ہماری منصوبہ بندیوں میں اللہ شامل نہیں – اوریا مقبول جان
گزشتہ سال ہم اس وبا کی آزمائش سے گزرے۔ اللہ نے ہماری جان بخشی کی اور ہمیں اس سے نکلنے میں مدد کی۔ وہ جنہیں اللہ نے بصیرت و بصارت کی نعمتوں سے سرفراز کیا ہے، بتاتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم پر یہ کرم اس لیے ہوا کہ جیسے ہی یہ آفت نازل ہوئی، ہمارے صاحبانِ حیثیت نے انفاق کا راستہ اختیار کیا۔ ہر کوئی ان تنگ دستوں ، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کو لپکنے لگا، جنہیں اس گھڑی میں ضرورت تھی۔ لیکن اس مشکل سے نکلنے کے بعد ہمارے حکمرانوں، اہلِ سیاست اور اربابِ حل و عقد کے اعتماد میں اضافہ ہوا، انہوں نے اپنی تدبیروں پر تکّبر کیا، اپنے لیڈر کی حکمتِ عملی کی ستائش کی اور یہ بھول گئے کہ ’’کورونا‘‘ کا اس طرح ٹل جانا اللہ کی خاص مہربانی تھی۔ ہم پر یہ رحم و کرم مستقل بھی رہ سکتا تھا۔ ممکن تھا کہ ہم بھی آج اس فہرست میں شامل ہوتے جن ممالک پر میرا ربّ ابھی تک مہربان ہے۔وسائل سے محروم، لیکن پھر بھی کورونا سے آزاد، جیسے لاؤس، گرینڈا، تنزانیہ، بھوٹان، مارلشیش، ویت نام، آسٹریا، برنڈی، بار با ڈوس، چاڈ، نائجیریا، گیمبا اور بینن جیسے کم از کم ایک سو ممالک ،غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے والے، صحت اور حفظانِ صحت کی سہولیات سے دور، صاف پانی اور سیوریج سے بھی محروم، لیکن اللہ نے انہیں کورونا سے محفوظ رکھا ہواہے۔ کورونا دراصل گذشتہ صدی میں ہونے والی طب کے میدانوں میں حیران کن ترقی پر انسان کے غرور و تکّبر کا الٰہی جواب ہے۔ یہ خصوصاً ان جاہل اور دلیل سے عاری سیکولر،لبرل حضرات کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے جو زلزلوں، سیلابوں اور متعدی بیماریوں کے عالم میں یہ اعتراض اٹھایا کرتے تھے کہ ،یہ کیسا رب ہے کہ جس کے عذاب کا شکار صرف غرباء و مساکین ہوتے ہیں۔ جن کے پاس وسائل ہوتے ہیں، ان کے مکان شدید زلزلوں اور پرشور طوفانوں میں بھی محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن میرے اللہ نے اس دفعہ ایسے ملکوں، شہروں اور علاقوں کو چنا، جہاں وسائل کی کمی تھی نہ تدبیر کرنے والے سائنس دانوں اور ماہرینِ طب کا گھاٹا۔پھر صرف انہی پر ایسا حملہ ہوا کہ سب کے سب دم بخود ہو کر رہ گئے۔ بڑے بڑے شہروں کی حالت بالکل ویسی ہی نظر آنے لگی، جیسی قرآن پاک میں بستیوں پر عذاب کے نزول کے وقت بیان کی گئی ہے جیسے ’’وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے‘‘(ھود:943)، ’’ایسے برباد ہو گئے کہ وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے‘‘ (الاعراف:92)۔ قرآن پاک میں عذاب زدہ بستیوں کے اجڑنے کا جو منظر بیان ہوا ہے، آج دنیا کے بڑے شہروں کے تعیش کدوں کا ویسا ہی منظر ہے۔ ہر شخص جس کو میڈیسن کی ذرا سی شدھ بدھ اور سائنسی علم سے آشنائی ہے، وہ جانتا ہے کہ وائرس اللہ تبارک و تعالی کی ایک ایسی تخلیق ہے جسے ابھی تک مارنے پر انسان قادر نہیں ہوسکا۔ اس لئے کہ یہ ابتدائی طور پر ہی ایک زندہ چیز نہیں ہوتا۔ اگرچہ وائرس اپنے وجود میں ایک پورا جینیاتی نظام (Genetic system) رکھتا ہے، جسے سائنس کی اصطلاح میں ’’ڈی این اے‘‘ کہا جاتا ہے، جوکسی بھی جسمانی نظام کو ایک قائد کے طور پر ہدایات دے سکتا ہے۔ انہی ہدایات کو’’Genetic instructions‘‘کہا جاتا ہے۔ ہدایات کاایسا ہی مکمل نظام اس چھوٹے سے ’’فتنے‘‘ وائرس میں بھی موجود ہوتا ہے۔ مگر اس نظام کے باوجود بھی ایک وائرس انسانی جسم کے باہر کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسے ہی یہ وائرس کسی جاندار انسان یا حیوان کے خلیے سے ملتا ہے تو پھر یہ اس کے اندر داخل ہو کرزندگی پاتا ہے۔یہ اس خلیے کے ڈی این اے پر غاصبانہ قبضہ کر لیتا ہے اور اس کے جینیاتی ہدایات کے نظام کو’’ہائی جیک‘‘ کر لیتا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد، وہ انسانی جسم کو اپنی مرضی کی ہدایات دینا شروع کر دیتا ہے اور جسم پر اسی کا مکمل راج شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اپنی شکلیں اور ہیئت بدلتا رہتا ہے اس لیے ہر دوسرے لمحے ویکسین بدلنا پڑتی، کیونکہ اسے مارنا تو ممکن نہیں، اسے صرف محدود کیا جا سکتا ہے،خوابیدہ (Dormant) کیا جا سکتا ہے۔اس کی اس حالت کو میڈیکل کی زبان میں مخفی ہونا یا چھپا ہونا کہتے ہیں اور اس کے لیے لفظ ’’Virus Latency‘‘استعمال ہوتا ہے۔ سائنسدان آج تک وائرس کے آغاز سے بھی آشنا نہیں ہو سکے۔ جیسے ہی یہ اپنی زندگی پوری کرتا ہے تو اس کا وجود مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اپنا کوئی نام و نشان نہیں چھوڑتا۔اسی لیے جب یہ مرتا ہے تو اس کا کوئی’’ Fossil‘‘ نہیں بنتاتاکہ ہزاروں سال بعدبھی کوئی اس پر تحقیق کر سکے۔ طب کی دنیا جانتی ہے کہ ویکسین کسی بھی وائرس کا علاج نہیں ہوتی بلکہ وائرس سے ہوبہو قسم کی ایک چیز تخلیق کی جاتی ہے جو بے ضرر ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ جسم میں داخل ہوتی ہے، انسان کا مدافعاتی نظام اس سے لڑنے کے لیے اپنی تمام تر قوتیں مجتمع کرکے اس سے لڑائی میں جُت جاتا ہے اور اس سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کر دیتا ہے۔ اس دوران اگر اصل وائرس جو ویکسین سے مشابہ ہوتا ہے ، وہ جسم میں داخل ہو تو چونکہ مدافعاتی نظام کے چوکیدار پہلے سے ہی چوکنا ہوتے ہیں، اس لیے وہ اسے مار مار کر ادھ موؤاکر دیتے ہیں۔ کورونا کی تمام ویکسیین جو ابھی تک ایجاد ہوئی ہیں، ان کے بارے میںسائنسدانوں کو علم ہے کہ یہ بہت ہی کم شواہد کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں اور ’’Hit and Trial‘‘ یعنی لگاؤ اور اگر کام کر گئی، تو خوب ورنہ مزید تحقیق کر لیں گے کی بنیاد پر استعمال ہو رہی ہیں۔ انسان کی بے بسی اس بات سے مزید عیاں ہوتی ہے کہ وہ آج ایک ویکسین تیار کرتا ہے تو وائرس اپنی شکل بدل لیتا ہے اور پھر یہ ویکسین بے کار۔ اس بے بسی کے باوجودبھی تدبیر کے غلام اور ٹیکنالوجی کے پرستاروں کے منہ سے ابھی تک بحیثیت مجموعی یہ صدا بلند نہیں ہوئی کہ اے اللہ !ہم بے بس ہو گئے ،اے مالکِ کائنات! ہم پر رحم فرما۔ تمام مذاہب کے لوگ ابھی تک اپنا بھروسہ ان تحقیقوں اور حفظانِ صحت کی احتیاطوں پر ہی قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وبا نے ابھی تک اتنی شدت اختیار نہیں کی اور لوگوں کو ابھی تک دیکھ بھال کرنے والے میسر ہیں۔ ہماری تمام تدبیریں درست ہوں گی لیکن ہماری پلاننگ یا منصوبہ سازی میں اللہ کی طرف رجوع، اس سے مدد مانگنا اور بحیثیت قوم اجتماعی طور پر رحم طلب کرنا بالکل شامل نہیںہے۔ ہماری تمام منصوبہ سازی آکسیجن سیلنڈر، وینٹی لیٹر، ماسک، سینی ٹائزر، لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے تک محدود ہے۔ اس میں ایک اجتماعی دعا،ایک اجتماعی استغفارتک شامل نہیں۔ ہم گذشتہ سال صرف اللہ کے فضل سے اس بحران سے نکلے تھے ،ہر گز اپنی تدبیروں سے نہیںنکلے تھے ۔اگر ابھی بھی ہم صرف تدبیروں پر ہی بھروسا کرتے رہے تو مجھے اس منظر کا سوچ کر بھی خوف آرہا ہے جب اللہ ہم کو بالکل بے بس کر دے گا۔ اے اللہ ہم پر رحم فرما، ہم سے درگزر فرما۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Hamari Mansooba Bandion main Allah Shamil nai By Orya Maqbool jan