جارجیا کے گجر – جاوید چوہدری
مجھے تین دن کرنل ظفر کی کمپنی انجوائے کرنے کا موقع ملا‘ یہ پڑھے لکھے‘ تجربہ کار اور بیلنس انسان ہیں‘ 2014میں یو این مشن پر جارجیا آئے تھے‘ یہ ملک انھیں اتنا پسند آیا کہ یہ یہاں کے ہو کر رہ گئے‘ فوج چھوڑ دی‘ جنرل اویس دستگیر رانا ان کے بیچ اور روم میٹ ہیں‘ یہ سارا دن ان کی بہادری‘ معلومات اور دانش مندی کی باتیں کرتے رہتے تھے‘ کرنل صاحب تین دن ہمارے ساتھ رہے‘ میں ان کے ساتھ سگ ناگی بھی گیا۔
یہ وائین ایریا ہے‘ دور دورتک انگوروں کے باغ ہیں‘ سگ ناگی کا قصبہ پہاڑی پر واقع ہے‘ چاروں طرف الازانی ویلی ہے اور ویلی میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں‘ وادی کے آخری سرے پر کوہ قاف (کاکس یا کاکشیا) کے پہاڑ ہیں‘ درمیان سے دریائے الازانی گزرتا ہے‘ وادی کے آخر میں کوہ قاف کی دوسری طرف آذربائیجان اور روس کا صوبہ داغستان واقع ہیں‘ وادی کے مختلف دیہات میں چیچنیا‘ آذربائیجان اور داغستان کے مسلمان آباد ہیں چناں چہ آپ اگر سگ ناگی سے نیچے اتریں تو آپ کو مسجدیں بھی مل جاتی ہیں اور داڑھیاں اور برقعے بھی۔
لوگ انتہائی خوب صورت اور صاف ستھرے ہیں بالخصوص خواتین پر واقعی پریوں کا گمان ہوتا ہے‘ سگ ناگی میں بے شمار ہوٹل اور ریستوران ہیں‘ یہ سب وادی کی طرف کھلتے ہیں اور اگر موسم اچھا ہو تو ریستورانوں اور ہوٹلوں کے ٹیرس سے کوہ قاف اور اس کی برفیں صاف دکھائی دیتی ہیں‘ کھانا بہت اچھا‘ لذیز اور صحت مند ہوتا ہے‘ فضا میں کھلا پن اور فرحت کا احساس ہوتا ہے‘ ہم آدھا دن سگ ناگی میں گھومتے رہے‘ ہم نے لنچ کیا اور آگے روانہ ہو گئے‘ ہمارے ساتھ کراچی کے دو صاحب بھی تھے‘ ثاقب صاحب چنیوٹی شیخ ہیں اور یہ تبلیسی میں سرمایہ کاری کے لیے آئے تھے جب کہ شہزاد صاحب ان کے دوست تھے اور یہ سرکاری ملازم تھے‘ ہم نے ایک شام اور سگ ناگی کی دوپہر اکٹھی گزاری‘ یہ لوگ لنچ کے بعد واپس چلے گئے جب کہ ہم آگے روانہ ہو گئے۔
کرنل ظفر طلاوی (Telavi) میں رہتے ہیں‘ یہ 20 ہزار نفوس کا چھوٹا سا صاف ستھرا شہر ہے‘ کرنل صاحب کی بیگم شہر کی ڈپٹی میئر ہیں‘ پورے قصبے میں کوئی پاکستانی یا انڈین نہیں‘ صرف جارجین رہتے ہیں‘ کرنل صاحب نے یہاں ڈیپارٹمنٹل اسٹور اور ریستوران چلانے کی کوشش کی مگر ان کا وہی حشر ہوا جو ایسے فوجی ایڈونچرز کا ہوتا ہے‘ دونوں کاروبار بند ہو گئے اور آخر میں کرنل صاحب نے شاہد رسول کو جوائن کر لیا۔
پانچ دن تبلیسی میں رہتے ہیں اور ہفتہ اتوار طلاوی میں۔ طلاوی کے راستے میں ہم گورجانی سے گزرے‘ اس قصبے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے یہ ماضی میں گجروں کا علاقہ تھا اور اس کے مضافات میں ان کی مختلف گوتھیں آباد تھیں لیکن پھر یہ سب آہستہ آہستہ ہندوستان شفٹ ہو گئے‘ کیوں؟ اس کی ٹھوس وجوہات معلوم نہیں ہیں‘ مورخین کا خیال ہے یہ لوگ جنگجو اور کاری گر تھے لہٰذا پہلے انھیں سکندراعظم اپنے ساتھ ہندوستان لے گیا اور پھر یہ مختلف جنگجوؤں کے ساتھ ہندوستان جاتے اور وہاں آباد ہوتے چلے گئے۔
ماضی میں کیوں کہ چیچنیا بھی اس علاقے کا حصہ تھا لہٰذا چیچن بھی ان کے ساتھ ہندوستان گئے اور یہ آج کل گجروں کی گوتھ چیچی کہلاتے ہیں‘ گورجانی روسی دور میں قصبہ بنا لیکن اس کی زمین سے ماضی کے بے شمار آثار دریافت ہوتے رہتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے اس علاقے میں اس سے پہلے بھی لوگ آباد تھے اور وہ بھی ٹھیک ٹھاک تگڑے تھے‘ گورجانی میں آتش فشاں کے آثار بھی ہیں بلکہ زمین سے گرم کیچڑ آج بھی نکلتا ہے جس سے لوگ ’’مڈ باتھ‘‘ لیتے ہیں‘ مٹی کا غسل جوڑوں کے درد کے لیے سودمند سمجھا جاتا ہے لہٰذا لوگ اپنے جسم پر کیچڑ مل کر بیٹھ جاتے ہیں۔’’مڈ باتھ‘‘ اس علاقے کا بڑا ذریعہ روزگار ہے۔
ماہرین کا خیال ہے شاید ماضی میں آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے بھی یہاں کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہوں بہرحال کوئی ایسا واقعہ یہاں ضرور پیش آیا ہو گا جس سے مجبور ہو کر یہاں کے لوگ ہندوستان چلے گئے تھے‘ گورجانی ماضی میں گجر جانی یا گجرنی ہو گا جو آج بگڑ کر گورجانی ہو گیا‘ یہ گجرات‘ گوجرانوالہ اور گوجر خان سے ملتا جلتا ہے‘ اس کے دائیں بائیں موجود دیہات کے نام گجروں کے مختلف دیہات اور گوتھوں سے ملتے جلتے ہیں‘ جارجیا میں گجر‘ گاؤجر‘ گرجر، گرجار،گوکار‘ کارٹ‘ کائی اور گجراتی کے الفاظ آج بھی موجود ہیں اور یہ گجروں کی گوتھیں ہیں۔
آرمینیا میں بھی گگارک (Gugark) نام کا صوبہ موجود ہے‘ گجروں کی روٹس جارجیا‘ آرمینیا‘ داغستان اور چیچنیا سے ملتی ہیں لہٰذا ان کے خون میں ان چاروں ملکوں کا ڈی این اے موجود ہے‘ ان کے کلچر میں بھی آج تک ان ملکوں کی بوباس محسوس ہوتی ہے ‘میرے پاس زیادہ وقت نہیں تھا ورنہ میں وہاں رکتا اور گورجانی اور گجروں کی روٹس پر تحقیق کرتا‘ وقت کی کمی نے ہاتھ روک لیا‘ ہم بہرحال گورجانی سے گزر کر طلاوی پہنچ گئے‘ وہاں ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی‘ کرنل صاحب اپنے گھر چلے گئے اور ہم ہوٹل۔ قصبے میں دو تین ہوٹل ہیں‘ میونسپل کمیٹی کا دفتر بہت خوب صورت تھا‘ ایک قلعہ بھی تھا‘ ریستوران زیادہ نہیں تھے لیکن جو تھے وہ بہت اچھے تھے‘ ہم نے اندھیرے میں پورے قصبے کا راؤنڈ لگایا‘ درمیان سے ندی گزرتی تھی‘ مکان‘ دکانیں اور بڑی سڑکیں ندی کے اطراف تھیں‘ لوگ جلدی سو جاتے ہیں لہٰذا رات دس بجے پورے قصبے میں ہوکا عالم تھا‘ گلیوں میں کتوں کے سوا کوئی نہیں تھا‘ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی اور ہوا بھی تھی‘ ہم گھبرا کر ہوٹل واپس چلے گئے۔
ہم اگلی صبح تبلیسی کے لیے روانہ ہو گئے‘ طلاوی جانے کے دو راستے ہیں‘ پہلا راستہ سگ ناگی اور گورجانی سے ہو کر گزرتا ہے جب کہ دوسرا راستہ پہاڑی اور خوب صورت ہے‘ ہم آئے سگ ناگی کے راستے تھے جب کہ واپسی دوسرے پہاڑی راستے سے ہوئی‘ یہ راستہ زیادہ خوب صورت تھا‘ جگہ جگہ ویو پوائنٹس تھے‘ لوگ تصویریں اتروانے کے لیے رک رک کر آگے بڑھتے تھے‘ سڑک کی دونوں سائیڈز پر جنگلی پھول تھے‘ کرنل صاحب نے بتایا سڑک کے ساتھ ساتھ مختلف موسموں میں مختلف رنگوں کے پھول کھلتے ہیں‘ یہ کبھی سرخ ہو جاتے ہیں اور کبھی نیلے‘ پیلے اور سفید‘ ہم سفید پھولوں کے موسم میں یہاں سے گزرے تھے چناں چہ ہمارے ساتھ ساتھ سفید ڈیزی فلاورز دوڑتے چلے جا رہے تھے‘ فضا میں گھاس کی خوشبو اور زندگی کی حرارت تھی۔
بعض جگہوں پر بھیڑیں بھی نظر آئیں لیکن یہ زیادہ تعداد میں نہیں تھیں‘ کرنل ظفر نے ایک عجیب بات بتائی‘ ان کا کہنا تھا جارجیا میں جنگل گھنے ہیں لیکن یہاں وائلڈ لائف نہیں ہے‘ جنگلی جانور اور پرندے نظر نہیں آتے‘ یہ سن کر حیرت ہوئی‘ اس کی وجہ شاید کوئی بیماری ہو‘ جنگلی جانور اور پرندے عموماً بیماری کے خوف سے بعض علاقے چھوڑ دیتے ہیں‘ ہمیں راستے میں ایک دو جگہوں پر جھیلیں اور ندیاں بھی نظر آئیں‘ پھلوں کے درخت اور سبزیاں وافر تھیں‘ گندم اور مکئی کے کھیت بھی نظر آئے‘ زمین بہت ذرخیز اور طاقتور محسوس ہو رہی تھی‘ جارجیا میں عورتیں زیادہ کام کرتی ہیں‘ ہمیں کھیتوں‘ مکانوں اور دکانوں ہر جگہ خواتین نظر آئیں‘ دیہات میں بھی سڑکوں کے کنارے پنیر‘ اچار‘ شہد‘ چٹنیاں‘ مربے‘ خشک میوہ جات اور سوکھا گوشت رکھ کر بیٹھی تھیں اور لوگ ان سے خرید بھی رہے تھے۔
یہ لوگ اخروٹ کی گری کو انگور کے رس میں ڈبو کر انتہائی لذیذ مرونڈا بناتے ہیں‘وہ جگہ جگہ لٹکا تھا‘ منڈیوں کے اندر بھی عورتیں کام کرتی ہیں‘ ہمیں کھیتوں میں بھی صرف خواتین نظر آئیں‘ دن کے وقت مرد کہاں چلے جاتے ہیں؟ میں سوچ کر حیران ہوتا رہا‘ یہ لوگ گھروں پر پیسہ خرچ نہیں کرتے‘ ان کے گھر باہر اور اندر دونوں سائیڈز سے سادہ ہوتے ہیں تاہم کپڑوں اور گاڑیوں پر بہت خرچ کرتے ہیں‘ ہر گھر میں دو تین گاڑیاں تھیں‘ لباس اعلیٰ اور مہنگا پہنتے ہیں‘ عورتیں میک اپ اور لیزر لازمی کراتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوب صورت دکھائی دینے کی کوشش کرتی ہیں‘ خوشبو بھی بہت اہتمام سے لگاتی ہیں۔
گاڑیوں کو بہت صاف ستھرا رکھتے ہیں اور مہنگی سے مہنگی خریدتے ہیں‘ فری سیکس سوسائٹی ہے‘ بڑے شہروں میں عورتیں اور مرد بدلتے رہتے ہیں‘ شادی کا رجحان کم ہے تاہم یہ اس کے باوجود فیملی پرسنز ہیں‘ اکٹھے رہتے ہیں اور فیملی کے ہر تہوار میں شریک ہوتے ہیں‘ ڈانس اور میوزک کے رسیا ہیں‘ ہر گلی اور ہر بازار میں میوزک بجتا ہے اور لوگ اس پر کھل کر ڈانس کرتے ہیں۔
جارجین اپنی پراپرٹی‘ کار یا ملکیت کا ریٹ لگائیں گے اور اس کے بعد اس وقت تک خاموش ہو کر بیٹھے رہیں گے جب تک ان کی مرضی کا ریٹ نہیں مل جاتا‘ کرنل صاحب نے ہمیں ایک گھر دکھایا‘ اس کے مالک نے تین سال قبل اس کے اوپر تین لاکھ ڈالر لکھ کر لگایا تھا‘ تین سال گزر گئے‘ مکان نہیں بکا لیکن وہ تین لاکھ سے نیچے نہیں آیا۔
دیہاتوں میں اپنی شراب خود بناتے ہیں اور بیس بیس لیٹر کی بوتلوں میں ڈال کر اس وقت تک پیتے رہتے ہیں جب تک اسپتال نہیں پہنچتے‘ کھانوں میں سبزیاں اور پھل پسند کرتے ہیں‘ سور کا گوشت بھی کھاتے ہیں‘ مذہبی ہیں‘ چرچ ریگولر جاتے ہیں اور پادریوں کا احترام کرتے ہیں‘ پولیس رشوت خور نہیں ہے‘ یہ لوگوں کو بلاوجہ تنگ بھی نہیں کرتی‘ ٹورازم اور تعلیم کی انڈسٹری بہت تگڑی ہے‘ 35 لاکھ لوگوں کے ملک میں ہر سال 50 لاکھ سیاح آ جاتے ہیں‘ سیاحوں میں روسی‘ عرب‘ یورپین اور انڈین بڑی تعداد میں ہوتے ہیں‘ شاید اس کی وجہ موسم‘ لوگ‘ امن اور نرخ کی کمی ہے‘ آپ کو جو سہولت یورپ میں 100 یورو میں ملتی ہے وہ آپ جارجیا میں 20 یورو میں حاصل کر سکتے ہیں لہٰذا پھر کون کافر یہاں نہیں آئے گا۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Georgia k Gujjar By Javed Chaudhry