گند پھیلانے والے چوہڑے – جاوید چوہدری
چین کا زونگ کونگرونگ 2015ء تک محض ایک تاجر‘ صنعتکار اور کروڑ پتی سرمایہ کار تھا‘ وہ چانگ کنگ شہر میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرتا تھا‘ کاروں کا ڈیلر بھی تھا اور وہ مٹیریل پروسیسنگ کی چھ فیکٹریوں کا مالک بھی تھا‘ وہ کروڑوں ڈالر میں کھیلتا تھا‘ گھر تھے‘ فارم ہائوسز تھے‘ قیمتی گاڑیاں تھیں اور دو ہزار ملازم تھے لیکن پھر اس کی زندگی نے ٹرن لیا اور وہ دنیا کا پہلا کروڑ پتی سویپر (چوہڑا) بن گیا۔
یہ اب روز گلیاں صاف کرنے والے سینٹری ورکرز کی مالٹا رنگ کی یونیفارم پہنتا ہے‘ صبح آٹھ بجے شہر کی گلیوں میں جاتا ہے اور خالی بوتلیں‘ ڈسپوزیبل کپ‘ ٹشو پیپر‘ شاپنگ بیگ‘ جوس کے خالی ڈبے‘ ریپرز اور فضلہ اٹھاتا ہے‘ تھیلے میں ڈالتا ہے اور یہ تھیلا میونسپل کمیٹی کے کچرا گھر میں پھینک کر آتا ہے‘ زونگ نے اپنی یونیفارم میں چھوٹے سائز کے سپیکر بھی لگا رکھے ہیں‘ یہ کوڑا اکٹھا کرتے وقت لوگوں کو صفائی اور ماحولیات کے بارے میں پیغامات بھی دیتا ہے‘ لوگ اس کے پیغامات سن سن کر کوڑا پھیلانے سے پرہیز کرتے ہیں‘ یہ بھی اب اپنی گلیاں اور بازار صاف رکھنا شروع ہو چکے ہیں۔
ہم کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے زونگ کے اس ٹرن کی طرف آئیں گے جس نے کروڑ پتی بزنس مین کو کروڑ پتی چوہڑا بنا دیا‘ یہ دلچسپ واقعہ سنایا (Sanya) شہر میں پیش آیا‘ زونگ 2015ء میں 52 سال کی عمر میں فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے سنایا گیا‘ سنایا چاروں اطراف سے سمندر میں گھرا ہوا خوبصورت جزیرہ ہے‘ یہ جزیرہ اپنے خوبصورت ساحلوں‘ ہوٹلوں‘ ریستورانوں اور بارز کی وجہ سے پورے چین میں مشہور ہے۔
کروڑ پتی خاندان چھٹیاں گزارنے کے لیے عموماً سنایا جاتے ہیں‘ یہ بھی خاندان کے ساتھ نئے سال کی چھٹیاں گزارنے سنایا گیا‘ یہ لوگ ساحل پر ہٹ میں مقیم تھے‘ زونگ نے ایک صبح ایک بوڑھی خاتون کو ساحل پر کوڑا اکٹھا کرتے دیکھا‘ ساحل پر اس وقت کوئی دوسرا سینٹری ورکر نہیں تھا‘ وہ خاتون اکیلے کچرا جمع کر رہی تھی‘ زونگ دیر تک اسے دیکھتا رہا‘ خاتون کوڑا اکٹھا کر کے چلی گئی تو سینٹری ورکرز آئے۔
ساحل کا دورہ کیا اور خالی ہاتھ واپس چلے گئے‘ زونگ نے یہ منظر اگلے دن بھی دیکھا‘ خاتون آئی‘ کوڑا اکٹھا کیا اور تھیلا لے کر چلی گئی ‘ اس کے بعد سینٹری ورکرز آئے‘ ساحل کا چکر لگایا اور اطمینان سے سر ہلاتے ہوئے واپس چلے گئے‘ یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا یہاں تک کہ زونگ کو محسوس ہونے لگا وہ خاتون اکیلی سینٹری ورکر ہے اور باقی تمام لوگ باس ہیں اور وہ روزانہ ساحل پر انسپکشن کے لیے آتے ہیں۔
یہ روٹین زونگ کے لیے باعث تجسس ثابت ہوئی‘ یہ اگلی صبح اپنے ہٹ سے نکلا‘ خاتون کے پاس گیا اور اسے سلام کیا‘ خاتون نے نہایت شائستگی کے ساتھ جواب دیا‘ زونگ نے اس کے کام‘ لگن اور جذبے کی تعریف کی اور کہا میں نے پوری زندگی کسی سینٹری ورکر کو اتنی ایمانداری سے کام کرتے نہیں دیکھا‘ خاتون یہ سن کر مسکرائی اور جواب دیا ’’مجھے بھی آج تک کوئی ایسا سینٹری ورکر نہیں ملا‘ میں حیران ہوں یہ لوگ کام چوری کیوں کرتے ہیں‘‘ زونگ نے حیران ہو کر کہا ’’لیکن آپ تو اپنے کولیگز سے بالکل مختلف ہیں‘‘ خاتون نے قہقہہ لگایا‘ ساحل سے بسکٹ کا ریپر اٹھایا۔
تھیلے میں ڈالا اور زونگ کی طرف مڑ کر بولی ’’میں سینٹری ورکر نہیں ہوں‘‘ یہ جواب زونگ کے لیے انکشاف کی حیثیت رکھتا تھا‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا ’’پھر آپ کون ہیں‘‘ خاتون نے اپنا پورا تعارف کرایا تو زونگ کی حیرت پریشانی میں تبدیل ہو گئی‘ خاتون نے بتایا‘ وہ سنگ ہوا یونیورسٹی (Tsinghua University) کی پروفیسر ہے‘ یہ ادارہ دنیا کے تمام پیچیدہ اور مشکل ایشوز پر ریسرچ کر رہا ہے۔
زونگ نے پوچھا ’’لیکن پھر آپ ساحل پر صفائی کیوں کرتی ہیں‘‘ خاتون پروفیسر نے بتایا‘ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں‘ مسائل پیدا کرنے والے اور مسائل حل کرنے والے‘ میں دوسری قسم کے لوگوں میں شامل ہوں‘ میں پہلی قسم کے لوگوں کا گند صاف کرتی ہوں‘ وہ رکی اور بولی ’’میں نے محسوس کیا لوگ اگر گند پھیلاتے رہے اور اگر ہم جیسے لوگوں نے یہ گند صاف نہ کیا تو یہ دنیا کوڑے کا ڈھیر بن جائے گی چنانچہ میں نے پانچ سال قبل اپنی یونیورسٹی سے گند صاف کرنا شروع کیا اور میں اب جہاں جاتی ہوں میں وہاں اپنی صبح کا آغاز کوڑا اٹھانے سے کرتی ہوں۔
مجھے اس سے سکون بھی ملتا ہے اور میری وجہ سے معاشرے میں تبدیلی بھی آ رہی ہے‘‘ خاتون نے بتایا‘ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے شروع شروع میں میری حرکت پر بہت احتجاج کیا لیکن پھر احتجاج کرنے والے بھی میری کوشش کا حصہ بن گئے‘ میری یونیورسٹی کے زیادہ تر اساتذہ اور اسٹوڈنٹس بھی اب کچرا اکٹھا کرتے ہیں‘ زونگ نے خاتون سے پوچھا ’’لیکن آپ یہ کام سینٹری ورکرز کی یونیفارم پہن کر کیوں کرتی ہیں‘‘ خاتون کا جواب تھا ’’میں یہ پیغام دینا چاہتی ہوں دنیا میں کوئی پروفیشن برا یا اچھا نہیں ہوتا‘ پروفیشن صرف پروفیشن ہوتے ہیں اور سینٹری ورکرز بھی ہماری طرح انسان اور ریاست کے دوست ہیں‘‘۔ پروفیسر نے اس سے اجازت لی‘ کوڑا اکٹھا کیا اور ساحل سے روانہ ہو گئی۔
پروفیسر کی باتوں نے زونگ کی زندگی بدل دی‘ وہ چھٹیاں گزار کر واپس چانگ کنگ آیا‘ سینٹری ورکرز کی یونیفارم خریدی اور اگلے دن اپنی گلی کی صفائی شروع کر دی‘ خاندان کو پتہ چلا تو اس کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا‘ بیوی نے زونگ کا بائیکاٹ کر دیا جبکہ بچوں اور دوستوں نے اس سے فاصلہ رکھنا شروع کر دیا‘ یہ لوگ اس کا ذکر تک نہیں کرتے تھے لیکن وہ ڈٹا رہا‘ محلے کے لوگ بھی اسے عجیب نظروں سے دیکھتے تھے‘ وہ مذاقاً اسے اپنے پورے گھر کا کوڑا بھی پکڑا دیتے تھے اور وہ بڑے اطمینان سے اس کو گانٹھ مار کر اپنے کندھے پر اٹھا لیتا تھا۔
یہ سلسلہ مہینوں تک چلتا رہا‘ وہ روز صبح آٹھ بجے گھر سے باہر آتا اور اپنی گلی میں صفائی کرنا شروع کر دیتا‘ وہ سارا گند اٹھا کر مین کچرا گھر میں پھینکتا‘ تیار ہوتا اور دفتر چلا جاتا‘ خاندان کا خیال تھا وہ تھک جائے گا لیکن وہ ڈٹا رہا یہاں تک کہ سب سے پہلے اس کی بیوی نے اس کا ساتھ دینا شروع کیا اور پھر اس کے بچے بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے‘ پھر دوست آگے بڑھے اور آخر میں محلے کے لوگ بھی اس کے ساتھ مل گئے‘ یہ خبر سوشل میڈیا پر آئی‘ وہاں سے میڈیا میں آئی اور یوں وہ پورے چین میں مشہور ہو گیا۔
لوگ شروع میں اس کے پیغام کو شہرت حاصل کرنے کا سستا طریقہ کہتے رہے لیکن پھر وہ بھی اس کے قائل ہو گئے اور یوں زونگ کی جدوجہد چین کی ایک شاندار این جی او بننے لگی‘ اس کے دو دلائل بہت مشہور ہوئے‘ اس کا کہنا تھا‘ سوچ بہت اہم ہوتی ہے‘ آپ اگر کسی کام کو غلط سمجھتے ہیں تو آپ کا دماغ اس غلط کوثابت کرنے کے لیے دلائل کا انبار لگا دے گا اور آپ اگر کسی چیز‘ اپنی کسی حرکت کو درست سمجھتے ہیں تو پھر آپ کا دماغ اس درست کو درست ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا‘ میں اپنے کاز میں سچا ہوں چنانچہ میرے پاس صفائی کی سینکڑوں دلیلیں ہیں اور یہ دلیلیں اب اپنا اثر دکھا رہی ہیں۔
دوسرا اس کا کہنا ہے آپ کچرا دیکھیں‘ کیا آپ کچرا دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کون سی چیز کس نے پھینکی تھی‘ ہم امیر ہیں یا ہم غریب ہیں ہم میں سے ہر شخص گلی اور بازار میں کچرا پھینکتا ہے‘ کچرا پھینکنے والوں میں جب کوئی فرق نہیں تو پھر کچرا اٹھانے والوں میں کیوں فرق ہو‘ امیر کا کچرا صرف غریب کیوں اٹھائے؟ اس کا کہنا تھا یہ کرہ ارض صرف امیروں یا غریبوں کا نہیں‘ ہم سب اس کے مالک ہیں اور ہم سب اگر اس کے مالک ہیں تو پھر ہم سب کو اس کی ذمہ داری لینی چاہیے‘ ہم سب کو مل کر اسے صاف اور ستھرا رکھنا چاہیے اور میں اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کر رہا ہوں۔
اس کا کہنا تھا ’’ہم بھی عجیب لوگ ہیں‘ ہم امیروں نے اپنی شٹ صاف کرنے کی ذمہ داری بھی غریبوں کو دے رکھی ہے‘ کیا ہم امیر اپنی اور کسی ایک غریب کی شٹ صاف نہیں کر سکتے؟‘‘ زونگ کونگرونگ نے اپنی فیکٹریوں میں بھی دلچسپ اصول بنا رکھا ہے‘ یہ گند ڈالنے والوں کو دس یوآن جرمانہ کرتا ہے اور یہ جرمانہ اس شخص کو ادا کر دیا جاتا ہے جو گند ڈالنے والے کا گند اٹھاتا ہے۔
آپ زونگ کی کہانی پڑھئے اور اس کے بعد اپنے آپ سے پوچھئے‘ دنیا میں اس وقت ایک ارب 80 کروڑ مسلمان ہیں اور صفائی ہر مسلمان کا نصف ایمان ہے لیکن یہ ایمان ہمارے بجائے زونگ کے حصے میں کیوں آیا؟ زونگ کلمہ پڑھے بغیر ہم سے زیادہ صاحب ایمان کیوں ثابت ہو رہا ہے! ہم پوری دنیا میں گند پھیلا رہے ہیں‘ ہمارے گھروں سے لے کر پارکس تک ہر جگہ گندگی بکھری پڑی ہے جبکہ زونگ کروڑ پتی ہونے کے باوجود ہر صبح چوہڑوں کی وردی پہن کر گلیوں سے کوڑا اٹھاتا ہے۔
کیا ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زونگ جیسا ایک بھی شخص نہیں‘ کیا ہم میں سے کوئی شخص ایمان کے آدھے درجے کے لیے چوہڑا بننے کے لیے تیار نہیں‘ کیا ہم زندگی میں زونگ کی طرح ’’امیروں کا کوڑا امیر اٹھائیں‘‘ جیسا کوئی ایک کام بھی نہیں کریں گے؟ نہیں‘ میرا خیال ہے نہیں‘ ہم گند پھیلانے والے چوہڑے ہیں گند اٹھانے والے نہیں‘ ہم اندر اور باہر دونوں جگہوں سے گندے ہیں۔
Source
Must Read urdu column Gand phailanay walay chohray By Javed Chaudhry