گردوں کی بیماری اور علاج – ڈاکٹر عبد القدیر
25اکتوبر 2019ء کو لاہور میں نیفرالوجی ڈے منایا گیا تھا۔ اس کے کرتا دھرتا پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد تھے جو خود اس میدان میں مہارت رکھتے ہیں۔ مجھے چیف گیسٹ کے طور پر دعوت دی گئی تھی۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وقت پر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر وقار احمد کا تعلق شیخ زائد اسپتال سے ہے۔ بہت نفیس، ملنسار انسان ہیں۔ عام کانفرنسوں سے قطعی مختلف پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بلکہ درجنوں افراد دیواروں کے ساتھ کھڑے تھے۔ میرا تعلق کیونکہ کراچی سے ہے، اس لئے میں اپنے ہی کالج سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے واقف ہوں وہ کئی دہائیوں سے کراچی میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن سے منسلک ہیں۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا انسٹیٹیوٹ مانا جاتا ہے۔
لیکن یہاں اس کانفرنس میں دو بابائے نیفرالوجی (گردوں کے امراض کی تشخیص و طبی معاملات کا علم) بنام پروفیسر ڈاکٹر طاہر شفیع اور پروفیسر ڈاکٹر جعفر نقوی سے ملاقات ہوئی۔ ان دونوں ڈاکٹر صاحبان نے اس علم کے پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ ان کا بویا ہوا بیج اب ایک تناور درخت بن گیا ہے اور اس کی کئی اعلیٰ شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔ پاکستان سوسائٹی آف نیفرالوجی اس کام میں بہت سرگرم ہے اور لاتعداد لوگوں کے علاج میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ کچھ تفصیل نیفرالوجی اور اس سوسائٹی کے بارے میں پیش خدمت ہیں۔
نیفرالوجی کیا ہے۔ نیفرالوجی اپنی اصل میں طب کے اندر شعبہ میڈیسن کی وہ شاخ ہے جو گردے کے امراض کی تشخیص و طبی معاملات کے بارے میں رہنمائی دیتی ہے۔ گردے ہمارے خون کو صاف کرتے ہیں اور جسم سے فاضل مادہ خارج کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ کام گردے بہت سارے چھوٹے چھوٹے فلٹرز کے ذریعے کرتے ہیں۔ جنھیں ہم Nephronکہتے ہیں انہی فلٹرز کی تعلیم کو نیفرالوجی کہتے ہیں۔ 1985ء سے قبل گردے کے تمام طرح کے امراض کا علاج یورالوجی، ؍ماہر امراض جراہی گردہ اور میڈیسن کے معالج ہی کرتے تھے۔ اس وقت اس چیز کی شدید ضرورت تھی کہ کوئی ایسا شعبہ ہو جو گردے کے میڈیکل مسائل کا صحیح معنوں میں حقیقی اور معیاری علاج کر سکے۔ 1980کی دہائی میں بالآخر پروفیسر ڈاکٹر طاہر شفیع اور پروفیسر ڈاکٹر جعفر نقوی نے ملک پاکستان میں شعبہ نیفرالوجی کا بیج بویا، جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔
پاکستان سوسائٹی آف نیفرالوجی PSN کیاہے، پس منظر اور قیام: کسی بھی مسئلے یا صورتحال سے نمٹنے کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہوتا ہے کہ پہلے مسئلے کی جڑ کو سمجھا جائے اس سے منسلک شدہ اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں اور پھر تمام متعلقہ ماہرین کو ایک فورم پر اکٹھا کر کے ایک مضبوط، مربوط، منظم اور دیرپا حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ گردوں کے مریضوں کو آنے والے ادوار میں بہتر سے بہترین اور جدید سے جدید ترین علاج میسر آسکے۔ بالآخر اسی فکر اور جہد مسلسل کی بدولت PSNکے قیام کا سورج 18مئی 1995ء کو طلوع ہوا جس کی آب و تاب آج تک الحمدللہ قائم و دائم ہے بلکہ روز بروز اس کی روشنائی میں اضافہ ہورہا ہے۔
PSN کا نظریہ: (۱) مستقبل میں پاکستان میں شعبہ نیفرالوجی کی خدمات کے سلسلے میں حکومت وقت سے حکمت عملی طے کرنے کیلئے ایک مشاورتی فورم مہیا کرنا۔ (۲) گردوں کے مریضوں کیلئے جدید ترین اور معیاری علاج کی فراہمی کو یقینی بنانا۔ (۳) شعبہ نیفرالوجی سے متعلقہ ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کی تازہ ترین علم سے آبیاری، طبی مہارت میں پختگی اور نت نئی ایجادات سے آشنائی، اس سوسائٹی کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ (۴) عام آدمی میں گردوں کے امراض سے متعلق شعور اجاگر کرنا اور اتائیت کے سبب گردوں کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام کرنا۔ (۵) شعبہ نیفرالوجی کی وسعت میں اضافہ کرنا اور دوسری اس جیسی سوسائٹیزسے روابط قائم رکھنا۔ (۶) گردے کے مریضوں اور امراض سے متعلق ایک فاضل اور مربوط ڈیٹا بیس تیار کرنا۔ (۷) گردے کے پیچیدہ مسائل کیلئے ایک مشترک حکمت عملی تیار کرنا۔
PSNکا طریقہ کار اور خدمات: ٭ہردو سالہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنا جس میں ملکی و غیر ملکی ماہرین امراض گردہ کی شرکت اس کانفرنس کی خاصیت ہے۔ ٭PSNکے زیر سایہ ایک جریدہ پاکستان جنرل آف کڈنی ڈیزیز (Pakistan Journal of Kidney Diseases) کا متعارف کرنا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٭ماہانہ، سہ ماہی، سالانہ میٹنگز، ورکشاپس اور سیمینار کا انعقاد کرنا۔ ٭خاص کر نیفرالوجی کے طالبعلموں کے لیے تدریسی و مہارتی کورسز کا انتظام کرنا۔
ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو ورلڈ کڈنی ڈے منایا جاتا ہے اس دن آنے والے تمام مریضوں اور ان کے لواحقین اور عام عوام کو گردوں کے امراض سے متعلق آگاہی دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں گردوں کے امراض کو روکا جا سکے۔
گردے کے امراض پر ایک نظر: یہ نہایت المیہ کی بات ہے کہ گردے کے امراض سے متعلقہ اعداد و شمار میسر نہیں لہٰذا گردے کی بیماری میں مبتلا ہونے والی آبادی کا تخمینہ لگانا ایک مشکل امر بن چکا ہے۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق ہر دسواں مریض گردے کا مریض ہے۔ اگر یہی اعداد و شمار ہم اپنے ملک کی 200ملین آبادی پر لاگو کریں تو یہاں ہر سال 20ہزار لوگوں کے گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔
ذیابیطس جہاں پورے کرہ ارض پر محیط ہے وہیں ملک پاکستان میں گردے خراب ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ایسے مریضوں کی تعداد تقریباً 40-50فیصد ہے۔ اس وقت پاکستان میں ذیابیطس کے نئے مریضوں کی تشخیص 6-7فیصد ہے جو کہ 2035ءمیں 11-12فیصد ہو جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں ذیابیطس کے لحاظ سے پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ اس طرح بلند فشار خون (Hypertension) گردوں کی ناکاری کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 26فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ ان کی اکثریت اپنے اس مرض سے لاعلم ہے۔ نتیجتاً بروقت علاج نہ کرنے کے سبب گردے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گردے ناکارہ ہونے کی تیسری بڑی وجہ گردے میں سوزش ہو جانا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں خاص کر جلد اور گلے کے انفیکشن کے بعد یا غیر مناسب ادویات کے استعمال سے۔ مزید برآں گردے میں پتھریاں، حمل کی پیچیدگیاں اور وراثتی مسائل گردے ناکارہ کرنے کی دیگر وجوہات ہیں۔
Read Urdu column Gurdon ki bemari aur ailaaj By Dr Abdul Qadeer Khan
source