فیصل آباد میں نئی روایت – جاوید چوہدری
فیصل آباد کے لوگوں نے چودہ اگست کو ایک عجیب منظر دیکھا‘ شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا پولیس پروٹوکول سڑکوں پر تھا‘ ڈالفن فورس اور ٹریفک پولیس کے پچاس موٹر سائیکل تھے‘ ان کے پیچھے اسکواڈ کی گاڑیاں تھیں‘ ان کے پیچھے سجی سجائی بگھیاں تھیں‘ ان میں وی وی آئی پیز کی فیملیاں بیٹھی تھیں اور ان کے پیچھے پولیس کی ہارس فورس اور سائرن کی گاڑیاں تھیں‘ یہ قافلہ جہاں سے گزرتا تھا وہاں کھڑی پولیس فورس یونیفارم میں اسے سیلوٹ بھی کر رہی تھی اور قافلے کو راستہ بھی دے رہی تھی۔
فیصل آباد پولیس نے اس قافلے کو امریکی صدر اور سعودی شاہ سے زیادہ پروٹوکول دیا اور پورے شہر نے کھلی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا‘ یہ قافلہ فل پروٹوکول میں سی پی او ہاؤس پہنچا‘ پولیس اہلکار پھولوں کی پتیاں لے کر کھڑے تھے‘ بگھیاں جوں ہی ہاؤس میں داخل ہوئیں ان پر دونوں طرف سے گل پاشی ہوئی‘ سی پی او نے آگے بڑھ کر بگھی کا دروازہ کھولا‘ایک ایک مہمان کو سیلوٹ کیا اور اس سے ہاتھ ملایا‘ مہمانوں میں خواتین‘ بزرگ اور چھوٹے بچے تھے۔
سی پی او ان میں سے ہر شخص کے پاس چل کر گیا‘ اسے سلام کیا اور اس کا حال احوال پوچھا‘ مہمان سارا دن سی پی او ہاؤس میں رہے‘اس دن فیصل آباد کی ساری سول اور فوجی انتظامیہ وہاں تھی اور پورا دن ان وی وی آئی پیز کی خدمت کرتی رہی‘یہ مہمان کون تھے جنھیںپروٹوکول بھی ملا اور ان کی اتنی خاطر داری اور خدمت بھی ہوئی‘ یہ مہمان فیصل آباد ضلع کے108 پولیس شہداء کے خاندان تھے‘ ان میں دو رضا کار‘ 70 کانسٹیلز‘ 12 ہیڈ کانسٹیبلز‘ 9اے ایس آئی‘ 11 سب انسپکٹرز‘ دو انسپکٹرز‘ ایک ڈی ایس پی اور ایک شہید ایس پی کا خاندان تھا۔
ان خاندانوں کے سربراہ پولیس فورس کا حصہ تھے اور یہ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ڈیوٹی کے دوران شہید ہو گئے تھے‘ عمر سعید ملک اس وقت فیصل آباد کے نئے سی پی او ہیں‘ یہ آئیڈیا ان کا تھا‘ ان کا خیال تھا پولیس ملک کے ہر شخص کو پروٹوکول دیتی ہے لیکن یہ اپنے ان اہم ترین لوگوں کو بھول جاتی ہے جو ڈیوٹی کے دوران اپنی زندگی ہار گئے‘ حکومت اور فورس ان شہداء اور ان کے خاندانوں کو بھول جاتی ہے‘ یہ لوگ اور ان کے خاندان تمام وی آئی پیز سے بڑے وی وی وی آئی پیز ہیں‘ یہ نہ ہوں تو کوئی فورس چل سکتی ہے اور نہ ملک لہٰذا اگر پروٹوکول‘ سیلوٹ اور خدمت کا کوئی اصل حق دار ہے تو وہ یہ لوگ ہیں چناں چہ محمد سعید ملک نے ملک کا 75واں یوم آزادی پولیس شہداء کی فیملیوں کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا‘ پولیس نے تمام خاندانوں کے ساتھ رابطہ کیا۔
انھیں دعوت دی اور پولیس انھیں ان کے گھر سے عزت اور پروٹوکول کے ساتھ لے کر آئی‘ قافلہ تیار ہوا اور انھیں پورے پروٹوکول کے ساتھ سی پی او ہاؤس لایا گیا اور وہاں ان کا شاہی خاندان کی طرح استقبال ہوا‘ سی پی او نے سارا دن پوری پولیس فورس‘ ڈویژنل انتظامیہ اور اپنے شہداء کے خاندانوں کے ساتھ گزارا۔یہ بظاہر ایک چھوٹی سی خبر ہے اور یہ سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ تک پہنچی لیکن آپ یقین کریں میرے دل میں عمر سعید ملک کی عزت میں اضافہ ہو گیا‘ میں ان سے کبھی ملا نہیں لیکن یہ اس قسم کے کام کرنے کے ماہر ہیں‘ یہ اس سے قبل راولپنڈی میں تھے‘ انھوں نے یہاں پولیس شہداء کی یادگار بنائی اور یہ ڈی پی او وہاڑی اور سیالکوٹ بھی رہے اور یہ وہاں بھی شہید اہلکاروں کے بچوں کو اسکول چھوڑ کر آتے تھے۔
دنیا میں 13 قسم کی بے وفائیاں ہوتی ہیں لیکن سب سے بڑی بے وفائی اس شخص اور اس کے خاندان کو فراموش کر دینا ہے جس نے آپ‘ معاشرے یا ملک کے لیے جان دی ہو اور ہم بدقسمتی سے اس بے وفائی میں بہت آگے ہیں‘آپ نے کبھی سوچا فوج کے جوان اپنے کمانڈر کے حکم پر کیوں جان دے دیتے ہیں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں ہمارا ادارہ ہمیں اور ہمارے خاندان کو فراموش نہیں کرے گا‘میں اگر ڈیوٹی کے درمیان مر گیا تو میرے وہ سینئر جنھیں میں پوری زندگی سیلوٹ کرتا رہا وہ میری میت کو سیلوٹ بھی کریں گے‘ کندھا بھی دیں گے اور میرے بعد میرے بچوں اور خاندان کا خیال بھی رکھیں گے۔
یہ جانتے ہیں ان کا خاندان زندگی بھر شہید کے خاندان کی حیثیت سے معاشرے میں عزت پائے گا اور اگر کبھی کسی نے اس خاندان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی تو پورا ادارہ میرے خاندان کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا اور یہ وہ یقین ہے جو سرحد پر کھڑے جوان کو جان دینے اور جان لینے پر تیار کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پولیس سمیت کوئی بھی سول ادارہ اپنے شہداء کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا‘ آپ آئی بی‘ ایف آئی اے اور سول سروس کے دوسرے ادارے دیکھ لیجیے۔
ان میں چھوٹے اہلکار تو دور کولیگز بڑے افسروں کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہوتے‘ مرنے والا مر جاتا ہے اور محکمہ اسے اور اس کے خاندان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے‘ بزنس مین کمیونٹی‘ اسپورٹس‘ میڈیا‘ شوبز اور کارپوریٹ سیکٹر اس سے بھی بدتر ہیں‘ یہ اپنے ورکرز کی فوتگی کے بعد خاندان کو اس ماہ کی تنخواہ تک نہیں دیتے‘ آپ نے شاید ہی کسی غیرسرکاری محکمے کے بارے میں سنا ہو جہاں کسی مرحوم کولیگ کے خاندان کو اکاموڈیٹ کیا گیا ہو یا اس کے بچوں کی تعلیم‘ شادی اور روزگار کا بندوبست کیا ہو۔
جو مر گیا وہ پرانی سائیکل یا پرانی مشین کی طرح یادوں سے بھی باہر پھینک دیا گیا‘ بزنس مین کمیونٹی انتقال کے اگلے ہی دن اپنے ساتھی کے اثاثے خریدنا شروع کر دیتی ہے اور یوں چند برس میں ارب پتی خاندان سڑکوں پر خوار ہو رہا ہوتا ہے اور یہ اس کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں‘ مجھے پوری زندگی صرف ایک شخص ایسا ملا جس نے ایک مرحوم بزنس مین کی پراپرٹی یہ کہہ کر اونے پونے داموں خریدنے سے انکار کر دیا ’’وہ بے چارہ مر گیا‘ میں نے کل مر جانا ہے چناں چہ میں اس کے بچوں کے ساتھ زیادتی کیوں کروں؟‘‘ اس شخص نے بیوہ سے رابطہ کیا اور اسے بتایا ’’آپ کا پراپرٹی ڈیلر آپ کے ساتھ فراڈ کر رہا ہے۔
آپ کی پراپرٹی مہنگی ہے‘ یہ اسے آدھی قیمت میں بیچ رہا ہے‘ آپ اس سے جان چھڑا لیں‘‘ جب کہ مرحوم کے باقی دوست وہ پراپرٹی اونے پونے خریدنا چاہ رہے تھے‘سول سروس کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے اسسٹنٹ کمشنر کا کتا فوت ہوگیا تو پورا شہر اداس منہ بنا کر اس کے بنگلے پر پہنچ گیا لیکن جب اسسٹنٹ کمشنر کا اپنا انتقال ہوا تو خاندان اور مولوی کے علاوہ جنازے میں کوئی نہیں تھا‘ مرحوم کا اسٹاف بھی نئے اے سی کے استقبال کے لیے سڑک پر کھڑا تھا‘ہم لوگ اس قدر سنگ دل ہیں کہ جب بھی کوئی بااثر شخص فوت ہوتا ہے تو ہم فوری طور پر یہ دیکھتے ہیں کیا اس کے خاندان میں اس کے بعد کوئی بااثر شخص موجود ہے اگر ہو تو ہم اداس شکل بنا کر جنازے میں پہنچ جاتے ہیں ورنہ صرف فون پر تعزیت کر کے فارغ ہو جائیں گے۔
یہ رجحان پولیس میں بھی عام ہے‘ میں نے اپنی آنکھوں سے پولیس شہداء کے خاندانوں کو ایس ایس پی آفسز میں دھکے کھاتے دیکھا‘ یہ بے چارے شہید کی پنشن اورمراعات کے لیے درخواستیں دے دے کر تھک جاتے ہیں مگر ان کی سنوائی نہیں ہوتی اور ان حالات میں عمر سعید ملک کا یہ اقدام حیران کن بھی ہے اور قابل تقلید بھی‘یہ اپنے شہید کانسٹیبلز کے غریب خاندانوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا‘ اس نے انھیں عزت دی‘ کاش پوری پولیس فورس اس مثال کو عادت بنا لے‘یہ اپنے شہداء کی فیملی کو اون کرنا شروع کردے‘یقین کریں پولیس کا مورال تبدیل ہو جائے گا۔
دنیا بھر کے معاشرے اپنے شہداء کو بہت اہمیت دیتے ہیں‘ امریکی فوج کے بارے میں مشہور ہے یہ اپنے فوجی کی لاش کسی دوسری سرزمین پر نہیں چھوڑتی خواہ اسے فوج کا پورا بریگیڈ مروانا پڑ جائے‘ یہ اپنے فوجی کی لاش اٹھاتے ہیں‘ امریکا لے کر آتے ہیں اور اسے پورے اعزاز کے ساتھ امریکی زمین میں دفن کرتے ہیں‘ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فرانس میں امریکا کے ہزاروں فوجی مارے گئے تھے‘ یہ تمام لاشیں امریکا شفٹ کرنا ممکن نہیں تھا چناں چہ امریکا نے فرانس سے زمین خریدی‘ اس زمین کو امریکی حدود قرار دیا‘ اپنے فوجیوں کو وہاں دفن کیا اور ایک شان دار فوجی قبرستان بنایا‘ آج بھی وہاں امریکا کا جھنڈا نظر آتا ہے اور پیرس کے عین درمیان امریکی قبریں بھی‘ آپ لسبیلہ ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بعد ٹرولنگ کے ایشو کو بھی لے لیں۔
سوشل میڈیا پر چار اگست کی رات فوج کے خلاف کمنٹس پوسٹ ہوئے‘ فوج کی طرف سے اس پر شدید ردعمل آیا اور اب ایک بڑی تحقیقاتی ٹیم تفتیش بھی کر رہی ہے اور ٹرولنگ کرنے والے گرفتار بھی ہو رہے ہیں اگر ہماری فوج اپنے شہداء اور ان کے خاندانوں کا اتنا خیال رکھ سکتی ہے تو پولیس یہ کیوں نہیں کرتی؟ یہ اگر ڈیوٹی کے دوران جان دینے والوں اور ان کے خاندانوں کو عزت نہیں دیں گے۔
یہ اگر ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو پھر فورس کمانڈرز کے حکم پر جان کیوں دے گی؟ میری حکومت سے بھی درخواست ہے آپ بھی شہیدوں کو برابری کا حق دیں‘ آپ انھیں سول اور ملٹری میں تقسیم نہ کیا کریں‘ یہ لوگ ملک کے لیے مرتے ہیں لہٰذا ملک کو اپنی حرمت پر قربان ہونے والے ہر شخص کو برابر عزت دینی چاہیے‘ اسے شہیدوں کو جوان اور کانسٹیبل اور میجر اور ایس پی میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے‘ شہید صرف شہید ہوتے ہیں‘ یہ فوجی اور سول نہیں ہوتے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Faisalabad mai naye rawiat By Javed Chaudhry