غریب کا خون چوسنے والی اشرافیہ – انصار عباسی
کچھ سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان کا بنے گا کیا؟ جس طرف دیکھیں بُرا ہی حال ہے۔ ملک کے حالات کشیدہ تر ہیں اور معیشت کو ایک ایسی تباہ حالی کا سامنا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دوسری طرف عوام ،خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کو مہنگائی کے ایک ایسے طوفان کا سامنا ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ملک کو ان حالات تک پہنچانے میں اگر اسٹیبلشمنٹ کا بہت اہم کردار رہا ہے تو سیاستدانوں نے بھی اس خرابی کو روکنے کی بجائےاس میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائےتو غلط نہ ہو گا کہ سنگدلی کی حد تک عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اپنی بے حسی سے عوام کی بڑی تعداد کو مایوس کیا۔
میں یہ بات کبھی نہیں بھول سکتا کہ یہ سیاستدان ایک آرمی چیف کی ایکسٹینشن اور دوسرے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے تو ایک ہوگئے لیکن اس ملک اور غریب کی خاطر معیشت کو درست کرنے کیلئے ایک میز پر ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔
اس کے برعکس معیشت پر سیاست ہو رہی ہے، جو اقتدار میں ہیں وہ اپنے مخالف کو معیشت کی تباہی کا ذمہ داری ٹھہرا رہے ہیں تو اپوزیشن کی گویا یہ پوری کوشش ہے کہ معیشت کا ستیاناس ہو جائے چاہے اس کا ملک اور عوام پر جو مرضی اثر پڑے لیکن اس کا نتیجہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں برآمد ہونا چاہیے تاکہ جو اقتدار سے باہر بیٹھا ہے وہ حکومت حاصل کر سکے۔
سب کو پتا ہے کہ معیشت کو درست کرنے اور مہنگائی پر قابو پانے کا ایک ہی نسخہ ہے کہ دونوں اطراف کے سیاستدان مل کر بیٹھ جائیں، معیشت کی بنیادوں کو درست کرنے کیلئے ایک میثاق پر اتفاق رائے کریں اور یہ تہیہ کرلیں کہ سیاست میں معیشت کو نہیں گھسیٹا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔
حکومتی اتحاد آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الیکشن کرانےکیلئے تیار نہیں تو تحریک انصاف کو فوری اقتدار کے حصول کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر ہے لیکن ہمارے حکمران طبقے اور اشرافیہ کی قوم کے پیسوں پر کی جانے والی عیاشیوں میں نہ کوئی کمی نظر آ رہی ہے نہ ہی شرمندگی۔
حکومت کے اخراجات میں کمی کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے سفارش کی کہ کابینہ کی تعداد تیس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن شہباز شریف نے اپنی کابینہ کی تعداد پچاسی ممبران تک پہنچا دی اور یاد رہے کہ کوئی آٹھ دس لوگوں کو بچت کیلئے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کے حصول کے بعد کابینہ میں شامل کیا گیا۔
اسی کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی کہ ججوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں کو ایک سے زیادہ پلاٹ نہ دیے جائیں اور جن جن کو ایک سے زیادہ پلاٹ دیے گئے اُن سے واپس لے کر انہیں نیلام کر کے جمع ہونے والا پیسہ قومی خزانے میں جمع کرایا جائے۔ افسوس کہ ایک طرف اس کمیٹی کی حکومت کو دی گئی یہ سفارشات اخبار میں پڑھنے کو ملی تو ایک اور خبر یہ بھی شائع ہوئی کہ سپریم کورٹ حکومت کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کے خلاف اپیل سننے جا رہی ہے جس میں ججوں اور وفاقی سیکریٹریوں کو پلاٹ دینے کی پالیسی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
قومی خزانہ تو خالی ہے اور عوام کیلئے اس میں کچھ نہیں بچا لیکن اشرافیہ اور حکمران طبقے کے پروٹوکول اور مراعات پر جو خرچ ہو رہا ہے اس کا کوئی حساب ہی نہیں بلکہ بلواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے غریب کا خون نچوڑ کر حکمران طبقے اور ملک کی اشرافیہ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔
بچت کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے بہت اچھی سفارشات پیش کی ہیں۔ لہٰذا وزیروں، مشیروں، ارکانِ پارلیمنٹ، ججوں، جرنیلوں اور سرکاری افسروں سے توقع ہے کہ وہ اپنی اپنی مراعات میں کمی کریں گے، اس سلسلے میں حکومت کو عملدرآمد کیلئے باقاعدہ تجاویز بھی دیں۔
اس کمیٹی کے مطابق ان تجاویز پرعمل کر کے ایک ہزار ارب روپے تک سالانہ بچت ہو سکتی ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ اور اشرافیہ اگر اپنی عیاشیوں کو کم کر دے تو سالانہ اس ایک ہزار ارب روپے کی بچت سے پاکستان کے غریب عوام کی تقدید بدل سکتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ان سفارشات پر فوری طور پر عمل کرے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف نے کمیٹی کے چیئرمین کو ہی یہ ہدایت جاری کر دی ہےکہ وہ خود تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کر کے ان سفارشات پر عملدرآمد کیلئے اُن کو تیار کریں۔ یعنی جو قومی خزانے سے عیاشیاں کر رہا ہے اُسی سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی مراعات میں خود کمی کرنے کا فیصلہ کرے۔
حکومتیں ایسے تو نہیں چلتیں، بچت تو ایسے ممکن نہیں۔ حکومتیں تو فیصلہ کر کے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہیں۔ ہم اگرآج معیشت کی بدحالی اور غریب کی مہنگائی کے ہاتھوں موجودہ پریشانی کے باوجود یہ بچت نہیں کر سکتے تو پھر بھول جائیں کہ مستقبل میں کبھی ایسا ممکن ہو سکے گا۔ اس وقت یہ ملک اشرافیہ کا ہے اور غریب کا اس پر کوئی حق نہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس نکتے پر ہمارے سیاستدان راضی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Gharib ka Khoon Choosnay wali Ashrafia By Ansar Abbasi