دوستوفسکی کے در پر – جاوید چوہدری
آپ ادب کو کسی بھی زاویے‘ کسی بھی سائیڈ سے دیکھ لیجیے‘ آپ کو فیودوردوستوفسکی(Fyodor Dostoevsky) ادب کے عین درمیان کھڑا ملے گا‘دی ایڈیٹ ہو‘ برادرز کراموزوف ہو‘ کرائم اینڈ پنشمنٹ‘دی گیمبلر‘ڈیمنز‘ دی ڈبل اوردی ایٹرنل ہس بینڈ ہو‘ یہ ناول صرف ناول نہیں ہیں‘ یہ تخلیق کی انتہا ہیں۔
یہ انسان‘ نفسیات اور معاشرے کی زمین سے افق تک پھیلی وسیع پینٹنگز ہیں‘ وہ لکھتا نہیں تھا وہ لفظوں سے پینٹ کرتا تھا اور پینٹ بھی ایسا کہ ہر کردار کتاب سے نکل کر قاری کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا اور پڑھنے والے اسے اپنے اردگرد چلتا پھرتا محسوس کرتے تھے‘ لوگ کرداروں کی خوشبو تک سونگھتے تھے‘ میں نے اپنا پورا لڑکپن دوستوفسکی کے کرداروں کے ساتھ گزارہ‘دی ایڈیٹ طویل ناول ہے۔
پرنس مشکن ناول کا مرکزی کردار ہے‘ آپ دوستوفسکی کی کردار نگاری اور تفصیل نویسی کی انتہا ملاحظہ کیجیے‘ پرنس مشکن ریلوے اسٹیشن پر اترتا ہے اور وہ اسٹیشن سے گھر پہنچتا ہے‘ دوستوفسکی نے یہ تھوڑا سا سفر 168 صفحات میں بیان کیا‘ یہ تفصیل نویسی دوستوفسکی کے علاوہ کسی دوسرے لکھاری کے بس کی بات نہیں‘اس کے فقرے بھی انسان کو اندر سے کاٹ کر رکھ دیتے تھے‘ مثلاً اس نے کسی جگہ لکھا‘ تم اتنے بوڑھے ہو کہ تم اپنے بھی باپ دکھائی دیتے ہو‘ مثلاً بچوں کو بچہ سمجھنے والے لوگ یہ بھول جاتے ہیں وہ بھی کبھی بچے تھے اور انھیں اس عمر میں وہ سب کچھ معلوم تھا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے ان کے بچے نہیں جانتے۔
مثلاً یہ کیسے ممکن ہے تم زندہ بھی ہو اور تمہارے پاس سنانے کے لیے کوئی کہانی بھی نہیں‘ مثلاً وہ اگر انسان ہے تو وہ یاوہ گوئی ضرور کرے گا‘ مثلاً اپنی مرضی سے غلط راستے پر چلنا اس صحیح راستے سے ہزارگنا بہتر ہے جس پر آپ دوسروں کے حکم سے چلنے پر مجبور ہوں‘مثلاً رات جتنی گہری ہو گی ستارے اتنے ہی چمک دار ہوںگے اور مثلاً غم کی انتہا انسان کو خدا کے قریب لے جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ کمال حقیقت نگار بھی تھا‘ دوستو فسکی کی بارش محض لفظی بارش نہیں ہوتی تھی‘ وہ قاری کو گیلا بھی کرتی تھی‘ اس کی برف باری قاری کو گرمیوں میں کمبل اوڑھنے اور اس کی کھانسی قاری کو کھانسنے پر مجبور کر دیتی تھی۔
روس کی سردی‘ شام کی اداسی‘ سوکھی لکڑیوں کی کمی اور گرم کھانے کی اشتہا آپ اگر ایک بار دوستوفسکی کی منظر نگاری کا نشانہ بن گئے تو پھر آپ قبر تک یہ ذائقے بھول نہیں سکیں گے‘ وہ ایک بیمار اور ناآسودہ روح تھا‘ مرگی کا مریض تھا اور مرگی کے دوروں کے دوران اسے الہام ہوتا تھا‘ یہ الہام اس کے ناولوں کی کھیتی ثابت ہوتے تھے‘ وہ اپنے کرداروں کے منہ سے مستقبل کا نقشہ کھینچ دیتا تھا اور بعد ازاں وہ واقعات من وعن ظہور پذیر ہو جاتے تھے‘ وہ پھیپھڑوں کے سرطان کا مریض بھی تھا‘ کھانسنا‘ خون تھوکنا اور خون تھوکتے تھوکتے لکھتے رہنا اس کا معمول تھا۔
اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا‘ شام کی چائے بچوں کے ساتھ پیتا تھا اور ان سے ان کی تعلیم کے بارے میں ضرور پوچھتا تھا‘ سگریٹ بے تحاشا پیتا تھا‘ وہ سگریٹ کے بغیر لکھ نہیں سکتا تھا‘ ساری رات سگریٹ پیتا تھا اور لکھتا تھا اور پھر تھک ہار کر سوجاتا تھا‘ علاج کے لیے جرمنی گیا لیکن علاج کامیاب نہ ہو سکا اور یوں دنیا کا عظیم لکھاری 60 سال کی عمر میں9فروری 1881ء کو فوت ہو گیا‘ دوستو فسکی کا جنازہ سینٹ پیٹرز برگ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا‘ شاہی خاندان سے لے کر روس کے غلام تک ہر طبقے کے لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔
دوستوفسکی کی زندگی مسائل میں گزری تھی‘ ملٹری انجینئرنگ اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی‘ فوج میں بھرتی ہوا‘ لکھنے پڑھنے کا کام شروع کیا‘ گرفتار ہوا اور پانچ سال سائبیریا میں لوہا کوٹنے پر لگا دیا گیا‘ حکومت نے اس دوران اس کے لکھنے پر بھی پابندی لگا دی‘وہ قید کاٹ کر واپس آیا اور قلم سے دوبارہ رشتہ استوار کر لیا‘دوشادیاں کیں‘ چاربچے ہوئے‘ آخری شادی اپنی سیکریٹری ایناگریگوریونا سے کی‘ وہ بیس سال کی تھی اور یہ 46سال کا بیمار شخص لیکن اس کے باوجود شادی زبردست رہی‘ وہ اپنی بیٹیوں کو خط بھی لکھتا تھا اور ان کے لیے نوٹس لکھ کر کھانے کی میز پر بھی رکھ دیتا تھا‘ یہ نوٹس اور یہ خط بھی اب تاریخ کا حصہ ہیں اور میں پانچ مئی 2019 کی شام ادب کی یہ تاریخ دیکھنے کے لیے دوستوفسکی کے گھر پہنچ گیا۔
دوستوفسکی کا گھر سینٹر سے ذرا سا ہٹ کر اپارٹمنٹس کی بلڈنگ میں تھا‘ دوستوفسکی ماسکومیں پیدا ہوا مگر زندگی کا زیادہ تر حصہ سینٹ پیٹرز برگ میں گزارہ‘ وہ ہمیشہ کرائے کے گھروں میں رہالیکن زندگی کا آخری حصہ سینٹ پیٹرزبرگ کی اس عمارت میں گزارہ‘ عمارت کا مرکزی دروازہ گلی میں ذرا سا نیچے تھا‘ میں آٹھ سیڑھیاں اتر کر عمارت کے اندر داخل ہوا‘ سامنے ٹکٹ گھر اور استقبالیہ تھا‘ دوستوفسکی تیسری منزل کے بائیں فلیٹ میں رہتا تھا‘ سیڑھیاں قدیم اور اکھڑی ہوئی تھیں‘ وہ اپنے ہر ناول اور ہر کہانی میں اپارٹمنٹس‘ سیڑھیوں اور مرکزی دروازوں کا ذکر ضرور کرتا تھا‘ مجھے اوپر چڑھتے ہوئے وہ سارے کردار‘ ان کی سیڑھیاں اور ان کے اپارٹمنٹس یاد آ گئے۔
دوستوفسکی نے یقینا وہ تمام کردار انھی سیڑھیوں سے اترتے چڑھتے ہوئے تخلیق کیے تھے اور یہ بھی عین ممکن تھادوستوفسکی کے تمام کردار اسی عمارت کے مختلف فلیٹس میں رہتے ہوں اور اس نے وہ دیکھ کر ان کے گرد کہانیوں کا تانا بانا بنا ہو‘ میں اوپر چڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کا فلیٹ آ گیا‘ فلیٹ کے دروازے پر پیتل کی نیم پلیٹ لگی تھی‘ مرکزی دروازے کے اندر کوریڈور تھا‘ کوریڈور کی ایک سائیڈ بیڈروم میں کھلتی تھی اور دوسری سِٹنگ روم کی طرف بڑھ جاتی تھی‘ بیڈروم میں بچوں کے کھلونے پڑے تھے‘ یہ اس کے بچوں اور بیوی کا کمرہ تھا‘ کمرہ چھوٹا تھا‘ بچے یقینا مشکل سے ایڈجسٹ ہوتے ہوں گے‘ بیڈروم کا دوسرا دروازہ ڈائننگ ہال میں کھلتا تھا‘ ڈائننگ ہال میں چھوٹی سی ٹیبل اور چار کرسیاں تھیں‘ الماریوں میں برتن تھے اور دیواروں پر فیملی کی تصویریں لگی تھیں۔
میز پر دوستوفسکی کے ہاتھ کے نوٹس اور اسکرپٹ بھی پڑے تھے‘ وہ دن میں ایک بار اس میز پر اپنے بچوں کے ساتھ ضرور بیٹھتا تھا‘ اس دوران بچوں سے ان کی پڑھائی کے بارے میں پوچھتا تھا‘ بیٹی کے نام اس کے نوٹس بھی میز پر پڑے تھے‘ دوستوفسکی کی لکھائی بہت اچھی تھی‘ وہ باریک پین کے ساتھ لکھتا تھا اور کاغذ کا کوئی حصہ ضایع نہیں کرتا تھا‘ اس کے نوٹس اس کی کفایت شعاری کا ثبوت تھے‘ ڈائننگ روم کے باہر لابی تھی‘ یہ لابی سِٹنگ روم کے طور پر استعمال ہوتی تھی‘ وہاں صوفہ بھی پڑا تھا اور چھوٹی سی میز بھی‘ میز پر اس کے سگریٹ رکھے تھے‘ اس زمانے میں کاغذ کے خالی خول میں تمباکو بھر کر پیا جاتا تھا‘ تمباکو کی ڈبی اور سگریٹ کے کاغذی خول ساتھ ساتھ دھرے تھے۔
دوستوفسکی کی اسٹڈی سِٹنگ روم کے ساتھ تھی‘ یہ نسبتاً بڑا کمرہ تھا‘ سامنے وہ رائیٹنگ ٹیبل تھی جس پر بیٹھ کر اس نے جرم وسزا‘دی ایڈیٹ اور برادرز کراموزوف جیسے شاہکار لکھے تھے‘ میز پر کاغذ‘ دوات اور پین رکھے تھے‘ ساتھ الماری تھی اور الماری میں کتابیں تھیں‘ میز سے پیچھے صوفہ تھا اور صوفے کے ساتھ فلور لیمپ رکھا تھا‘ دیواروں پر کینڈل اسٹینڈ لگے تھے‘ میز پر بھی کینڈل اسٹینڈ تھا‘ وہ یقینا موم بتیوں کی روشنی میں کام کرتا تھا‘ کونے میں چابی والا کلاک تھا‘ یہ کلاک اس کے بھائی نے گفٹ کیا تھا اور اس کی سوئیاں اس وقت پر آ کر رک گئی تھیں جب اس کی موت واقع ہوئی تھی‘ وہ ساری ساری رات کام کرتا تھا‘ صبح تھک کر صوفے پر سو جاتا تھا‘ فلیٹ کی کھڑکیاں گلی کی طرف کھلتی تھیں‘ شام تک روشنی اندر آتی رہتی تھی‘ پورے فلیٹ میں ایک ہی چیز قیمتی تھی اور وہ چیز لوہے کی انگیٹھی تھی‘ فلیٹ میں چار انگیٹھیاں تھیں‘ یہ انگیٹھیاں ثابت کرتی تھیں سینٹ پیٹرزبرگ میں اس زمانے میں شدید سردی پڑتی تھی اور لوگوں کو گھر گرم رکھنے کے لیے خصوصی اہتمام کرنا پڑتا تھا۔
دوستوفسکی نے بھی یہ بندوبست کر رکھا تھا‘ انگیٹھیاں‘ سوکھی لکڑیاں اور آگ کے شعلے یہ بھی دوستوفسکی کے ہر ناول‘ ہر افسانے میں ضرور ہوتے تھے‘ ڈیڑھ سو سال پرانے روس کی وہ انگیٹھیاں بھی میرے سامنے تھیں‘ وہ کھانا بہت کم کھاتا تھا تاہم چائے پیتا رہتا تھا‘ جرم وسزا کے ایک کردار نے اپنے منہ سے کہا تھا ’’دنیا جہنم میں جائے لیکن مجھے چائے کا گرم کپ وقت پر ملنا چاہیے‘‘ یہ شاید دوستوفسکی کے اپنے جذبات تھے‘ اس کی پوری زندگی درد‘ تکلیف اور کسمپرسی میں گزری‘ اس نے خود لکھا ’’درد اور تکلیفیں بڑے دماغوں اور گہرے دلوں کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں‘ اصلی بڑے لوگ دنیا کے سب سے بڑے اداس لوگ ہوتے ہیں‘‘ وہ کہتا تھا ’’دوزخ کیا ہے؟
محبت کرنے کی صلاحیت سے محرومی اور بس‘‘ وہ پوری زندگی سچی محبت تلاش کرتا رہا اور اپنی باطنی اداسی سے لڑتا رہا یہاں تک کہ تھوک میں خون اور بلغم میں لوتھڑے آنے لگے‘ وہ آخر میں اپنے بچوں کے لیے زندہ رہنا چاہتا تھا‘ اس نے بے تحاشا کوشش کی لیکن اس کے باوجود ایک دن اس کی زندگی اس کے ادھورے کرداروں کی طرح ختم ہو گئی‘ وہ لکھتا لکھتا دنیا سے رخصت ہو گیامگر جاتے جاتے اپنے فلیٹ میں اپنا ادھورا پن‘ الہام کی روشنی اور روح کی آخری تہہ تک پھیلی اداسی چھوڑ گیا۔
میں نے لمبا سانس لیا‘ پھیپھڑوں میں دوستوفسکی کی اداسی بھری اور بھاری قدموں کے ساتھ سیڑھیاں اترنا شروع کر دیں‘ عمارت کی ہر سیڑھی پر اس کے کردار کھڑے تھے‘ پرنس مشکن‘ ایپولیت اور سینٹ پیٹرز برگ کے اعلیٰ طبقے کی خوبصورت عورتیں وہ سب لوگ آج بھی سیڑھیوں پر موجود تھے‘ وہ سب اپنے خالق کے اوپر سے اترنے کا انتظار کر رہے تھے‘ وہ چاہتے تھے وہ اپنا سیاہ لانگ کوٹ‘ اونی ہیٹ اور واکنگ سٹک سنبھالتا ہوا آئے‘ ان کے قریب رکے‘ مسکرائے اور پھر کہے ’’تم لوگ ابھی تک یہاں کھڑے ہو‘‘ اور پھر نخوت سے گردن گھما کر نیچے اتر جائے لیکن شاید یہ اب ممکن نہیں تھا‘ دنیا کا بڑے سے بڑا خالق بھی جب اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے تو پھر وہ واپس نہیں آ پاتا‘ کردار قیامت تک اس کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ گئے وقت اور برسی بارشیں کبھی واپس نہیں آتیں‘ زندگی کرسٹل کا مرتبان ہے‘ ٹوٹ جائے تو بس ٹوٹ جاتا ہے دوبارہ نہیں بنتا۔
Must Read urdu column Fyodor Dostoevsky kay sir pr By Javed Chaudhry