ہماری آنکھیں کب کھلیں گی – جاوید چوہدری
یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور یہ دونوں آگے چل کر پوری مسلم دنیا کے مقدر کا فیصلہ کریں گے۔
پہلا واقعہ حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت ہے‘ اسرائیل کی ائیرفورس نے27ستمبرکو بیروت کے مضافات میں رہائشی عمارتوں پر حملہ کیا‘ سات عمارتوں پر بنکر بسٹر میزائل پھینکے گئے جن سے ساتوں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں‘ حزب اﷲ نے 30 برس قبل لیڈر شپ کی حفاظت کے لیے زمین میں مورچے کھود کر ان کے اوپر بلند عمارتیں بنا دی تھیں‘ یہ عمارتیں مورچوں اور لیڈر شپ کا دفاع تھیں لیکن اسرائیل نے ایسے میزائل داغ دیے جو عمارتوں کو توڑ کر مورچوں میں داخل ہو گئے اور حسن نصر اللہ‘ ان کی صاحب زادی زینب اور ایران کی القدس بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر جنرل عباس نیلفروشن شہید ہو گئے۔
اسرائیل نے اس دن لبنان میں 140 حملے کیے تھے جن کے نتیجے میں حزب اﷲ کو شدید نقصان اٹھانا پڑا‘ یہ حملے اس سیریز کا حصہ تھے جن کے ذریعے اسرائیل ایران‘ حماس اور حزب اﷲ کو نقصان پہنچا رہا ہے‘اسرائیل نے 7 اکتوبر2023سے اب تک غزہ پر ہزاروں حملے کیے جن میں لاکھ کے قریب لوگ شہید اور زخمی ہو چکے ہیں اور پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے‘ آج غزہ میں کوئی ایک عمارت سلامت نہیں‘ زخمیوں کے پاس ادویات اور خوراک تک نہیں‘ اس کے بعد ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو 9لوگوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں قتل کر دیا گیا۔
یہ حادثہ بھی ایک سازش تھی‘ ایرانی ماہرین کا خیال ہے سیٹلائیٹ کے ذریعے ہیلی کاپٹر کا انجن اور نیوی گیشن سسٹم جام کر دیا گیا تھا جس سے ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا اورصدر ابراہیم رئیسی شہید ہو گئے‘ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ، ابراہیم رئیسی کے جنازے میں شرکت کے لیے تہران آئے اور انھیں 31جولائی 2024کو ان کی رہائش گاہ پر میزائل داغ کر شہید کر دیا گیا‘17ستمبر کو لبنان میں تین ہزار پیجرز پھٹ گئے جس کے نتیجے میں 13لوگ ہلاک اور 2800زخمی ہو گئے‘ دوسرے دن واکی ٹاکیز اور سولر سسٹم پھٹ گئے‘ ان میں بھی 20لوگ شہید ہو گئے اورجمعہ27 ستمبر کو حسن نصر اللہ کو بھی شہید کر دیا گیا اور اسرائیل اب ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کو تلاش کر رہا ہے۔
آیت اللہ اسرائیل کا اگلا ٹارگٹ ہیں‘یہ سارا معاملہ ایران کے القدس بریگیڈ کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے شروع ہوا تھا‘ امریکا نے جنرل قاسم سلیمانی کو 2020میں بغدادائیرپورٹ پر ڈرون حملے میں شہید کر دیا تھا‘ یہ ایران کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا‘ امریکا اور اسرائیل کا خیال تھا ایران اس کا بدلہ ضرور لے گا لیکن ایران اسے برداشت کر گیا‘ ایرانی زعماء کا خیال تھا یہ حملہ ’’ٹریپ‘‘ ہے‘ عالمی طاقتیں ہمیں کسی بڑی جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں‘ ہم نے اگر قاسم سلیمانی کا بدلہ لیا تو جنگ شروع ہو جائے گی لہٰذا ایران اس نقصان کو پی گیا لیکن اس کے نتیجے میں حملوں اور ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ حسن نصراللہ کے بعد یمن پر بھی اسرائیلی حملے شروع ہو چکے ہیں جس کے ردعمل میں منگل کی رات ایران نے اسرائیل پردو سو میزائل داغ دیے جس کے بعد اب جنگ میں کوئی کسر نہیں رہی‘ ہمارا پورا خطہ کسی بھی وقت دہکتا ہوا تندور بن سکتا ہے۔
عالم اسلام میں اس وقت دو سوال کیے جا رہے ہیں‘ اسرائیل کی جارحیت پر اسلامی ملک کیوں خاموش ہیں اور کیا ایران پر براہ راست حملہ ہو سکتا ہے‘ پہلے سوال کا جواب ہے اسلامی دنیااس لڑائی کو شیعہ اسرائیل جنگ سمجھ رہی ہے‘ فلسطین میں 1948سے مسائل چل رہے ہیں‘ ان 76 برسوں میں فلسطین کی سنی آبادی کا اکثریتی حصہ عرب ملکوں میں شفٹ ہو گیا‘ پیچھے شیعہ آبادی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے لبنان‘ شام‘ اردن‘ یمن اور غزہ میں ایران کا اثرونفوذ بڑھ گیا چناں چہ عرب اسے اب شیعہ ، یہودی جنگ سمجھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں جب کہ یہ جنگ دراصل مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن نہیں، ٹھہریے، یہ جنگ اصل میں علم اور جہالت اور ٹیکنالوجی اور پس ماندگی کی لڑائی ہے۔
دنیا میں ایک ارب 90 کروڑ مسلمان ہیں جب کہ اسرائیل کی کل آبادی 93 لاکھ ہے‘ یہ ایک کروڑ بھی نہیں ہیں اگر اس کی شرح نکالی جائے تو یہ آدھ فیصد بنتی ہے گویا آدھ فیصد لوگوں نے ننانوے اعشاریہ پانچ فیصد لوگوں کو 76 برسوں سے آگے لگا رکھا ہے جب کہ مسلمان صورت حال کی نزاکت کا اندازہ کرنے کے بجائے اسے شیعہ اور یہودی لڑائی سمجھ رہے ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں اسرائیل یا یہودی، سنی مسلمانوں کے مقابلے میں شیعہ مسلمانوں کے زیادہ خلاف ہیں‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ نبی اکرمؐ کے زمانے میں خیبر یہودیوں کا معاشی اور عسکری سینٹر تھا‘ اسے سات ہجری میں حضرت علیؓ نے فتح کر کے عرب دنیا سے یہودیوں کا اثرونفوذ ختم کر دیا تھا چناں چہ یہودی شیعہ سے تاریخی وجوہات سے نفرت کرتے ہیں۔
دوم اسرائیل کے دائیں بائیں موجود ممالک میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ ایران کی حفاظت میں بھی ہیں لہٰذا اسرائیل 50 سال سے شیعہ مسلمانوں سے جنگ کر رہا ہے‘ عالم اسلام صورت حال کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہا‘ اس کا خیال ہے یہ لڑائی صرف اسرائیل ایران یا یہودی شیعہ تک محدود رہے گی جب کہ اسرائیل سعودی عرب سمیت پورے مڈل ایسٹ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے‘ اس کی نظر میں ہر مسلمان خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی دشمن اور قابل گردن زنی ہے لہٰذا یہ اس لڑائی کو ترکی‘ پاکستان اور انڈونیشیا تک لے کر جائے گا‘ دوسرا سوال کیا ایران پر براہ راست حملہ ہو سکتا ہے‘ جی ہاں یہ ہو گا لیکن سردست ایران کا سب سے بڑا دفاع روس ہے‘ روس نہیں چاہتا امریکا اور اسرائیل اس کی سرحد تک پہنچ جائے لہٰذا یہ ایران کو فل سپورٹ کر رہا ہے۔
دوسرا ایران کے دائیں بائیں افغانستان‘ پاکستان‘ ترکی اور سینٹرل ایشیا جیسے طاقتور ہمسائے ہیں‘ ترک فوج اور قوم دونوں مضبوط ہیں‘ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اس کی 20فیصدآبادی شیعہ ہے‘ اس کی فوج بھی مضبوط ہے‘ سینٹرل ایشیا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور افغانستان اب تک تین عالمی طاقتوں برطانیہ‘ سووویت یونین اور امریکا کو پسپا کر چکا ہے لہٰذا امریکا اور اسرائیل کو اندیشہ ہے یہ ممالک کہیں ایران کے ساتھ کھڑے نہ ہو جائیں اور اس خطرے کے پیش نظر ترکی اور پاکستان کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے عوام اور فوج میں دوری پیدا کی جا رہی ہے‘ انھیں معاشی طور پر کم زور اور آئی ایم ایف کا غلام بھی بنایا جا رہا ہے تاکہ یہ کسی وقت کھل کر ایران کی حمایت نہ کر سکیں جب کہ سینٹرل ایشیا کو فوجی لحاظ سے کم زور رکھا جا رہا ہے اور ان کی حکومتیں بھی امریکا نواز ہیں‘ عرب ملکوں میں بھی بادشاہت کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے‘ تمام عرب ملکوں کے شاہی خاندانوں کو باور کرایا جا رہا ہے، ہم اگر آپ کی حمایت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو آپ کے تخت گر جائیں گے اور عوام ملک پر قابض ہو جائیں گے‘ یہ کارڈ بھی عرب ملکوں کو خاموش بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے۔
میرا خیال ہے اسرائیل ایران پر ہلکے ہلکے حملے کرتا رہے گا‘ یہ اسے جنگ پر مجبور کرتا رہے گا تاکہ ایران کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچے اور اگر جنگ ہو گئی تو امریکا اور اقوام متحدہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیں گے‘ پاکستان کی امداد میں اضافہ کر دیا جائے گا‘ بھارت کو پاکستان میں چھیڑ چھاڑ سے روک دیا جائے گا اور بی ایل اے کو ایران میں پناہ دلا دی جائے گی تاکہ پاکستان کے پاس ایران کی حمایت نہ کرنے کا جواز موجود ہو‘ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں شیعہ وزیراعظم آ جائے گا تاکہ پاکستان کی20 فیصد شیعہ آبادی کو مطمئن کیا جا سکے لیکن سوال یہ ہے کیا اس جنگ کے اثرات پاکستان کو متاثر نہیں کریں گے؟ پاکستان خوف ناک حد تک متاثر ہو گا‘ ہم آج تک افغان وار کے اثر سے باہر نہیں آ سکے۔
ایران کی جنگ ہمارا رہا سہا اسٹرکچر بھی تباہ کر دے گی‘ دوسرا سوال کیا پاکستان اسرائیلی جارحیت سے بچ جائے گا؟ جی نہیں ایران اور ترکی کے بعد پاکستان کی باری ہے‘ اسرائیل کے لیے پاکستان کا ایٹم بم ناقابل برداشت ہے لہٰذا یہ اسے چھین کر رہے گا‘ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بھی ہمارا ایٹمی پروگرام ہے‘ یہ اسے بند کرانے کے لیے پیدا کیا گیا اور جان بوجھ کر روز بروز اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہو سکے‘ بی ایل اے بھی اس کی ایک کڑی ہے اور ٹی ٹی پی بھی۔
ہم اب آتے ہیں دوسرے واقعے کی طرف‘ ایک طرف اسرائیل حسن نصراللہ کو شہید کر رہا ہے‘ یمن پر حملے کر رہا ہے جب کہ دوسری طرف ہمارے علماء کرام ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف فتوے جاری کر رہے ہیں‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک 30ستمبرکو پاکستان تشریف لائے‘ ان کی آمد سے پہلے ہی ان کے خلاف کمپیئن شروع ہو گئی‘ علماء کرام نے ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر ان کے لباس‘ خیالات اور عقائد پر حملے شروع کر دیے‘ علماء کرام کو ان کے اسٹیٹ پروٹوکول پر بھی اعتراض ہے‘ آپ ایک طرف اسرائیل کی جارحیت دیکھیے‘ اس کا وار ڈیزائن دیکھیے‘ یہ دھڑادھڑ مارتا چلا جا رہا ہے‘ یہ تیزی سے ایران کی طرف بھی بڑھ رہا ہے اور آپ دوسری طرف سنجیدگی ملاحظہ کیجیے۔
ہم کبھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے راستے میں چارپائی بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں اپنی ہی سڑکیں بند کر دیتے ہیں‘ ہم کبھی سپریم کورٹ کا گھیراؤ کر لیتے ہیں اور کبھی چیف جسٹس کی ڈونٹس کی وڈیو لیک کر کے تالیاں بجاتے ہیں‘ ہم کبھی لاہور بند کر دیتے ہیں اور کبھی راولپنڈی اور کبھی ریڈزون پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے یہ تماشے جان بوجھ کر ہو رہے ہیں‘یہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہو رہے ہیں اور ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے پاکستان کو ایران کی حمایت کے قابل نہ چھوڑنا‘ پاکستان کوایٹم بم سے محروم کرنا‘اسے چار چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا اور پورے عالم اسلام کواسرائیل کا غلام بنانا‘ مجھے نہیں معلوم ہماری آنکھیں کب کھلیں گی۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Hamari Ankhain Kab Khulain g By Javed Chaudhry
Comments are closed.