہیں اپنے دل سے روشنی کی ایک ’’بیم‘‘ نکلتی دکھائی دے گی‘ اپنی دعا کو اس ’’بیم‘‘ میں ڈال دو اور پھر جواب کا انتظارکرو‘ تمہیں اللہ تعالیٰ کا جواب ای میل سے پہلے موصول ہو جائے گا‘‘ میں نے حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا اور مجھے اس وقت معلوم ہوا انسان جوں جوں روحانی ترقی کرتا ہے یہ خاموش کیوں ہو جاتا ہے‘ یہ لفظوں سے دور کیوں ہو جاتا ہے۔

Source

Must Read urdu column DUA by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.