فاتح – حسن نثار
ابھی چند روز پہلے فتح قسطنطنیہ کی سالگرہ تھی جسے ہم سات پہاڑیوں والے استنبول کا جنم دن بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ شہر جس کے دامن میں حضرت ابو ایوب انصاری ابدی نیند سو رہے ہیں۔ وہ شہر جس کے چپے چپے پر سلاطینِ عثمانیہ کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں۔خوش بختی و بدبختی، عظمت و پستی کا امتزاج اک عجیب خاندان تھا جس نے تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ پر ساڑھے سات سو سال حکومت کی۔
پہلے حکمران عثمان غازی (1282-1326) سے لے کر 37ویں عبدالمجید (دوم) تک اس خاندان نے جن سلاطین کو جنم دیا ان میں بہت سے بہت ہی عالی شان تھے لیکن سلطان محمد فاتح کا اک اپنا ہی مقام ہے۔
22سال کی عمر میں ناقابلِ تسخیر قسطنطنیہ کو فتح کرکے اسے استنبول بنا دینے والا سلطان محمد دو بار بادشاہ بنا۔ پہلی بار 1444تا 46اور دوسری بار 1451سے 1481تک۔
سلطان مراد کا یہ بیٹا بچپن میں بیحد سر پھرا، تند خو اور اس قدر شرارتی تھا کہ اساتذہ بھی اس سے پناہ مانگتے۔ تنگ آ کر سلطان مراد نے اپنے اس تیسرے بیٹے کے لئے ایک کرد مذہبی استاد ملا احمد گیورانی کو شہزادہ محمد کا اتالیق مقرر کرتے ہوئے اسے سیدھا کرنے کی مکمل آزادی دے دی۔
پہلی بار شہزادے کی ٹھکائی ہوئی، مار پڑی تو استاد کا رعب قائم ہوتے ہی شہزادہ محمد ایک مثالی طالب علم بن گیا۔ اس نے اسلامی، یونانی اور لاطینی تاریخ و ادب کے علاوہ فلسفہ اور سائنس کے علوم بھی حاصل کئے۔
ملا احمد گیورانی کے علاوہ اسے دیگر ایسے یورپی اور ایشیائی اساتذہ بھی پڑھایا کرتے جو اپنے اپنے مضامین پر عبور رکھتے تھے۔ اب چلتے ہیں فاتح کی فتح کی جانب۔
قسطنطنیہ کا محاصرہ 6اپریل 1453کو شروع ہوا اور پھر آخری معرکہ کے بعد 29مئی 1453کو ختم ہو گیا۔ اک ایسی سلطنت اپنے انجام کو پہنچ گئی جس کی حکومت ایک ہزار سال پر محیط تھی۔ سلطان محمد سہ پہر کے وقت شہر میں داخل ہوا تو اس کے پُرجوش فوجیوں نے بےساختہ اسے فاتح، فاتح پکارنا شروع کر دیا اور یوں یہ لفظ اس کا لقب اور نام کا حصہ بن گیا۔
ایک یونانی مورخ کریٹوولوس اپنی معروف کتاب "History Of Mehmet The Conqueror” میں لکھتا ہےسلطان شہر میں داخل ہوا اور اس نے شہر کی وسعت، محل و قوع، خوب صورتی، شان و شکوہ، کثیر آبادی، شاندار گرجا گھروں اور دیگر دلکش عمارتوں کو دیکھا تو اس کا دل رحم سے لبریز ہو گیا۔
آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ بولا ’’کیسا شہر تھا جسے ہم نے برباد کر ڈالا‘‘۔فاتح چھٹی پہاڑی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا پہلی پہاڑی تک گیا، آیا صوفیا پہنچا تو گھوڑے سے اتر گیا۔
وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے مٹی اٹھائی اور اپنی مخصوص دستار پر ڈال دی۔ یہ علامت تھی عاجزی اور انکسار کی کیونکہ یہ عظیم چرچ اسلام میں بھی اتنا ہی محترم تھا جتنا کہ عیسائیت میں۔
عمارت کا جائزہ لینے کے بعد اس نے چرچ کے ساتھ مسجد تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا اور پھر جب اذان دینے کے لئے موذن کا مینار اور کچھ دیگر تعمیرات مکمل ہو گئیں تو سلطان نے یکم جون 1453کو وہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔سلطان محمد فاتح کا قد درمیانہ، جسم بیحد مضبوط و توانا تھا۔
وہ شمشیر زنی، تیر اندازی، گھڑ سواری میں اپنا ثانی نہ رکھتا۔ بہت بارعب، بہت کم ہنسنے والا، حد درجہ محتاط، دور بین اور بیحد فیاض ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک حد تک بیباک اور مقدونیہ کے سکندر کی طرح ناموری کا دلدادہ تھا۔استنبول کا شہرۂ آفاق مسقف بازار (Coverd Bazar)بھی فاتح کی یادگار ہے۔
فاتح کو فارسی ادب سے بھی گہری دلچسپی تھی، بالخصوص صوفیا کی شاعری سے۔ اسے ادب کی سرپرستی کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
وہ پوری اسلامی دنیا کے شاعروں، ادیبوں کو تحائف بھی بھیجا کرتا تھا۔ فاتح خود بھی شاعر تھا جو ترکی زبان میں شعر کہتا۔ اس کا ایک دیوان بھی موجود ہے جس میں ترکی زبان کی 8نظمیں شامل ہیں۔
اس نے چند فارسی غزلیں بھی لکھیں جن پر عظیم شاعر حافظ کا اثر بہت نمایاں ہے۔ فاتح نماز ادا کرنے مسجد جاتا تو صرف ایک یا دو محافظوں کے ساتھ استنبول کی گلیوں میں سے گزرتا دکھائی دیتا۔
ایک عیسائی مورخ لکھتا ہے۔’’میں نے فاتح کو صرف دو نوجوانوں کے ساتھ محل سے دور مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اسے اسی طرح حمام کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
میں نے سلطان کو دوسروں کی طرح مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ بھی اوروں کی طرح زمین پر بچھے قالین پر بیٹھا تھا‘‘۔
آخری عمر میں سلطان گھنٹیا کا شکار ہو گیا جس نے اس کی سرگرمیوں کو انتہائی محدود کر دیا اور پھر 3؍مئی 1481کو سلطنتِ عثمانیہ کا یہ ساتواں سلطان، عظیم فاتح موت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998
Source: Jung News
Read Urdu column Fateh By Hassan Nisar