ارنسٹ ہیمنگ وے اور ہوانا – جاوید چوہدری
سینٹرل ہوانا کے دو حصے ہیں‘ پہلا حصہ خلیج نما ہے‘ سمندر نے زمین کاٹ کاٹ کر شہر کے سامنے ایک وسیع دیوار بنا دی ہے‘ یہ پہاڑی نما دیوار ہے‘ اس کی پشت پر گہرا سمندر ہے‘دیوار کی وجہ سے شہر کے سامنے درمیانی سائز کی خلیج (BAY) بن گئی‘ آپ اگر شہر کے پرانے حصے میں کھڑے ہوں تو آپ کی پشت پر ہوانا کا پرانا حصہ ہو گا‘ سامنے پانی اور اس کے بعد چھوٹی سی پہاڑی ہو گی‘ پہاڑی اور خلیج یہ دونوں ہوانا کا قدرتی تحفظ ہیں‘ شاید اسی لیے اس علاقے کو مورو (دیوار) کہا جاتا ہے۔
مورو کے اوپر پانچ سو سال پرانا قلعہ‘ قلعے کے ساتھ فوجی چھاؤنی‘ حضرت عیسیٰ ؑ کا طویل قامت سنگی مجسمہ اور چی گویرا کا گھر ہے‘ ہمیں یہ چاروں دیکھنے کا موقع ملا‘ قلعہ شان د ار اور مضبوط ہے‘ فصیل پر توپیں لگی ہیں‘ یہ ہوانا کا مضبوط ترین ڈیفنس تھا‘ آج بھی ہر رات نو بجے یہاں مارچ پاسٹ ہوتا ہے جس کے آخر میں توپ چلا کر شہریوں کو بتایا جاتا ہے سونے کا وقت ہو چکا ہے‘ آپ اب سو جائیں‘ قلعے کی دیوار کے ساتھ کیوبا کے مشہور زمانہ میزائل رکھے ہیں‘ سیاح آتے ہیں اور میزائلوں کی زیارت کرتے ہیں۔
چی گویرا کا گھر حضرت عیسیٰ ؑکے مجسمے کے ساتھ ہے‘ یہ سنگل اسٹوری لیکن بڑا اور سادہ سا بنگلہ ہے‘ چی گویرا کیوبا میں انقلاب کے بعد اس جگہ رہائش پذیر ہوئے‘ عمارت اب میوزیم بن چکی ہے‘ دیواروں پر چی گویرا کی تصویریں لگی ہیں اور وہ ان تصویروں میں اپنے ماتھے پر رومال باندھ کر منہ میں سگار ٹھونس کر سیاحوں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں‘ چی گویرا کا ٹائپ رائٹر‘ کھانے اور لکھنے کی میز اور بستر بھی اسی میوزیم میں رکھا ہے‘ بنگلہ شہر کی طرف خلیج کے کنارے ہے اور وہاں سے پورا شہر دکھائی دیتا ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑکا 66فٹ اونچا مجسمہ بنگلے کے پہلو میں ہے‘ بنگلہ اور مجسمہ دونوں ہر وقت شہر کو گھورتے رہتے ہیں‘ شہر کا دوسرا حصہ اولڈ ہوانا کہلاتا ہے‘ گلیاں پتھریلی‘ سیدھی اور صاف ستھری ہیں اور ان کی دونوں سائیڈز پر تین چار منزلہ عمارتیں ہیں‘ تمام عمارتیں باہر سے سپاٹ دکھائی دیتی ہیں لیکن ہم جوں ہی دروازہ پار کر کے اندر داخل ہوتے تھے اندر کا منظر ہماری بینائی کھینچ لیتا تھا‘ ہر عمارت میں صحن تھا اور صحن میں فوارے کے اردگرد بیلیں تھیں اور ان سے سرخ اور پیلے پھول لٹک رہے تھے۔
صحن‘ فوارہ‘ بیلیں اور پھول کیوبا میں کامن ہیں‘ اولڈ ہوانا میں پانچ سو سال پرانا چرچ‘ اوپیرا ہاؤس‘ تین سو سال پرانے ہوٹل اور ویلاز ہیں اور ہر عمارت کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ سگار ہوانا کی پہچان ہے لیکن ہم یہ جان کر حیران رہ گئے کیوبا کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگ سگار نہیں پیتے‘ زیادہ تر سگار ایکسپورٹ ہو جاتے ہیں‘ کوہیبا دنیا کا مشہور ترین برینڈ ہے‘ یہ بہت مہنگا ہے‘ 35 ڈالر میں ایک سگار ملتا ہے۔
کوہیبا کی فیکٹری اور آؤٹ لیٹ اولڈ ہوانا میں ہے اور ہمیں اس کے وزٹ کا موقع بھی ملا‘ سگار کے بارے میں مشہور ہے کیوبن خواتین انھیں اپنی رانوں پر رکھ کر رول کرتی ہیں لہٰذا ہر سگار میں کسی نہ کسی حسینہ کے بدن کی خوشبو ہوتی ہے‘ یہ بات مجھے غیر حقیقی سی محسوس ہوئی تاہم یہ درست ہے سگار ہاتھ سے بنایا جاتا ہے‘ سگار بنانے والے لوگ تمباکو کے پتے رول کرتے جاتے ہیں اور آخر میں سگار بن جاتے ہیں‘ سگار پینے کا ایک خاص ڈھنگ ہوتا ہے‘ دھوئیں کو پھیپھڑوں سے دور رکھا جا تا ہے‘ سگار پینے والے دھوئیں کو منہ میں گھما کر باہر اگل دیتے ہیں اگر خدانخواستہ دھواں پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
پورے شہر میں کافی شاپس اور ریستورانوں کا جال بچھا ہے‘ حکومت کافی شاپس اور ریستورانوں کو سب سڈی دیتی ہے‘ گھر کا کھانا مہنگا اور ریستورانوں کا سستا ہوتا ہے لہٰذا ون اسٹار سے لے کر فائیواسٹار تک ہوانا میں ہر قسم کا ریستوران ہے‘ کیوبن لوگ گانے بجانے کے رسیا ہیں‘ تمام ریستورانوں اور کافی شاپس میں لائیو میوزک کا بندوبست ہوتا ہے‘ یہ لوگ گلیوں میں بھی گاتے بجاتے رہتے ہیں‘ ڈانس ان کی قومی عادت ہے‘ ان کے پادری تک رقص کرتے ہیں‘ ہم کیوبا کے وزٹ کے دوران جہاں بھی گئے ہمیں وہاں کچھ اور ملا یا نہیں ملا لیکن گانے‘ بجانے اور ناچنے والے لوگ ہر جگہ ملے۔
یہ لوگ شراب بھی بہت پیتے ہیں اور یہ توہم پرستی کا شکار بھی ہیں‘ خواتین اپنا بیگ فرش پر نہیں رکھتیں‘ ان کا خیال ہے فرش پر پرس رکھنے سے دولت کی دیوی ناراض ہو جاتی ہے‘ یہ لوگ راکنگ چیئر سے بڑی احتیاط سے اٹھتے ہیں‘ ان کا خیال ہے اگر اٹھنے کے بعد راکنگ چیئر آگے پیچھے ہلنے لگے تو چیئر کا مالک بہت جلد دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے‘ شادی بیاہ پر دولہے کے دوست اس کے ساتھ ناچتے ہیں اور اسے سلامی دیتے ہیں‘ دلہا یہ رقم ہنی مون پر خرچ کرتا ہے۔
شادی پر دلہے کو رقم نہ دینا برا خیال کیا جاتا ہے‘ یہ لوگ نیو ایئر پر کاغذ اور پرانے کپڑوں کے مجسمے جلاتے ہیں‘ ان کا خیال ہے اس سے نیال سال پرانے سال سے بہتر ہوجاتا ہے‘ یہ بیس بال کے دیوانے ہیں‘ اس کو کیوبا میں کنگ کہا جاتا ہے‘ ملک میں انٹرنیشنل لیول کی 16 ٹیمیں ہیں‘ سالسا ڈانس کیوبا میں ایجاد ہوا تھا لہٰذا یہ اس کے ایکسپرٹ ہیں‘ کیوبا کا سینڈوچ بھی بین الاقوامی حیثیت رکھتا ہے‘ ہوانا شہر چوبیس گھنٹے محفوظ سمجھا جاتا ہے‘ سڑکوں اور گلیوں میں رات کے وقت بھی پولیس یا چوکی دار نظر نہیں آتے لیکن لوگ بے خوف باہر پھرتے رہتے ہیں‘ پلایا (ساحل) کا علاقہ امیروں کا علاقہ ہے وہاں ایکڑوں پر مشتمل بڑے بڑے گھر ہیں اور ان گھروں کے باسی کمیونسٹ ملک میں بھی عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
خواتین سیاحوں کو پسند کرتی ہیں‘ یہ گلی میں چلتی پھرتی ’’چیکی چیکی‘‘ کہتی سناتی دیتی ہیں‘ ہم شروع میں اس آواز پر حیرت سے ان کی طرف دیکھتے تھے لیکن جب اس کا مطلب معلوم ہوا تو ہم یہ سن کر شرما جاتے تھے اور خواتین قہقہہ لگا کر ہم لوگوں کو دیکھتی تھیں‘ شہر کا انقلاب اسکوائر بہت بڑا اور مشہور ہے‘ یہ اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرح ہے لیکن سائز میں اس سے کئی گنا بڑا ہے‘ فیڈل کاسترو اور چی گویرا نے اسی چوک میں انقلاب کا پہلا جشن منایا تھا‘ اسکوائر کے دائیں بائیں اونچی عمارتیں ہیں اور ان پر کاسترو اور چی گویرا کی تصویریں لگی ہیں‘ سڑکوں پر رش نہیں ہوتا‘ ہم جب بھی باہر نکلے ہمیں محسوس ہوا جیسے آج شہر میں قومی تعطیل ہے۔
یہ شاید کم گاڑیوں کا کرشمہ تھا‘ لوگ بھی شام سے پہلے گھروں سے نہیں نکلتے اور نو بجے کے بعد چپ چاپ گھر واپس لوٹ جاتے ہیں‘ گلیوں میں صرف سیاح رہ جاتے ہیں‘ لوگ فیشن نہیں کرتے‘ خواتین بھی میک اپ نہیں کرتیں لیکن یہ اس کے باوجود خوب صورت ہیں‘ مجسمے بنانے کے شوقین ہیں‘ ہمیں ہوانا کے ہر چوک‘ ہر گلی میں کسی نہ کسی کا مجسمہ دکھائی دیا‘ صفائی کے خبط میں مبتلا ہیں‘ تنکا تک نیچے نہیں گرنے دیتے اور موسم گرم ہے‘ ہم ہاف سلیو میں پھرتے رہے‘ مئی‘ جون اور جولائی میں گرمی زیادہ ہو جاتی ہے‘ جنوبی امریکا میں سردی کا موسم نہیں آتا شاید اسی لیے یہاں کے پھل میٹھے‘ پھول خوشبودار اور کافی کڑوی ہوتی ہے۔
دنیا کا مشہور ادیب اور صحافی ارنسٹ ہیمنگ وے ہوانا کی محبت میں مبتلا تھا‘ وہ 1928میں پہلی بار ہوانا آیا اور پھر ہوانا سے نکل نہیں سکا‘ وہ شروع میں شہر کے قدیم علاقے میں امباس مونداس(Ambos Mundos) ہوٹل میں رہائش پذیر رہا‘ ہوٹل کی پانچویں منزل پر اس کا کمرہ تھا‘ وہ اس کمرے میں پورا سال رہا‘ آج وہاں اس کے نام سے میوزیم بن چکا ہے‘ گلی کے آخر میں کیفے فلوریڈا تھا‘ وہ روز شراب نوشی اور کافی کے لیے اس کیفے میں آتا تھا اور بار پر روزانہ ایک خاص سیٹ پر بیٹھتا تھا‘ کیفے کی انتظامیہ نے اب اس کی خاص جگہ پر کانسی کا مجسمہ لگا دیا ہے‘ لوگ روز آتے ہیں اور اس مجسمے کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں‘ فلوریڈا قدیم کیفے ہے۔
1817 میں بنا اور آج دو سو سال بعد بھی اسی آن‘ بان اور شان کے ساتھ چل رہا ہے‘ ہم نے ایک شام اس کیفے میں ارنسٹ ہیمنگ وے کے مجسمے کے ساتھ گزاری‘ ہمینگ وے بعدازاں شہر کے مضافات میں دس ایکڑ کے فارم ہاؤس میں شفٹ ہو گیا تھا‘ اس نے وہ فارم ہاؤس خرید لیا اور 21 سال اس میں مقیم رہا‘ ہیمنگ وے نے چار شادیاں کی تھیں‘ اس کی دوبیگمات اس فارم ہاؤس میں باری باری اس کے ساتھ رہیں‘ اس کی وہ مشہور زمانہ بوٹ بھی اس فارم ہاؤس میں موجود ہے جس پر سفر کے دوران اس کے ذہن میں ’’اولڈ مین اینڈ سی‘‘ کا آئیڈیا آیا تھا اور اس نے یہ ناول لکھ کر دنیا کو ششدر کر دیا تھا‘ ہیمنگ وے کا بنگلہ پہاڑی ویلا ہے۔
اس میں دو دو سو سال پرانے اونچے درخت ہیں اور ان درختوں کے درمیان اس کا ٹینس کورٹ‘ نہانے کا تالاب‘ باربی کیو ایریا اور بیٹھنے کی جگہیں ہیں‘ اس ویلا میں اپنے دور کے سیکڑوں اہم لوگ آئے اور ہیمنگ وے کے ساتھ رہے‘ ہیمنگ وے کے لباس‘ سیکڑوں کتابیں‘ اس کے ماسٹر پیسز کے اسکرپٹ اور عظیم ٹائپ رائٹر آج بھی وہاں اس کا انتظار کر رہا ہے‘ ہمینگ وے 1960 میں انقلاب کے بعد ہوانا چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا لیکن وہ اس شہر اور اپنے گھر کو کتنا مس کرتا تھا آپ اس کا اندازہ اس کی موت سے لگالیجیے‘ اس نے ہوانا سے جانے کے ایک سال بعد اپنے فلیٹ میں خود کشی کر لی تھی‘ کاش اسے ہوانا چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو شاید وہ تمام ماسٹر پیس بھی دنیا میں آ جاتے جو مرنے تک ارنسٹ ہیمنگ وے کے ابلتے دماغ میں انگڑائی لیتے رہے تھے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Ernest Hemingway aur Havana By Javed Chaudhry