غلام رسول کے دکھ ! – ارشاد بھٹی
میرا نام غلام رسول ہے، میں چک نمبر 4ایل 43اوکاڑہ کا رہائشی ہوں، کھیتی باڑی کرتاہوں، ایک دن دوپہر کو اپنی موٹرسائیکل پر جا رہا تھا، جب میں ملزم محمد خان ولد نوشیرکی ڈھاری (ڈیرے ) کے قریب سے گزرنے لگا، تواچانک ملزمان محمد اقبال عرف احمد خان، محمد اکرام، محمد زمان، محمد خان میرے سامنے آگئے، ملزمان نے پستول کی نوک پر مجھے روک لیا، جونہی میں رُکا، ملزمان نے میری موٹرسائیکل بند کرکے چابی نکال لی، اسی دوران ملزم محمد زمان نے للکارتے ہوئے کہا کہ مجھے (غلام رسول ) پکڑ کر لے چلو، آج اس کی ٹانگیں توڑنی ہیں، یہ ہمارے خلاف پولیس کو شکایت لگا کر آیا ہے، آج اسے سبق سکھائیں گے، میں نے مزاحمت کی تو ملزمان نے مجھے مارنا شروع کر دیا، جب میں زخمی ہو کر گرگیا تو ملزمان مجھے ٹانگوں اور بازؤں سے اُٹھا کر اپنے ڈیرے پر لے آئے، ڈیرے پر لاکر ملزمان نے پہلے مجھے ٹیوب ویل انجن کے پٹے سے مارا، پھر ملزم بشیر نے میرے گلے میں رسی ڈال کر مجھے گھسیٹنا شروع کر دیا،ملزمان مجھے گھسیٹتے رہے، مارتے رہے، مجھے زمین پر لٹا کر ملزم اقبال میرے دائیں بازو پر جبکہ ملزم محمد زمان میرے بائیں بازو پر کھڑا ہوگیا، مجھ پر تشدد جاری تھا، میری دائیں آنکھ کی بینائی جاچکی تھی، میری ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی، میں خون میں لت پت ہوچکا تھا۔
جب میں نیم بے ہوش ہوگیا تو ملزمان نے للکارتے ہوئے کہا اسے کتا بناؤ، پھر میرے گلے میں رسہ ڈال کر مجھے کہا گیا کتے کی طرح چلو، میں خوف زدہ ہوکر کتے کی طرح چلنے لگا تو مجھے کہا گیا، کتے کی طرح بھونکو، پھر مجھے کتے کی طرح چلاتے ہوئے ملزمان اپنے کتے کے دودھ پینے والے برتن کے پاس لے گئے اور مجھے مارتے ہوئے کہا کہ کتے کی طرح ہمارے کتے کے برتن سے دودھ پیو،میں نے کتے کے برتن سے دودھ پینے سے انکار کیا تو سب ملزمان نے مل کر مجھے پھر مارا، وہ میرے گلے میں رسی ڈال کر کتے کی طرح چلاتے رہے، باربار کتے کے برتن سے دودھ پینے کا کہتے رہے، میرے مسلسل انکار پر مجھے کہا گیا نا ک سے زمین پر لکیریں نکالو،میں نے ناک سے لکیریں نکالیں، اسی دوران میر ا شور شرابہ سن کر اردگرد سے بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے، ملزمان مجھے کبھی کان پکڑواکر، کبھی زمین پر لٹا کر، کبھی ہاتھ بندھوا کر ذلیل کرتے رہے، ملزمان اس سب کی وڈیو بھی بناتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے اگر اب پولیس کو شکایت لگائی تو تمہاری یہ وڈیو وائرل کر دیں گے اور تم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے، میں سب کی منتیں سماجتیں کرتا رہا، اللہ رسول ؐ کے واسطے دیتا رہا، معافیاں مانگتا رہا، مگر کسی کو ذرا بھر ترس نہ آیا، جب مجھ میں بالکل جان نہ رہی، میں بے جان ہو کر گر گیا توآس پاس کھڑے لوگوں نے ملزمان کی منت سماجت کرکے میرے گلے سے رسی کھلوائی، مجھے اٹھا کر چارپائی پر ڈلوایااور میری جان بخشی کروائی، پھر مجھے اٹھا کر گھر لایا گیا، میرے گھر والوں نے پولیس کو فون کیا، پولیس آئی، مجھے فوراً اسپتال لے جایا گیا، جناب اعلیٰ میں بوڑھا آدمی ہوں، میری کوئی سفارش نہیں ہے، ملزمان طاقتور اور کھاتے پیتے لوگ ہیں، مجھے انصاف دلایا جائے ۔
یہ اوکاڑہ کے نواحی چک کے غریب، لاچار غلام رسول کی پولیس کو دی گئی درخواست کا خلاصہ ہے، میر ا دل تو چاہ رہا تھا کہ میں سینیٹ تماشے پر لکھوں، نئی وڈیو، آڈیوکی کہانی بیان کروں، بڑے ایوان میں کس طرح چھوٹے لوگ پیسے کی نقب لگا کر پہنچنے کی کوشش میں ہوتے ہیں وہ داستان بیان کروں، مگر یقین کیجئے جب سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی مظلوم غلام رسول کی چار وڈیوز دیکھیں، تب سے تمام ترکوشش کے باوجود میں آج غلام رسول پر ہوئے ظلم کے علاوہ کچھ لکھ نہیں پایا، کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جوآپ کبھی بھلا نہیں پاتے ، جیسے مختاراں مائی والا سانحہ، سوچئے، باہر پنچایت بیٹھی ہوئی اندر 4لوگ ایک لڑکی سے ریپ کر رہے ہوں، جیسے سیالکوٹ میں وہ دوبھائی جنہیں ہجوم نے ڈنڈے مار مار کر بے خطا مار ڈالا، وہ لمحے جب دونوں بھائی مررہے تھے اور لوگ مسلسل ڈنڈے مار رہے تھے، وہ شریفاں بی بی جسے برہنہ کرکے گلیوں، بازاروں میں پھرایا گیا، اکثر یہ سوچتاہوں کہ جب شریفاں بی بی کو برہنہ کرکے گھمایا جارہا تھا تب وہ سب لوگ جو یہ دیکھ رہے تھے، ان میں رتی بھر بھی غیر ت نہ جاگی، کوئی ایک بھی آگے نہ بڑھا، کسی نے بھی مظلوم بہن کی سرِبازار نیلام ہوتی عزت نہ بچائی، اکثر سوچتا ہوں، ہم اتنے ظالم کیوں ہیں، انسان درندے کیوں بن جاتے ہیں۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا غلام رسول کی، چاروں وڈیوز دیکھ تو لیں مگر اگلے دودن پچھتاتا رہا کہ کاش نہ دیکھتا، اتنا ظلم، اتنی وحشت وبربریت، اتنی درندگی، سوچوں یہ کیوں کہ کوئی طاقتور کسی بے بس کو ننگا کر رہاہے، کوئی طاقتور کسی بے کس کو کتابنا کر بھونکوا رہا ہے، پھر سوچوں جہاں حکومتیں کمزور ہوں، حکومتی رٹ نہ ہو، جزا سزا نہ ہو، وہاں یہی ہوگا، مختاراں مائی کے مجرم چھوٹ گئے، شریفاں بی بی کے مجرموں کا کچھ پتا نہیں، غلام رسول کے مجرم پکڑے بھی جائیں، چند دن، چند ہفتے یا دو چار مہینے جیل، حوالات میں رہ کر باہر، ہوسکتا ہے رہا ہوکر وہ غلام رسول کے ساتھ وہی کچھ دوبارہ کریں جو پہلے کرچکے، ہمارا معاشرہ تو ایسا کہ غریب کی تو ایف آئی آر بھی نہ ہوسکے، میںنے بڑی مشکل سے کہیں سے غلام رسول کا نمبرلیا، بہت کوشش کی کہ اس سے با ت ہوجائے مگر بات نہ ہوسکی، اچھا ہی ہوا بات نہیں ہوئی، میں اسے کیا کہتا، کیسے تسلی دیتا، جو اپنے گاؤں، علاقے میں کتابن کر کتے کی طرح بھونک چکا ہو، لوگوں کے سامنے زمین پر ناک سے لکیریں نکال چکا ہو، جس کے مجرم اس سے طاقتور ہوں، وہ کیا سوچ رہا ہوگا، اسکی ذہنی کیفیت کیسی ہوگی، میں اسے کیا تسلی دیتا، لہٰذا اچھا ہوا میری بات نہ ہوئی، بلکہ میری تو دعا ہےاللہ کرے آپ غلام رسول کی وڈیوز نہ دیکھیں ورنہ ہو سکتا ہے آپ کو بھی میری طرح رونا پڑے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Ghulam Rasool K Dukh By Irshad Bhatti